نئی دلی(نیٹ نیوز) بھارتی سپریم کورٹ نے شہریت سے متعلق مسلم مخالف متنازعہ قانون پر حکم امتناعی دینے سے انکار کرتے ہوئے مودی حکومت کو جواب جمع کر انے کیلئے مزید 4 ہفتوں کا وقت دے دیا۔ بھارتی سپریم کورٹ میں چیف جسٹس اروند بوبڈے کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے شہریت سے متعلق مسلم مخالف متناز عہ قانون کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ عدالت نے مسلم مخالف متناز عہ قانون پر حکم امتناعی دینے سے انکار کرتے ہوئے مودی حکومت کو مزید 4 ہفتوں کا وقت دے دیا۔بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق عدالت نے متنازع قانون کے خلاف دائر 143 درخواستوں کا جائزہ لینے کے لیے 5 رکنی بینچ بنانے کا فیصلہ کیا۔ دوران سماعت چیف جسٹس اروند بوبڈے نے کہا کہ پانچ ججوں کا آئینی بینچ ہی اس معاملے پر فیصلہ کرسکتا ہے اور اس دوران حکومت کو اپنے موقف کی وضاحت کیلئے مزید وقت دے دیا۔بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ مرکزی حکومت کا جواب سنے بغیر وہ اس قانون کے نفاذ پر حکم امتناعی جاری کرنے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی۔ بعد ازاں عدالت نے فیصلہ آنے تک تمام ہائی کورٹس کو متنازع قانون سے متعلق درخواستوں پر سماعت سے بھی روک دیا۔چیف جسٹس اروند بوبڈے کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ 143 درخواستوں پر سماعت کرے گا اور ان درخواستوں پر ایک عبوری حکم بھی جاری کرے گا۔واضح رہے بھارت میں مسلم مخالف متنازع قانون پاس ہونے کے بعد مختلف ریاستوں میں بھرپور احتجاج جاری ہے جس میں اب تک درجنوں لوگ ہلاک اور زخمی ہوچکے ہیں جب کہ سرکاری املاک کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے ۔ادھر متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف نئی دہلی کے شاہین باغ میں گذشتہ تقریباً 40 ایام سے خواتین کی منفرد تحریک جاری ہے ۔ اسے ختم کرنے کیلئے مختلف طریقوں کی ناکامی کے بعد مودی حکومت نے اب بچوں کا حربہ آزمانے کا فیصلہ کیا ہے ۔بھارتی ادارے قومی کمیشن برائے تحفظ اطفال نے جنوب مشرقی دہلی، جہاں شاہین باغ واقع ہے کے انتظامی مجسٹریٹ سے کہا ہے کہ مظاہرے میں شامل بچوں کی نشاندہی کرکے ان کی کونسلنگ کریں اور ضروری ہوتو چائلڈ ویلفیئر کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے ۔