کشمیر سے بھی آرٹ، کلچر اور زبان کے شعبہ میں کسی ایسے شخص کی موجودگی سے لوگ نابلد تھے۔ میں نے قیاس لگایا کہ ہو نہ ہو یہ ایوارڈ تاریخ جموں کے مصنف مولوی حشمت اللہ لکھنوٗی کو دیا گیا ہوگا ۔ میں نے ایک مختصر پروفائل لکھ کر خبر بھیج دی۔ اگلے روز صبح سویرے کشمیر ٹائمز کے ایڈیٹر وید بھیسن کا فون آیا اور وہ سخت غصہ میں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ تاریخ جموں کے مصنف حشمت اللہ تو 1928ء میں ڈوگرہ حکومت کی ملازمت سے ریٹائرڈ ہوگئے تھے اور یہ کتاب بھی انہوں نے 1936ء میں شائع کی تھی۔ ان کے عزیزواقارب بھی غالباً پاکستان ہجرت کر چکے ہیں۔ خیر ڈانٹ کھانے نے بعد میں نے وزارت داخلہ میں اس شعبہ کے افسران سے رابط کیا۔ وہ بھی حشمت اللہ کے بارے میں بتانے سے قاصر تھے ۔ ان کا بس یہی کہنا تھا کہ ان کے پاس ان کے نام کی سفارش آئی تھی۔ اسی دوران وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اور جموں کشمیر کلچر اکیڈیمی نے کہا کہ انہوں نے کسی حشمت اللہ کا نام قومی ایوارڈ کیلئے نئی دہلی نہیں بھیجا ہے ۔ اگلے دو دن تک اس ایواڈ یافتہ حشمت اللہ کی شخصیت خاصی پر اسرار رہی ۔ کسی کو معلوم نہیں ہو پا رہا تھا کہ آخر یہ شخصیت ہے کون؟ وزارت داخلہ اور رپورٹروں نے جب چھان بین کی تو معلوم ہوا کہ پرانی دہلی کے چاندنی چوک علاقے میں حشمت اللہ نامی شخص کشمیری دست کاری مصنوعات کے تاجر ہیں۔ انہوں نے ایک مقامی ممبر اسمبلی اور دہلی حکومت میں بعد میں وزیر ہارون یوسف کو کشمیری شالوں کاتحفہ دیکر درخواست کی تھی کہ ان کو وزارت ٹیکسٹائل سے کوئی ایوارڈ دلوادیں اور بیرون ملک دستکاری کی نمائش میں ان کو بھی وفد میں شامل کروائیں۔ستم ظریفی تو یہ ہوئی کہ یوسف کاسفارشی لیٹر وزارت ٹیکسٹائل کے بجائے وزارت داخلہ پہنچا ، جہاں پدما ایوارڈ کی فہرست بن رہی تھی اور افسران نے ان کو فہرست میں شامل کردیا۔ چونکہ ایوارڈ واپس اب نہیں لیا جاسکتا تھا ، اس لئے پوری ڈھٹائی کے ساتھ ان کے سپاسنامہ میں لکھا گیا کہ حشمت اللہ کی کاوشوں سے کشمیر شالوں کی ایک نایاب قسم کانی شال ، جو ناپید ہوچکی تھی کو زندگی ملی ہے اور اس آرٹ کو زندہ رکھنے کیلئے ان کی عزت افزائی کی جاتی ہے۔ اسی طرح اگلے سال یعنی 2010ء میں یہ ایوارڈ بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں کی ایما پر قائم کی گئی ملیشیا اخوان المسلمون کے کمانڈر غلام محمد میر المعروف ممہ کنہ کو دیا گیا۔ اس بار سفارش سول سوسائٹی کے ایک رکن اور سابق بیورکریٹ وجاہت حبیب اللہ کی طرف سے آئی تھی۔ وجاہت کا کہنا تھا کہ جب وہ 90ء کی دہائی میں کشمیر میں ڈیوژنل کمشنر تھے، تو بس ممہ کنہ ان کے دربار میں حاضر ہو کر مقامی مسائل سے انکو آگاہ کرتے تھے۔ ان اخوانیوں یاسرکاری بندوق برداروں کے مظالم کی داستان خاصی طویل ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جو کام بھارتی فوج یا دیگر سکیورٹی ایجنسیاں نہیں کرپائیں ، انہوں نے خوف و دہشت کی فضا قائم کرکے بھارت کے لیے وہ ہدف حاصل کرلیا۔ وہ یقینا کسی بھارتی فوجی ایوارڈ کا مستحق تھا۔ مگر سویلین ایوارڈ کسی ایسے شخص کو دینا ایوارڈ اور انسانیت کے ساتھ صریح زیادتی تھی۔ ممہ کنہ کے ساتھ میری ایک یاد گار ملاقات غالبا 1996ء یا 1997ء میں ہوئی تھی۔ میں سوپور قصبہ سے سرینگر کی طرف بس میں رواں تھا۔ پروگرام تھا کہ سرینگر میں ایک رات قیام کے بعد اگلی صبح جموں اور پھر دہلی آکر ڈیوٹی جوائن کروں گا۔ تقریباً 30 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد سویلین کپڑوں میں ملبوس کچھ بندوق بردار ایک جگہ بسوں کو قطار میں کھڑا کر کے سواریوںکو نیچے اترنے کا حکم دے رہے تھے۔ معلوم ہو ا کہ یہ ممہ کنہ کا اسکواڈ تھا، جو خود بھی موقع پر موجود تھے۔ایسا لگ رہا تھا، کہ کوئی سرچ آپریشن ہے‘ مگر جب برلب سڑک ہمیں قطار میں آگے بڑھنے کا حکم دیا گیا ، توایک بندوق بردار جامہ تلاشی کے نام پر سواریوں کے بٹوے اور پرس چھین کر پاس ہی دوسرے ساتھیوں کے حوالے کر رہا تھا۔ جب کسی نے ان پرسوں سے کچھ روپے واپس کرنے کی ذرا سی بھی درخواست کی، تو اس کو یہ بندوقچی بری طرح جھڑکتے تھے۔سڑک سے متصل سیب کے ایک باغ میں دور مجھے چند وردی پوش فوجی ٹہلتے ہوئے نظر آئے۔ ان جنگجوئوں سے نظریں بچاکر میں ان فوجیوں کر طرف بڑھا، نزدیک پہنچ کر معلوم ہوا، کہ ایک فوجی افسرسیب کے ایک پیڑ کے سائے میں کرسی پر براجمان چائے نوش فرما رہے تھے اور یہ سپاہی ان کی گارڈ پر متعین تھے۔مجھے افسر کی طرف بڑھتے دیکھ کر سپاہی الرٹ ہوگئے۔ میں نے ہینڈزاپ ہوکر افسر سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اور بتایا کہ میں دہلی میں مقیم ایک صحافی ہوں اور سوپور اپنے والدین سے ملنے آیا تھا۔میرا شناختی کارڈ وغیرہ دیکھنے کے بعد افسر نے اشارہ کرکے اپنی طرف بلایا۔ میں نے درخواست کی، کہ میرے سب پیسے بٹوے میںہیں، اور اب دہلی تک پہنچنے کیلئے زادراہ بھی نہیں ہے۔ اس لیے کچھ پیسے مجھے لوٹا دیے جائیں۔افسر نے ایک سپاہی کو میرے ساتھ جاکر بٹوہ واپس کرنے کا حکم دیا۔ جب میں سپاہی کی معیت میں دوبارہ سڑک پر پہنچا، تو ممہ کنہ کی سربراہی میں سویلین بندوق برداروں کی خشم آلود نگاہیںمیرا طواف کر رہی تھیں۔ ان میں سے ایک نے لقمہ بھی دیا، ''دیکھتے ہیں‘ کیسے بچ کے جاتا ہے‘‘۔سپاہی کی معیت میں مجھے ایک شیڈ کے اندر لے جایا گیا۔ جہاں مائونٹ ایورسٹ جتنا بلند بٹووں اور پرسوں کا ایک پہاڑ کھڑا تھا۔یہ شاید ان کا دن بھر کا مالِ غنیمت تھا۔ اس پہاڑ میں مجھے اپنا پرس ڈھونڈنے کا حکم دیا گیا، جو ظاہر ہے ناممکن تھا۔اسی دوران سپاہی نے ہی ایک بٹوے پر ہاتھ مارکر اس میں سے کچھ روپے نکال کر میری جیب میں رکھ دیے اور مجھے نو دو گیارہ ہونے کیلئے کہا۔میں نے بس کی طرف دوڑ لگائی‘ مگر یہاں ایک اور کہانی میری منتظر تھی۔ میری جرأت کی تعریف کرنے کے بجائے سبھی سواریاں اور ڈرائیور مجھ پر برس پڑے ، کہ میں نے ان اخوانیوں کی شکایت فوجی افسر سے کیوں کی۔ اب بقول ان کے پوری بس کی سکیورٹی دائو پر لگ گئی ہے۔ آگے ان کے ساتھی، بے عزتی کا بدلہ لینے کیلئے منتظر ہوں گے۔ قصہ مختصر، سبھی سواریوں نے متفقہ فیصلہ صادر کیا کہ میں اب ان کی سلامتی کیلئے خطرہ ہوں، اس لیے مجھے اپنے ساز و سامان سمیت سری نگر کے نواح سے کافی دور بس سے اتار دیا گیا‘ جہاں ایک دو گھنٹے کے انتظار کے بعد ایک ٹرک والے نے رحم کھا کر مجھے سرینگر پہنچادیا۔ ستم ظریفی ہے کہ 2010 ء کے وسط میں بھارت کے ایوان صدر (راشٹرپتی بھون) کے اشوکا ہال کی ایک نشست سے میں اسی کمانڈر ممہ کنہ کو بھارت کے اعلیٰ سویلین اعزاز پدم بھوشن سے سرفراز ہوتے ہوئے دیکھ کر خون کے آنسو پی کر اس واقعہ کو یاد کر رہا تھا۔اپنی قوم کی بے بسی ، کسمپرسی اور اسکے قاتلوں کو ایوارڈ سے سرفراز ہوتے دیکھ کر میری آنکھوں سے آنسوئوں کی لڑی جاری تھی۔ ممہ کنہ کے ساتھ آنکھ ملانا میرے بس میں نہ تھا۔ تقریب ختم ہوتے ہی میں نے باہر گیٹ کی طرف دوڑ لگائی۔ حشمت اللہ اور ممہ کنہ کی صحبت و رفاقت بیگ صاحب کو مبارک ہواور کشمیریوں کے حال پر اب بس اللہ رحم فرمائے۔(ختم شد)