آپ واقف ہوں گے کہ چینی صدر شی جن پنگ گزشتہ دنوں دورہ ہندوستان آئے تھے۔ چین کی طرف سے کسی لیڈر کا ہندوستان آنا ہمیشہ اہم موقع رہا ہے۔ یہ کہا گیا کہ حالیہ دورہ غیررسمی تھا۔ کوئی ایجنڈہ نہیں۔ دونوں قائدین کوئی بیان نہیں دیں گے۔ لیکن اس کا مطلب نہیں کہ دورہ کی اہمیت نہیں ہے۔ غیررسمی گفتگو میں بھی کئی پیچیدہ مسائل پر کھلے عام تبادلہ خیال ہوتا ہے۔ دونوں قائدین نے ایک دوسرے سے ملاقات کی۔ لیکن میڈیا میں کوریج پر نظر ڈالئے۔ جب کچھ بھی نہیں کہا گیا تو آخر کس بات پر تمام تر ٹی وی چینلز دن بھر چرچا کرتے رہے۔ مہابلی پورم میں مہابلی کی شاعری سے بڑھ کر معلومات بہم پہنچائی گئیں۔ مودی حکومت کی خارجہ پالیسی میں ہر دورہ بڑا ایونٹ ہے۔ اس کی شان و شوکت اس قدر وسیع ہے کہ صرف کیمرے ہی ایسی چمک دمک پیش کرسکتے ہیں۔ ڈپلومیسی یا سفارت کے نازک پہلوؤں تک عام لوگوں کی رسائی نہیں ہوتی۔ لہٰذا، سارا امیج متعلقہ ایونٹ کی شان کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے۔ ورنہ میڈیا پوچھے گا کہ ہندوستان اور چین کے درمیان معاشی تعلقات میں 2014ء احمدآبادسے 2019ء مہابلی پورم تک کیا تبدیلی آئی ہے؟ میڈیا تو آپ کو کشمیر کا راگ الاپتے ہوئے اْلو بنائے گا۔ ویسے وہ تو سرحدی تنازعہ ہے۔ اس طرح کے مسائل پر ایک دو دن میں کوئی پیش رفت نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ قائدین ایسے مسائل کو لٹکا کر رکھتے ہیں اور تجارتی مسائل کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔ ایسا کرنا بھی ٹھیک ہی ہے۔ لیکن کل جب معاشی اقدام ڈپلومیسی کا اہم پیمانہ بن جائے تب اْس اساس پر ان تعلقات کا ٹھوس تجزیہ ہونا چاہئے کہ کیا ہورہا ہے؟ کچھ تجزیہ ’دی ہندو‘ اور ’دی پرنٹ‘ میں ملے گا۔ ہندی میں آپ کو پرکاش رے کا تجزیہ ملے گا، لیکن دیگر تمام گوشوں میں اس اہم ٹور کے تعلق سے محض کپڑوں، پروگرام، غذا کے بارے میں باتیں ہوتی رہیں۔ انڈیا اور چائنا کے درمیان تجارتی تفاوت 2014ء سے لگاتار بڑھتا رہا ہے۔ یعنی چین کی برآمدات برائے ہندوستان میں اضافہ ہورہا ہے اور ہندوستان کی چین کو برآمدات گھٹتی جارہی ہیں۔ اس رشتے کے نتیجے میں چین کو کھلی منڈی مل چکی ہے۔ چین میں نوکریاں پیدا ہورہی ہیں۔ ہندوستان کو کیا حاصل ہورہا ہے؟ چین کا کہنا ہے کہ یہاں 1,000 کمپنیاں کھلی ہیں، جہاں دو لاکھ افراد کو کام ملا ہے۔ یعنی صرف 200 فی کمپنی۔ کیا یہ کافی ہے؟ دوسری طرف ایسی تشویش اْبھر رہی ہے کہ اگر بنگلہ دیش نے چین کو اسپیشل اکنامک زون قائم کرنے کی اجازت دے دی، تو چین اپنی اشیاء کو بنگلہ دیش کے راستے ہندوستان کی منڈیوں میں پہنچائے گا۔ مودی حکومت کو ساڑھے پانچ سال ہوچکے ہیں، لیکن معیشت کے خراب ریکارڈ کو بڑے بڑے ایونٹس کی پرچھائی میں چھپایا جارہا ہے۔ اب یہ خبر آرہی ہے کہ جی ایس ٹی کی وصولیابی کم رہے گی، لہٰذا ان اشیاء پر جی ایس ٹی شرح دوبارہ بڑھانا پڑے گی جن پر رعایت دی گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے بڑے کارپوریٹس کیلئے ٹیکس رعایت اور عام لوگوں کیلئے جی ایس ٹی فائدہ پر اثر پڑے گا۔ یہی کچھ انندیو چکرورتی کا تجزیہ ہے جو انھوں نے ٹوئٹ کیا ہے۔ دریں اثناء جولائی 2019ء میں صنعتی پیداوار 1.1 فیصد رہنے کی اطلاع ہے۔ اگست 2018ء میں یہ شرح 4.8 فیصد تھی۔ صنعتی پیداوار کی یہ شرح 81 ماہ کی سکیم ہے۔ سرکاری بیان میں 81 ماہ تحریر کیا گیا ہے۔ اس کے بجائے سال کا حساب ہونا چاہئے تاکہ معلوم ہوسکے کہ تقریباً 7 سال ہوچکے کہ اتنی کم شرح درج نہیں ہوئی تھی۔ n مینوفیکچرنگ سیکٹر منفی شعبہ بن چکا ہے، -1.2 فیصدn آٹوموبائل سیکٹر میں شرح ترقی منفی 23 فیصد ہے۔n اسکوٹر کی فروخت بھی گزشتہ سال کے مقابل 16.6 فیصد گھٹ چکی ہے،n موٹرسائیکل کی فروخت میں 23.29 فیصد گراوٹ آئی ہے۔n کمرشل گاڑیوں کی فروخت میں 62.11 فیصد کمی ہوگئی ہے۔ ریلوے کی 150 ٹرینیں نجی شعبے کے حوالے کی جارہی ہیں۔ ہم فراموش کرچکے ہیں کہ اسی روٹ پر شتابدی میں معاون و مددگار افراد اسنیکس اور اخبارات برسہا برس سے فراہم کرتے آئے ہیں۔ اب چمک دمک پیدا کرتے ہوئے شاید یہ پیام دیا جارہا ہے کہ ریلوے کی پرفارمنس بہتر ہوگا۔ کیا پیوش گوئل بطور وزیر ریلوے ناکام ہورہے ہیں؟ وزیر ریلوے نے جون 2018ء میں کہا تھا کہ اگر ٹرین وقت پر نہ چلے تو وہ متعلقہ زونل منیجر کو ترقی نہیں دیں گے۔ ٹرینوں کے چلنے کے اوقات میں بہتری کیلئے ایک ماہ کا وقت دیا گیا۔ سال 2017-18ء میں 30 فیصد ٹرینیں تاخیر سے چلتی رہیں۔ ناردن ریجن میں 50 فیصد ٹرینیں تک وقت پر نہیں چل رہی ہیں۔ اْس بیان کا کیا ہوا؟ آپ خود اس کی تحقیق کرسکتے ہو۔ کتنے ریجنل جنرل منیجرز کا پروموشن روکا گیا؟ ریلوے کی نج کاری کی گئی ہے۔ شاید آپ کو معلوم بھی نہ ہوا ہوگا۔ ریلوے ٹکٹ کے تعلق سے ایک روز کئی مسیج وصول ہوئے۔ پٹنہ، آرہ اور گورکھپور کا کرایہ جان کر حیرت ہوئی۔ ریگولر ٹرین کا کرایہ پہلے کی طرح معلوم ہوتا ہے لیکن اسپیشل ٹرینوں کا کرایہ زیادہ ہے۔ یعنی دہلی سے دربھنگہ ٹرین نمبر 82410 کے سکنڈ اے سی کا کرایہ 6,165 روپے ہے۔ اسی ٹرین میں اگر آپ نمبر چار کیلئے ٹکٹ لیتے ہو تب 2,500 روپئے دینے پڑیں گے۔ 27 اکتوبر کیلئے گورکھپور سے موتیہاری کا کرایہ 4,450 روپے ہے۔ یہ بھی اسپیشل ٹرین ہے۔ کیا یہ غیرواجبی نہیں ہے؟ کیا خصوصی ٹرینیں عوام کی سہولیت کیلئے چلائی جاتی ہیں یا اْن کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کیلئے؟ بہرحال، تماشہ جاری ہے، جیب خالی ہے۔ شاید اسی لئے فری کا نظارہ چل رہا ہے۔ نتیجہ صفر ہے۔ آپ پوچھیں گے کہ انتخابات میں کیا ہوگا؟ جواب ہے کہ بی جے پی کو مہاراشٹرا اور ہریانہ میں شاندار کامیابی حاصل ہوگی۔ ہر کوئی یہی کہہ رہا ہے۔ اس الیکشن میں بھی بی جے پی کا کوئی ہم پلہ نہیں ہے۔ (بشکریہ:سیاست بھارت)