کشمیر پرعالمی سطح کی سرد مہری اورعدم توجہی کے باوجودعالمی ضمیرکوجگانے کے لئے ہرسال 30اگست کوپوری دنیاکے ساتھ ساتھ کشمیرمیں بھی گمشدگان کا عالمی دن منایاجاتاہے ۔گمشدگی ایک کیفیت ہے مگرقومی اعتبارسے ہمارے ہاں تو یہ ایک سانحہ عظیم بن چکاہے اورمجموعی طورپرہم اہل کشمیرایک گمشدہ قوم ہیں ۔ 1947سے آج تک ہم کشمیری مسلمان آہوں،سسکیوں اور اشکوں کے سیلاب کے رقعت آمیز مناطر کے ساتھ یہ صدائیں بلندکرتے ہوئے اپنے آپ کوتلاش کرتے پھرتے ہیںکہ آخرہماراقصورہے کیا ؟کیوں نہیں ہمیں بین الاقوامی وعدوں کے مطابق اپنے مستقبل کافیصلہ کرنے نہیں دیا جاتا۔ آخرہم بھی توانسان ہی ہیںمگراس کے باوجود ہمارے معاملے میں بھیڑ بکریوں جیساطرزعمل اختیار کیوں کیا جا رہا ہے۔ بایں ہمہ دنیااس ظلم عظیم پر خاموش ہے کہ دن کی روشنی میں قابض بھارتی فوج کشمیری نوجوانوں کو ان کے گھروں، چوراہوں، بازاروں،مسجدوں ، دفتروں، کالجوں، یونیورسٹیوں اورکھیل کے میدانوں سے دھرلیتی ہے اورگرفتاری کے بعد انہیں لاپتہ کردیا جاتاہے ،کوئی خوش قسمت ہی ہوتا ہے کہ جو اس قتل گاہ سے لڑکھڑاتا اپنے قدموں پر چل کر واپس گھر لوٹ جائے۔ گمشدہ افراد کے اکثر لواحقین اس فوجی افسر اورایجنسی اہلکار کا نام، فوجی کیمپ یا دفتر تک جانتے ہیں، جس کے کہنے پر یہ ظلم عظیم کیا گیا۔ لاپتہ ہوئے ان کشمیری مسلمانوں کی تعداد دس ہزار سے زائد ہے ۔ ان افراد کے لواحقین پچھلی تین دہائیوں سے متواتر اپنے جگر گوشوں کی تلاش میں سر گرداں ہیں ۔ تاہم انہیں اپنے عزیزآج تک مل سکے اورنہ ہی ان انکی زندگی اورنہ انکی موت واقع ہونے کا کوئی سراغ مل سکا۔اس تگ ودو میںا گر چہ ان کو متواتر مایوسیوں کا ہی منہ دیکھنا پڑا ہے لیکن مرحباکہ اب تک انہوں نے ہمت نہیں ہاری ہیں۔ان کے اہل خانہ ،انکی نیم بیوائیوں،نیم یتیم بچوںاور کربناک دردمیں مبتلا انکے والدین ،عزیز و اقارب، رشتہ داراوران کے پیارے اور دوست یار انہیں تلاش کرتے ہوئے کشمیرکے تمام پولیس تھانوں اورجیلوں کی خاک چھانتے رہے ہیںمگر ان کے بیٹوں کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔کئی مائیں فراق کے عالم میںاپنے گمشدہ لخت جگر کی زلف گرہ دار اور گیسوئے پیچ دارکی بلائیں لے لیکر عدم سدھارچکی ہیں۔ یہ قیامت جن پر گزرتی ہے وہ نہ مر سکتے ہیں نہ جی سکتے ہیں۔ ایک شور مچا ہوا ہے لیکن اف! یہ شور وپکارخود ایک سہمی ہوئی چیخ کی بازگشت بن چکی ہے۔ سری نگر میں لاپتہ اورگم شدہ افراد کی تلاش میں سر گرم انجمن ایسو سی ایشن آف پیڑنٹس آف ڈیس ایپئیرڈ پرسنز ((APDPگزشتہ تین دہائیوں سے کے دوران مبینہ طور گرفتاری کے بعد لاپتہ فراد کے لواحقین نے دنیا کی توجہ اپنے کرب کی طرف مبذول کروانے کیلئے سری نگرمیںپروگرام منعقدکرتی چلی آرہی ہے۔1994میں قائم کی گئی سری نگر میںلاپتہ افراد کی تلاش میں سر گرم انجمن ایسو سی ایشن آف پیڑنٹس آف ڈیس ایپئیرڈ پرسنز (APDP)اپنے ہراجلاس میںاپنایہ عہددہراتی ہے کہ وہ آخری سانس تک کشمیر کے ہر گمشدہ شخص کی تلاش میں سرگرداں رہے گی ۔یہ تنظیم ہرماہ سری نگرکی پرتاب پارک جہاں قریب ہی مقامی ، غیر ریاستی یعنی بھارتی اورعالمی میڈیاکے دفاتر واقع ہیں،میں دھرنا دے کر اپنے عزیزوں کی رہائی کا مطالبہ کرتی ہے اس کاکہنا ہے کہ بھارت یہ کہتے ہوئے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے کہ اس کے ہاں قانون کی عمل درآمدمیں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جاتی اوروہ عالمی فورموں میںقانون کی بالا دستی کے بلند و بانگ دعوے کرتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ وہ اپنے ان فوجی دستوں کو قانون کے سامنے کھڑا نہیںکرتاکہ جنہوں نے کشمیریوںکے لخت جگر ان سے چھین لئے ۔ کشمیرمیں جبری طور پرگمشدگیوں پرانسانی حقوق کے عالمی ادارے آوازتواٹھا رہی ہیں لیکن جاندارہرگز نہیں۔ ان دھیمی آوازوں سے کسی فصیل میں دراڑ پڑتی ہے نہ ہی کسی ایوان میں زلزلہ برپا ہو جاتا ہے۔اقوام متحدہ کے کئی وفوداس سلسلے میںاگرچہ کشمیرواردہوتے رہے جنہوں نے سری نگر میںسول سوسائٹی کے نمائندوں اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ اورانکی بنائی ہوئی انجمنوںسے ملاقاتیں کیں۔لیکن حکومتی سطح پر ان وفود کے ساتھ صدق دلی سے کوئی تعاون نہیں کیاگیابلکہ اس اہم معاملے کے حوالے سے ان وفود کے ساتھ ہمیشہ اگر مگرسے کام لیا گیا۔ سب سے پہلے حکومت کو چاہئے تھاکہ وہ شفافیت کو نہ چھپائے اور جبری گمشدگی کے جرم کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار نہ کرے۔ لیکن اس کے برعکس ہوتا رہا ۔جب بھی دلی سے اس قسم کا کوئی وفد وارد سری نگر ہوتا ہے توعجب معاملہ دیکھنے کوملتا ہے کہ وفد کی ملاقاتیں صرف ان سرکاری افسروں سے کروائی جارہی ہے کہ جو معاملے کو جھٹلانے میں مہارت رکھتے ہیں ۔جس کے باعث وفد بے نیل ومرام واپس لوٹ جاتا ہے ۔ گمشدہ افراد کے لواحقین کی تنظیم کی جانب سے گمنام قبروں کے اس وسیع سلسلے کا انکشاف ہونے کے بعد اے پی ڈی اے نے انٹرنیشنل پیپلز ٹریبونل آن ہیومن رائٹس اینڈ جسٹس کے نام سے عوامی تنظیم کے قیام کا اعلان کیا جس کے ارکان میں کیلی فورنیا یونیورسٹی میں انتھرویولوجی کی پروفیسر ڈاکٹر انگنا چتر جی بھارت میں انسانی حقوق کے علمبردار گوتم نولکھا جنہیں آج کل کشمیر کے داخلے پر حکومت ہند نے پابندی عائد کر رکھی ہے اور سری نگر کے پرویز امروز شامل نے ایسے خوفناک واقعات پر جنوبی افریقہ کی طرز پر ٹروتھ اینڈ ری کنسلی ایشن کمیشن کے قیام کامطالبہ کیا تھا۔ تاکہ یہ پتا لگایا جاسکے کہ آیا ان گمنام قبروں میں جبری طور پر گم کردہ نوجوان تو نہیں۔ اے پی ڈی پی کی محنت شاقہ کے نتیجے میں انٹرنیشنل پیپلز ٹریبونل آن ہیومن رائٹس، ایمنسٹی انٹرنیشنل ، ایشیا واچ اور دیگر کئی اداروں کی طرف سے کشمیر میں جبری گمشدگیوں کے معاملے پرشورڈالا مگردلی اور سری نگر کی حکومتوںکے عدم تعاون کی وجہ سے بات عملی طورپر آگے نہ بڑھ سکی۔ (جاری)