محض گزشتہ چار ہفتوں کے دوران 12شہری اور 26 کشمیری مزاحمت کار شہید ہوگئے جن میں ایک پی ایچ ڈی سکالر منان وانی بھی شامل ہیں۔درجنوں سیاسی کارکنوں کوحوالہ زنداں کیا گیا ۔ شہریوں کے مکانات کو بارود سے بھسم کیا گیا۔اگرچہ کشمیر میںتشدد کوئی نئی بات نہیں لیکن بھارت کے عام الیکشن جوں جوں قریب آرہے ہیں کشمیریوں کا عرصہ حیات زیادہ سرعت سے تنگ کیاجارہاہے۔بھارت کی سیاسی اور عسکری لیڈرشپ کا لب ولہجہ تلخ اور دھمکی آمیز ہوتا جارہاہے۔ عالم یہ ہے کہ بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت کہتے ہیں کہ جو لوگ قتل غارت و گری پر احتجاج کرتے ہیںوہ بھی عسکریت پسندوں کے ساتھی ہیں۔ ان کے ساتھ بھی عبرت ناک سلوک کیاجائے گا۔ بھارتی فوجیوں کی یاد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جنرل راوت نے کہا کہ پاکستان کشمیر میں بنگلا دیش جیسی صورتحال پیدا کررہا ہے ۔71 19ء کی شکست کا بدلہ لینے کیلئے کشمیر میں پراکسی جنگ لڑرہا ہے جس کا مقصد بھارتی فوج کو کشمیر میں الجھا کر رکھنا ہے۔ بھارتی ریاست اور فوج اتنی مضبوط ہے کہ کشمیر پر کنٹرول برقرار رکھ سکتی ہے۔جنرل راوت نے مزید کہا: کوئی بھی ملک کشمیر کو طاقت یا کسی اور طریقے سے بھارت سے نہیں چھین سکتا۔ اگر پاکستان سرحد پار دراندازی کرتا رہا تو اسے خود نقصان پہنچے گا اور بھارتی فوج اس کے خلاف دیگر اقدامات اٹھاسکتی ہے۔ ستمبر کے تیسرے ہفتے میں جنرل راوت نے دھمکی آمیز بیان میں کہا : پاکستان کو درد محسوس کرانے کا وقت آگیا ہے۔قبل ازیں ایک انٹرویو میں وہ کہہ چکے ہیں کہ: کشمیر کی ’ آزادی‘ ممکن نہیں، آپ فوج سے لڑ نہیں سکتے۔یاد رہے کہ گزشتہ ماہ ہی سرجیکل سٹرائیک کی سالگرہ بھی منائی گئی۔خود وزیراعظم نریندر مودی نے ریڈیو پروگرام ’من کی بات‘ میں عوام سے اپنے ماہانہ خطاب میں کہا: اگر پاکستان نے کوئی اشتعال انگیزی کی جس سے امن کو خطرہ لاحق ہوا تو ایسے اقدام پر سخت ایکشن لیا جائے گا۔ ہمارے سپاہی کسی قسم کی اشتعال انگیزی کا پورا پورا جواب دینا جانتے ہیں اور خطے میں امن کو تباہ کرنے کی کوشش کرنے والوں کو لائن آف کنٹرول پر بھرپور جواب دیا جائے گا۔ واضح نظر آتاہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی الیکشن مہم کے دوران کشمیریوں پر تشدد کا موجودہ سلسلہ دراز ہوتاجائے گا۔پاکستان کے بارے لفظی گولہ باری میں مزید شدت آنے کا امکان ہے۔بھارتی میڈیا جنگی جنون بھڑکانے اور جلتی پر تیل ڈالنے میں کسی سے کم نہیں۔ بلکہ اس کا کاروبار ہی اشتعال پھیلانے اور نفرتوں کی سوداگری سے چمکتاہے۔مودی ہوں یا ان کے آرمی چیف دونوں اسرائیلی فوجی حکمت عملی سے متاثر نظرآتے ہیں۔اکتوبر 2016ء وزیراعظم مودی نے کہا کہ پہلے لوگ اسرائیلی فوجیوں کی کامیاب کارروائیوں کی تعریف کرتے تھے اب وہ بھارتی فوج کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔اسرائیل نے جس طرح سیاسی مخالفین کو کچلا، دوسرے ممالک کے اندر گھس کر فوجی آپریشن کیے اور بے گناہ لوگوں کو غائب کیاانہیں ایک مثال کے طور پر بھارتی ماہرین حرب کوپیش کیاجاتاہے۔عسکری اور سیاسی لیڈرشپ اسی ماڈل کو آئیڈیل قراردیتے ہیں۔ کئی ایک اسرائیلی تربیت کاروں نے بھارتی دستوں کو عسکریت پسندوں سے نبردآزما ہونے کے حربے سکھانے کے لیے کشمیر کے دورے بھی کیے۔دونوں ممالک کے مابین دفاعی تعاون اور مشترکہ تربیتی مشقیں مسلسل جاری ہیں۔ داخلی سطح پر عمران خان کی طرح مودی نے بھی وعدہ کیاتھا کہ وہ لاکھوں نوکریاں پیدا کریں گے۔ان کے دورحکومت میں دودھ وشہد کی نہریں بہتی ہوں گی ۔کشمیر کو قومی دھارے میں شامل اور پاکستان کو سبق سکھایاجائے گا۔ مودی اپنے کیے ہوئے وعدوں پر عمل نہ کرسکے۔معیشت میں بہتری ضرور پیدا ہوئی لیکن عام لوگوں کی زندگی میںکوئی قابل ذکر سدھار نہیں آیا۔مخالف سیاسی جماعتیں بھی مودی کے نعرے ہائی جیک کرنے کے چکر میں ہیں۔ کانگریس کے صدر راہول گاندھی اب ماتھے پر تلک لگاتے ہیں۔ انتہاپسندوں کی بھاشا میں عوام سے مخاطب ہوتے ہیں۔ تمام جماعتیں ہندو ووٹ کو لبھانے کی کوششوں میں جتی ہوئی ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے مودی سرکارنے چند ایک جرأت مندانہ اقدامات ضرور کیے۔ ان کی لاہور آمد نے بہت سی توقعات کو جنم دیا اور مثبت ماحول بھی پیدا کیا۔پٹھانکوٹ کے حملوں نے ساری صورت حال بدل دی۔ یہ خیال عام تھا کہ وہ امریکی صدر نکسن ہیں جنہوں نے چین کے ساتھ دشمنی دفن کی اور دوستی کا نیا باب رقم کیا لیکن جلد ہی مودی سخت گیر پالیسی کی طرف لوٹ گئے۔ دوسری طرف کشمیری نوجوانوں میں ناراضی اور غصہ انتہاؤں کو چھورہاہے۔ جناب یاسین ملک نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا کہ کشمیر نوے کی دہائی کی جانب لوٹ گیا ہے جہاں ہر کوئی جان قربان کرنے اور بندوق اٹھانے کا خواہش مند تھا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کو پاکستان کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ وہ ہتھیار فراہم نہیں کر رہا۔ حال ہی میں ایک عسکری تنظیم کے سربراہ شیخ جمیل الرحمان نے نوجوانو ں سے اپیل کی کہ وہ تعلیم پر توجہ دیں اور زیرزمین سرگرمیوں میں شامل نہ ہوں۔ راقم الحروف کو کشمیر کے اندر نوجوانوں سے تبادلہ خیال کا موقع ملتارہتاہے۔ بات چیت اور مکالمے کے الفاظ ان کے لیے اجنبی ہوچکے ہیں۔ موجودہ بھارتی حکومت کی سخت گیر پالیسی نے کشمیریوں میں جہاں اپنے اسلامی تشخص کے تحفظ کا جذبہ ابھارا وہاں ان پر دوقومی نظریہ کی حقانیت کو بھی آشکار کیا۔ بھارت جس قدر ہندو راشٹریہ کے تصور کے قریب ہوتا جارہاہے کشمیری نوجوانوں کی پاکستان سے محبت اتنی ہی گہری ہوتی جارہی ہے۔سیکولر اور بھارت نواز جماعتوں کی عوامی حمایت کا دائرہ سیکٹر رہاہے ۔ حکومت بھارت کی سخت گیر پالیسیوں کی بدولت نوجوانوں اور خاص کر جدید تعلیم یافتہ افراد کا عسکریت کی طرف رجحان اس امرکی عکاسی کرتاہے کہ تنگ آمد بجنگ آمد شہریوں کا پرامن جدوجہد پرسے اعتماد اٹھ رہاہے جو کہ ایک خطرناک رجحان ہے کیونکہ اس طرح کشمیر شام اور لبنان جیسی صورت حال کا شکار ہوسکتاہے۔ پاکستان کے ساتھ بھارت مذاکراتی عمل کی بحالی کے لیے فی الحال تیار نہیں ۔ اس دوران کم ازکم حکومت پاکستان کو کسی عالمی شہرت کے حامل ماہرقانون سے مشورہ کرنا چاہیے کہ انسانی حقوق کی پامالیوں پر کس طرح عالمی اداروں کو متحرک کیا جاسکتاہے۔خاص طور پر انسانی حقوق کونسل وہ کیا اقدامات کرسکتی ہے جو کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال کو بہتر بنانے میں مدد دیں ۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمشنر کی حالیہ رپورٹ امید کی ایک کرن ہے جن میں کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کیاگیا اور انسانی حقوق کی پامالیوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیاگیا۔پاکستان کو کشمیریوں کی ہلاکتیں رکوانے کے لیے ہر سطح پر سرگرم کردار ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔