کشمیر میں ہوئے 14 فروری کے حملے کے بعد مودی مسلسل دھمکیاں دے رہاتھاکہ وہ پاکستان کوسبق سکھائے گا ۔ انڈیا کے جنگی طیاروں نے26فروری منگل کو علی الصبح پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے۔ پاکستانی طیاروں کے فضا میں آنے کے بعد وہ اپنا پے لوڈ گرا کر واپس چلے گئے۔پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے ٹوئٹر پر اپنے پیغامات میں بتایا کہ انڈین فضائیہ کے طیاروں نے مظفر آباد کے پاس لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی، لیکن پاک فضائیہ کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں وہ واپس چلے گئے اور اس سے کوئی جانی اور مالی نقصان نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ انڈین طیارے لائن آف کنٹرول عبور کر کے مظفرآباد سیکٹر میں تین سے چار میل اندر آئے مگر انڈین طیاروں کو واپس جانے پر مجبور کر دیا گیا تو انھوں نے اپنا گولہ بارود گرا دیا جو ایک کھلے علاقے میں گرا۔ فوجی ترجمان کے مطابق یہ گولہ بارود نہ تو کسی عمارت پر گرا اور نہ ہی اس سے کوئی جانی نقصان ہوا ہے۔خیال رہے کہ یہ71ء کے بعد پہلا موقع ہے کہ انڈین جنگی طیارے پاکستانی حدود میں داخل ہوئے ہیں جبکہ انڈیا کا کہنا ہے کہ اس نے بالاکوٹ کے علاقے میں واقع جیشِ محمد کے کیمپ کو نشانہ بنایا ہے ۔ بالاکوٹ کے جابہ کے مقامی شہریوں نے بتایا ہے کہ انھوں نے منگل کی صبح تین سے چار بجے کے درمیان چار سے پانچ زوردار دھماکوں کی آوازیں سنیں۔ عوام نے دھماکوں کی آوازیں سن کرایک دوسرے کوٹیلی فون کر کے اور تھانے سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ۔ انڈیا کی اس کارروائی میں کوئی جانی اور مالی نقصان نہیں ہوا۔ انڈین فضائیہ یا وزارت دفاع کی جانب سے ابھی تک اس کارروائی کے بارے میں باضابطہ طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔ پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس کارروائی کے بعد پالیسی بیان میں کہا ہے کہ انڈیا نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی ہے اور پاکستان اپنے دفاع میں جواب دینے کا حق رکھتا ہے۔ادھر پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے منگل 11 بجے اس صورتحال پر اجلاس کی صدارت کی ہے۔ 14فروری کو کشمیر میں ہونے والے ایک خوفناک فدائی حملے میں انڈیا کے نیم فوجی دستے سی پی آر ایف کے 49 سے زیادہ اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کے بعد ایک ویڈیو جاری کی گئی جس میں پلوامہ کے ایک گائوں کے رہائشی ایک کشمیری نوجوان فدائی حملہ آور عادل احمد ڈار ولدغلام حسن ڈار نے کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف جاری بھارتی فوج کی ظلم و بربریت کابدلہ لینے اوراپنے دل کی بھڑاس نکالنے پر خوشی کا اظہارکیاتھا لیکن کشمیرکی سرزمین سے تعلق رکھنے والے عادل ڈارکی ویڈیوکے باوجود انڈیا کی جانب سے 14فروری کو ہونے والے واقعے میں پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا لیکن پاکستان نے اس کی سختی سے تردید کی ہے۔انڈیا کی جانب سے لگائے گئے الزام کے نتیجے میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے 19فروری کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے انڈیا کو پلوامہ میں نیم فوجی اہلکاروں پر ہونے والے فدائی حملے کی تحقیقات میں مکمل تعاون کی پیشکش کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ اگر انڈیا نے پاکستانی سرزمین پر کارروائی کی تو پاکستان اس کا منہ توڑ جواب دے گا۔ ادھر وادی کشمیر میں قابض انڈین فوج اور اس کے نیم فوجی اداروں کی تنصیبات پر منگل کی صبح حفاظتی انتظامات انتہائی سخت کرتے ہوئے ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا۔ سرینگر کے علاوہ پونچھ کے اضلاع میں رات بھر جنگی طیارے بھی پرواز کرتے رہے جس سے لوگ خوفزہ ہو گئے۔ ادھر وادی کشمیر میں ہند مخالف اور آزادی کشمیر کیلئے سرگرم سیاسی کارکنوں کے خلاف حکومت کے کریک ڈائون میں بھی تیزی آئی ہے اورتادم تحریرسینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانہ پر کریک ڈاون میں جماعت اسلامی ،حریت کانفرنس دیگر جماعتوں کیخلاف گرفتاریوں کا آپریشن شروع کر کے لیڈروں اور سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ مودی کا ہندوستان جہاں اقلیتوں بالخصوص ایک جانب بے تحاشا اور غیر معمولی نوعیت کے ہتھیاروں کی خریداری میں لگا ہو اہے اور دوسری طرف سرحدوں پر بے حساب گولہ باری سے مضبوط ہندوستان ثابت کیاجارہا ہے ۔خود ملکی میڈیا اس سوچ کا بڑا علمبردار ہے ۔مضبوط ہندوستان بنانے کیلئے ہتھیاروں کی عالمی خریداری کا یوں ایک ہلکا سا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کے پاس چھٹی بڑی فوج موجود ہے جس پر سالانہ تین لاکھ کروڑ روپے سے زائد رقوم صرف کی جاتی ہیں۔صرف اسرائیل ہی سے2012ء سے 2016ء تک اس ملک کے کل برآمدی ہتھیاروں کا 41فیصد ہندوستان نے خریدا۔ صرف2017ء میں2کھرب ڈالر کے ہتھیار اسرائیل سے خریدے گئے اور اس سال جنوری میں نیتن یاہوکے دورے کے موقعہ پر ہتھیاروں کی خریداری کے کئی معاہدوںپر دستخط کئے گئے ۔جب نظریات اور ملکی پالیسی ایسی ہوتو خطے میں امن کہاں سے پیدا ہوگا؟۔اس ذہنیت نے 2003ء کے سرحدی گولہ باری ختم کرنے کے معاہدہ کو یک طرفہ طور پر پس پشت ڈالا۔کیا بھارت میں امن پسند اور انسان دوست آوازیں اس ذہنیت پر حاوی ہوسکتی ہیں؟فی الحال دور دور تک اس کا امکان نظر نہیں آرہا ہے۔