بی جے پی نے گزشتہ الیکشن میں دوتہائی اکثریت تو حاصل کرلی لیکن بھارت کو زبردست بحران کا شکار کردیا۔ ملک کی ان اساسی نظریاتی اور آئینی بنیادوں کو ہلاکر دیا جن پر ایک کثیر القومی، نسلی اور مذہبی ریاست کی عمارت استوار کی گئی تھی۔آج کی بی جے پی اٹل بہاری واجپائی کی سوچ سے نہ صرف مختلف ہے بلکہ متصادم نظریے کی پارٹی بن چکی ہے ۔ اس کی مہار آرایس ایس کے ہاتھ میں ہے جو جرائم پیشہ مافیا اور سخت گیر اوراقلیتو ں کے مخالف سرکاری حکام کے گٹھ جوڑسے ملک پر حکومت کرتی ہے۔ مسلمان خاص طور پر نریندر مودی اور ان کی حکومت کے ستم کا شکار ہیں۔ بھارت کے معروف اور معتبر دانشور اے جی نورانی نے اپنے ہفتہ وار کالم میں لکھا کہ گزشتہ الیکشن میں مود ی جہاں جاتے مقامی کلچر کی ٹوپی سر پر رکھتے تاکہ ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ کیا جاسکے۔ مسلمانوں کی ٹوپی پیش کی گئی تو انہوں نے اسے سر پر رکھنے سے انکار کردیا۔نورانی لکھتے ہیں کہ 2019ئکے الیکشن میں بی جے پی نے لوک سبھا کا ایک ٹکٹ بھی کسی مسلمان امیدوار کو نہ دیا۔ اترپردیش جو بھارت کی سب سے بڑی ریاست ہے کا وزیراعلیٰ ایک ہندو ٹرسٹ کے سربراہ کو بنایا جو مسلمانوں کے خلاف سرعام نفرت انگیز تقریریں کرتااور تعصب پھیلاتاتھا۔ شہریت کا قانون پارلیمنٹ سے منظور کراکربی جے پی نے ایک اور پنڈورا باکس کھول دیا۔ آسام کے بیس لاکھ مسلمانوں کو جو کسی وجہ سے رجسٹرڈ نہیں ہوپائے تھے کو شہریت سے محروم کردیا گیا۔ آسام میں ان شہریوں کے لیے حراستی کیمپ بنائے جارہے ہیں جہاں انہیں مقید کیا جائے گا اور اس کے بعد ملک بدر۔ کشمیر یوں سے اس سے بھی بدتر سلوک کیاجارہاہے۔ بھارت کے چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل بیپن راوت نے کہا کہ کشمیری نوجوانوں بالخصوص بارہ سے سولہ برسوں کے بچوں کو حراستی کیمپوں میں رکھاجائے گا جہاں ان کے قلب وذہن کی تطہیر کی جائے گی۔چین میں ایسے کیمپ بنائے گئے ہیں جہاں مسلمانوں کو رکھا جاتاہے۔ ان کیمپوں پر دنیا چیخ اٹھی تھی۔ جنرل راوت کے بیان پر نیویارک ٹائمز نے ایک طویل اور زوردار مضمون لکھا ۔جنرل راوت کے جانشین جنرل منوج مکندن رونے بھی اپنے پیش رو سے زیادہ عقاب صفت اور جوشیلے نکلے۔ فرماتے ہیں کہ وہ آزادکشمیر پر قبضہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ راوت کو چیف آف ڈیفنس سٹاف بنانا بھی بھارت کی پاکستان پالیسی میں تسلسل کی ایک علامت ہے۔ وہ نہ صرف سخت گیر ہیں بلکہ کشمیریوں کے خلاف طاقت کے استعمال کے پرچارک بھی۔ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے فوج کے ایک ایسے میجر کو انعام واکرام سے نواز ا جس نے ایک کشمیری نوجوان کو جیپ کے آگے باندھ کر گلیوں اور بازاروں میںگھمایا تھا۔ ان کا یہ بیان بھی لوگ ابھی تک نہیں بھولے کہ کاش کشمیری نوجوان فورسز پر پتھر کے بجائے ہتھیاروں سے حملے کریں تاکہ انہیں سبق سکھایاجاسکے۔ اکیسویں صدی میں شہریوں سے انٹرنیٹ کی سہولت چھین لینے کا مطلب ہے کہ آپ انہیں اندھیرے میں دھکیل رہے ہیں۔ کشمیریوں سے کمیونیکیشن کے ذرائع چھین کر انہیں بے بس کردیاگیا ہے۔ ذرائع ابلاغ سے محروم، دنیا سے بے خبر اور ایک دوسرے سے رابطے نہ کرسکنے کی وجہ سے کشمیری اپنے آپ کو حراستی کیمپوں میں ہی محسوس کرتے ہیں۔طویل بحث ومباحثے کے بعد 153 ویب سائیٹس جموں کے شہریوں کے لیے کھولی گئی ہیں۔کہاجاتاہے کہ کشمیر ویلی میں بھی صرف ان ویب سائیٹس کو دیکھنے کی اجازت ہوگی۔ سوشل میڈیا بند، وائٹس اپ بند اور تو اور صرف تفریح اور بچوں کے چینلز دیکھنے کی اجازت ہوگی۔ یعنی اب کشمیری اطلاعات، معلومات اور بیرون ملک یونیورسٹیوں میں داخلوں کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال نہیں کرسکیں گے۔ آج کے زمانے میں اس طرزعمل کو Internet apartheid کہاجاتاہے۔ دنیا کے کسی بھی دوسرے خطے میں اتنی طویل مدت کے لیے انٹرنیٹ کی بندش کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ حکومت پاکستان نے حالیہ چند ماہ کے دوران کشمیر کے حالات پر اقوام عالم کو باخبر کرنے کی جو کوششیں کیں اب ان کے ثمرات نظر آناشروع ہوچکے ہیں۔مسئلہ کشمیر پر دوطرفہ مذاکرات یا بھارت کے ساتھ براہ راست بات چیت کا دروازہ بند کرکے اسے عالمی فورمز بالخصوص اقوام متحدہ میں اٹھانے کا فیصلہ کیا گیاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شملہ معاہدے کے بعد مسئلہ کشمیر کی عالمی حیثیت ختم ہوچکی تھی اور یہ مسئلہ دوطرفہ بن گیاتھا۔ شملہ معاہدے کے بعد اقوام متحدہ کا کردار تمام ہوا اور دنیا نے شملہ معاہدے کوپاک بھارت تعلقات میں اساسی حیثیت دینا شروع کی۔دنیا نے بھی کشمیر کو دوطرفہ تنازعہ کے عدسے سے دیکھنا شروع کیا۔ اگرچہ سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر موجود رہا لیکن یہ محض ایک علامتی موجودگی تھی۔اب بسیار کوششوں اور چین کی مدد سے دوبارہ یہ مسئلہ سلامتی کونسل میں زیربحث آنا شروع ہوا ہے۔ کنٹرول لائن پر موجود اقوام متحدہ کے مبصرین کے مینڈیٹ میں اضافہ کے حوالے سے بھی مثبت پیش رفت نظر آتی ہے۔ چھ ماہ میں دوسری مرتبہ کشمیر پر سلامتی کونسل کا اجلاس ہونا اور گزشتہ دوبرسوں میں انسانی حقوق کونسل کی طرف سے مسلسل کشمیریوں کے حق خودارادیت کا احترام کرنے کے مطالبے سے مسئلہ کشمیر کی عالمی حیثیت بحال ہونا شروع ہوگئی ہے۔یاد رہے کہ آٹھ اگست کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی پوزیشن اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ہے۔ چین کے اقوام متحدہ میں مندوب نے حالیہ اجلاس کے بعد کہاکہ چین کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ قرادیتاہے اور چاہتاہے کہ یہ مسئلہ کشمیریوں کی رائے کے مطابق حل ہو۔مسئلہ یہ ہے کہ عالمی نظام پیچیدہ بھی اور سست رو بھی۔ امریکی کانگریس سے ملنے والی حمایت میں بتدریج اضافہ ہورہاہے اور بھی ہوگا کیونکہ بھارت نے خود ہی حالات کو نہ صرف بگاڑا ہے بلکہ اپنی غلطی پر اصرار بھی کررہاہے۔ غلطی اتنی تباہ کن نہیں ہوتی جنتا اس پر اصرار اور اس کا دفاع ہوتاہے۔ بھارت کے داخلی بحران اور احتجاج نے بھی دنیا کو کشمیریوں کی طرف متوجہ کیا ہے۔ انہیں احساس ہورہاہے کہ اگر بھارتی شہریوں کی اس وسیع پیمانہ پر مار پیٹ کی جاسکتی ہے تو کشمیری تو کسی کھاتے میں نہیں آتے۔