بھارتی زعما اور میڈیا کے ذہنوں پر جوجنگ کا جنون چھایا ہوا ہے اس کی تازہ مثال گزشتہ علی الصبح دیکھنے کو ملی جب بھارتی طیارے مظفر آباد سیکٹر سے پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے اور بھرپور جوابی کارروائی کے خوف سے بالا کوٹ کے قریب اپنے پے لوڈ پھینک کر راہ فرار اختیار کر گئے، خوش قسمتی سے اس ایڈونچر میں کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا، اس جنون میں حقیقت اور زمینی حقائق یا تو ان کی نظروں سے اوجھل ہیں یا دانستہ ان سے اغماض برتا جا رہا ہے لیکن بھارت اپنی روایتی جھوٹ بولنے کی روش سے کام لیتے ہوئے دعویٰ کر رہا ہے کہ انڈین ایئر فورس نے بالا کوٹ میں جیش محمدکے سب سے بڑے ٹریننگ کیمپ کو تباہ کر دیا ہے۔بھارتی خارجہ سیکرٹری وجے گوکھلے کے مطابق چونکہ جیش محمد مزید خودکش حملوں کی منصوبہ بندی کر رہی تھی لہٰذا یہ حفظ ماتقدم کارروائی ضروری ہو گئی تھی۔یہ مضحکہ خیز دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ تین سو دہشتگرد مارے گئے لیکن بالاکوٹ پولیس کے سربراہ کے مطابق ہلاکتوں کا پتہ لگانے کیلئے ٹیمیں بھیجی گئیں تو وہاں کوئی جانی نقصان ہوا اور نہ ہی املاک کو نقصان پہنچنے کی اطلاع کی تصدیق ہو پائی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ مولانا یوسف اظہر جو مولانا مسعود اظہر کے قریبی عزیز تھے بھی اس حملے میں مارے گئے، اس کی بھی کوئی تصدیق نہیں ہو سکی۔ اگر بھارت کے بالاکوٹ میں کارروائی کے دعویٰ کودیکھا جائے تو پھر اس نے ہماری سرحد ی حدود کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔ بھارت میں نام نہاد فتح کے شادیانے بجانے والوں کے جلوس نکل رہے ہیں۔ نریندر مودی نے راجستھان میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے شاعرانہ انداز میں بڑی بڑھکیں لگائی ہیں۔ پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کا یہ فیصلہ کہ وقت اور جگہ کا فیصلہ کر کے بھارت کی جارحیت کا جواب دیا جائیگا دانشمندانہ ہے، جنگی جنون کو ہوا دینا پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ بھارت تو یہی چاہتا ہے کہ پاکستان کو ایک اور جنگ میں جھونک کر اقتصادی طور پر تباہ کر دیا جائے لیکن اس کے یہ عزائم پورے نہیں ہونگے۔ وقت آ گیا ہے کہ اندرونی محاذ آرائی کو ایک طرف رکھ کر اپوزیشن کو آن بورڈ لیا جائے۔ اس ضمن میں پیپلزپارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایوان میں موجود اپوزیشن ارکان سے اپیل کی کہ وہ پارلیمنٹ میں کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے اختلاف نظر آئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں دنیا کے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی یہ دکھانا ہے کہ پوری قوم متحد ہے اور قوم کو یکجا رکھنا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس میں کہا بھارت کا عمل پاکستان کے خلاف جارحیت ہے اور پاکستان اس کا جواب دے گا۔ بھارت کے کچھ سنجیدہ حلقوں کی طرف سے یہ آوازیں بھی اٹھنا شروع ہو گئی ہیں کہ اگر وزیراعظم عمران خان بھارتی ہم منصب نریندر مودی کو پلوامہ کے افسوسناک واقعہ کے ثبوت مہیا کرنے کا کہہ رہے ہیں تو ایسا کرنے کے بجائے وہ پاکستان کو سبق سکھانے کی ڈفلی کیوں مسلسل بجائے جا رہا ہے۔ مودی کی انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی پہلے بھی مسلمان اور پاکستان دشمن ایجنڈے پر کاربند رہتے ہوئے گزشتہ عام انتخابات میں ووٹ اینٹھتی رہی لیکن 2014ء کے انتخابات میں اس وقت کی کانگریس کی کارکردگی سے عوام تنگ آئے ہوئے تھے اور لوگوں کو امید تھی کہ چائے والے کا بیٹا غریب آدمی بھارت کے غریبوں کی قسمت بدل دے گا، لیکن ہوا اس کے برعکس، غریب نریندر مودی نے سونے کے تاروں سے مزین دس دس کروڑ کا لباس زیب تن کرنا شروع کردیا اور غریبوں کے بجائے ’بگ بزنس‘ کا آلہ کار بن گیا۔ ان کی بھارتی روپے کی ڈی مونیٹائزیشن یعنی مارکیٹ سے 500 اور 1000 کے پرانے نوٹ اٹھا کر نئے نوٹ جاری کرنے کی پالیسی تباہ کن ثابت ہوئی جس سے بہت سے غریبوں کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے۔ اب پلوامہ واقعہ تو بی جے پی کے لیے من بھاتا کھا جاثابت ہو رہا ہے۔ حتیٰ کہ کئی بھارتی تجزیہ کار سوال کر رہے ہیں کہ چند ہفتے پہلے ملی ہوئی انٹیلی جنس رپورٹ پر عمل کرنے سے دانستہ طور پر صرف نظر کیا گیا یا جیسا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ واقعہ بھارتی انٹیلی جنس کا اپنا کیا دھرا ہے۔ ان قیاس آرائیوں میںکتنی حقیقت ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن ایک بات واضح ہے کہ بھارتی رہنما آگ سے کھیلتے ہوئے ہر حالت میں اپریل، مئی میں ہونے والے انتخابات میں سرخرو ہونا چاہتے ہیں۔ ہم بار بار کہہ رہے ہیں کہ ٹھوس شواہد دیں کارروائی کریں گے لیکن ٹھوس شواہد اگر ہوتے تو دیئے جاتے۔ 1965ء کی جنگ کے حوالے سے ہمارے ایک شاعر نے کہا تھا ’جنگ کھیڈ نہیں ہوندی زنانیاںدی‘ لیکن یہ مردوں کا بھی شیوہ نہیں، جنگ تباہی کا راستہ ہے۔ خاص طور پر برصغیر میں بسنے والے پونے دو ارب کے قریب افراد جن کی کثیر تعداد انتہائی غریب لوگوں پر مشتمل ہے کو جنگ سے کیا حاصل ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان لڑائی تو دنیا بھر کے لیے صرف تباہی کا پیغام ہی لا سکتی ہے جس کی کوئی اجازت نہیں دے گا۔ لیکن اگر بھارت میں جنگی جنون بلکہ پاگل پن کی موجودہ فضا برقرار رکھی گئی اور امریکہ جیسے ملکوں سے تعلیم یافتہ تجزیہ کار بھی یہ کہتے رہے کہ پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹادو تو ایٹم بم جیسے مہلک ہتھیار برصغیر کے علاوہ ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ اسی لیے کہاجاتا ہے کہ ایٹمی ہتھیار چلانے کے لیے نہیں بلکہ الماری میں سجانے کے لیے ہوتے ہیں تاکہ کوئی حملے کی جرأت نہ کرے۔ پاکستان کے بڑے بڑے ذمہ داران جن میں سابق وزارئے خارجہ سرتاج عزیز اورخورشید محمود قصوری جیسے چغادری بھی شامل ہیں جنگ کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ خورشید قصوری کا کہنا ہے کہ بدلہ لینے کی بھارتی خواہش ٹھنڈی پڑتی جارہی ہے اور اس کا موقف بین الاقوامی طور پر کمزور ہو گیا ہے۔ لیکن بالا کوٹ کے حملے سے لگتا ہے کہ بھارت جنگی جنون کو مزید تقویت دینے پر تلا ہوا ہے۔ چھوٹی موٹی چھیڑ چھاڑ ہمیشہ سے رہی ہے لیکن برصغیر کے نیو کلیئر تھیٹر میں روایتی جنگ کے امکانات بہت کم ہیں۔ پاکستان کا نام نہاد امن پسند لبرل طبقہ دہائی دیتا رہتا ہے کہ آپ نے غریبوں کا پیٹ کاٹ کر ایٹم بم کیوں بنایا۔ حالانکہ بھارت نے مئی 1974ء میں راجستھان کی پوکھراں ٹیسٹ رینج میں ایٹمی دھماکہ جسے ’’سمائلنگ بدھا ‘‘کا نام دیا گیا تھا کر کے خطے میں ایٹمی مسابقت کا دور شروع کر دیا تھا۔ اس کا سہرا پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کوجا تا ہے جنہوں نے امریکہ کو جل دے کر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی اور ایک ایسا راستہ اختیار کیا جو ایٹم بم بنانے کے لیے پہلے کسی نے استعمال نہیں کیا تھا، بعد میں آنے والی قیادتیں اس ایٹمی پروگرام کی تکمیل کے لیے ہر قسم کی سعی کرتی رہیں۔ اس ضمن میں جنرل ضیاء الحق نے تو کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا لیکن ایٹمی دھماکہ کرنے کا کریڈٹ 28 مئی1998ء میں وزیراعظم نواز شریف کے حصے میں آیا جنہوں نے اس بارے میں کسی دبائوکو درخوراعتنا نہیں سمجھا۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ایٹمی پروگرام کا بانی ایک فوجی آمر کے ہاتھوں اقتدار سے محروم ہو کر تختہ دار پر جھو ل گیا جبکہ ایٹمی دھماکہ کرنے والا نواز شریف جیل میں بیٹھا سٹر رہا ہے۔ ایٹمی طاقت ہونے کے ناتے سے پاکستان کی جیوسٹریٹجک ترجیحات بھی تبدیل ہو گئی ہیں۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ جب سے پاکستان ایٹمی طاقت بنا ہے بھارت کو پاکستان پر فوجی یلغار کرنے کی جرأت نہیں ہوئی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خطے میں روایتی اسلحے کی دوڑ ختم ہو گئی ہے۔ گویا کہ اب ہم ایٹمی پروگرام اور روایتی اسلحہ دونوں پر بجٹ کا خطیرحصہ خرچ کر رہے ہیں۔ موجودہ کشیدگی کے ماحول میں کوئی احمق میں ہی کہے گا کہ ایسا نہ کیا جائے۔ لہٰذا اگر بھارت کی سیاسی اورفوجی قیادتوں کو واقعی بھارت کے عوام کی فلاح وبہبود مقصود ہے تو پھر اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے لیکن تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی ۔ حال ہی میںبھارت کے انگریزی زبان کے مشہور لکھاری شیکھر گپتا جو نظریاتی طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے قریب ہیں نے ایک مضمون لکھا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ پاکستان سے بدلہ لینے اور انتقام کی آگ کو بھڑ کانے کے بجائے روایتی اسلحہ اندوزی اتنی زیادہ کی جائے کہ پاکستان کو جرأت ہی نہ ہو کہ وہ بھارت کے خلاف کسی ایڈونچر کا سوچ بھی سکے۔ اس سلسلے میںوہ ہندوؤںکی طاقت کے استعمال کی شاطرانہ حکمرانی کے ’’صحیفہ‘‘ ارتھاشا سترا کا حوالہ بھی دیتاہے کہ پاکستان کی کمزور اقتصادی بنیادوں کو مزید کھوکھلا کرنے اور اسے اندرونی عدم استحکام کا شکار کر کے اتنا غریب اور بے بس کر دیا جائے کہ وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہی نہ رہے۔ اسے ستم ظریفی نہیں تو اور کیا کہیں گے کہ شیکھر گپتا ذوالفقار علی بھٹو کو بلاواسطہ طور پر خراج تحسین پیش کررہا ہے کہ اس نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھ کر ایسا ہی کیا۔