کل سے بارش کی جھڑی لگی ہے۔ آسمان یہاں سے وہاں تک ابر آلود ہے اودے اودے بادل برستے ہیں تو برستے ہی چلے جاتے ہیں‘ رکنے کا نام نہیں لیتے۔ شہر کا جو حال ہے‘ اس کی رو داد ٹی وی چینل بتاتے نہیں تھکتے۔ عرصہ ہائے دراز بعد ایسی بارشیں ہوئی ہیں۔ خشک سالی اور گرمی کی ساری شکایتیں دھل دھلا کر ہوا ہو گئی ہیں مگر وہ غریب غربا جو نشیبی علاقوں میں رہتے ہیں۔ جن کے کچے مکان ہیں جو نالوں اور ریلوے کی ناکارہ پٹڑیوں میں جھگی ڈالے رہتے ہیں اور وہ فٹ پاتھوں‘ اوور ہیڈ برج اور پارکوں میں کھلے آسمان تلے سوتے ہیں، بارشوں نے ان کا ناطقہ بند کر دیا ہے۔ کل رات کمرے کے اندر دبکا بیٹھا بارش کے برسنے کی مترنم آواز سن رہا تھا ۔ہمارے سینئر دوست اور کالم نگار طارق محمود میاں نے یہ دلخراش اطلاع دی کہ ہمارے مشترکہ دوست اور صحافی فیاض اعوان دنیا سے گزر گئے۔ ہمیں اطلاع بھی نہ ہوئی اور انہیں سپرد خاک بھی کر دیا گیا۔ طارق صاحب نے اس سانحے کی اطلاع فیس بک پر شیئر کی تو افتخار عارف، محمود شام سمیت میڈیا اور ادب کی دنیا کے معروف اصحاب نے غم و افسوس میں ڈوبے تاثرات کا اظہار کیا۔ فیاض اعوان بہ حیثیت صحافی کوئی بہت معروف و مشہور نہ تھے لیکن ادب و صحافت کی اکثر نمایاں اہمیت کی حامل شخصیتوں سے ان کی دیرینہ یاد اللہ تھی۔ خود میں نے اپنی صحافتی عملی زندگی کا آغاز ان کے ساتھ ہی کیا تھا۔ یہ 1977-78ء کا واقعہ ہے کہ میں کراچی یونیورسٹی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میں فائنل ایئر میں تھا کہ اسی شعبے کے فارغ التحصیل ہمارے دوست طارق محمود سیال جو اس زمانے کے مشہور سوشل میگزین’’دھنک‘‘ کے کراچی میں ریذیڈنٹ ایڈیٹر اور سرور سکھیرا کے قریبی دوست تھے اور ’’عقاب‘‘ کے نام سے اپنا رسالا نکالنے کا ڈول ڈال چکے تھے۔ فیاض اعوان ان کے رسالے سے وابستہ ہو چکے تھے۔ انہوں نے مجھے بھی وابستگی کی پیش کش کی جو میں نے قبول کر لی۔ ہر چند میری تعلیم مکمل نہیں ہوئی تھی اس لئے یونیورسٹی سے فارغ ہو کر میں ’’عقاب‘‘ کے دفتر چلا جاتا تھا جو ٹاور سے پہلے نیو چالی پر واقع الیوسف چیمبر کی چوتھی منزل پر واقع تھا۔ میں جب دفتر پہنچتا تھا تو فیاض اعوان اور ٹی وی کے ڈرامہ نگار منظر امام وہاں پہلے سے موجود ہوتے تھے۔ فیاض اعوان زود نویس تھے۔ رسالے کے ایک شمارے کے لئے کئی ایک مضامین‘ انٹرویو اور سروے کر دیا کرتے تھے جو قلمی نام سے کچھ اپنے نام سے رسالے کی زبنت بنتے تھے۔ جنرل ضیاء تازہ تازہ بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر سریر آرائے اقتدار ہوئے تھے۔ رسالے میں فلم فیشن‘ سپورٹس ادب کے ساتھ سیاست کو بھی تختہ مشق بنایا جاتا تھا۔ فیاض باقاعدہ تعلیم کے معاملے میں تو ذرا کورے تھے لیکن انہیں لکھنا خوب آتا تھا۔ دل کے بھلے آدمی تھے۔ زمانہ ہم لوگوں کی کڑکی کا تھا جیب میں پیسے برائے نام ہی ہوتے تھے۔ الیوسف چیمبر کے اسی فلور پرکینٹین واقع تھی۔ میں اور فیاض اعوان اپنے اپنے پرس کا جائزہ لے کر اتنی رقم جوڑ جاڑ کر اکٹھی کر لیتے تھے کہ دوپہر کا کھانا کھا سکیں۔اس میں سے کچھ روپے واپسی کے کرائے کے لئے بھی بچا لیتے تھے۔ تنگی تھی لیکن دل غنی تھے۔یہ میری اور غالباً فیاض اعوان کی بھی پہلی باقاعدہ چاکری تھی۔ طارق صاحب کا رویہ دوستانہ اور مشفقانہ ہوتا تھا اس لئے یہ نوکری کبھی چاکری محسوس بھی نہ ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جنرل ضیاء زندگی کے ہر شعبے میں اسلامی قوانین اور چادر و چار دیواری کی تہذیب متعارف کرانے میں لگے ہوئے تھے۔ پی ٹی وی پہ نیوز کاسٹروں کو شیروانی اور خواتین کو دوپٹے پہنا چکے تھے۔ پی آئی اے کی پروازوں میں شراب نوشی پر پابندی بھی لگ چکی تھی اور وہ سب کچھ ہو رہا تھا جس میں دھنک اور عقاب جیسے سوشل میگزینوں کا مستقبل ایک سوالیہ نشان تھا چنانچہ پہلے سرور سکھیرا کا دھنک بند ہوا اور غالباً سال ڈیڑھ سال بعد عقاب کی پرواز بھی معطل ہوئی۔ مجھے اسی دوران مجیب الرحمن شامی نے اپنے رسالے بادبان میں بلا لیا جہاں میں ان کے رسالے کے لئے کراچی کا سیاسی وقائع نگار ہو گیا۔فیض اعوان رسالہ ’’پلک‘‘ میں کام کرنے لگے دفاتر ہمارے الگ ہوئے تو ملنا جلنا بھی موقوف ہوا کبھی کبھار ٹیلی فون پہ بات چیت ہو جاتی تھی۔ ملاقاتیں کم ہوئیں تو انہوں نے اس کی تلافی یوں کی کہ خطوط لکھنے لگے۔ ان کے طویل خطوط مجھے پابندی سے ملنے لگے۔ یہاں تک کہ ان کے لمبے لمبے خطوں سے میری کئی فائلیں بھر گئیں۔ بعد میں وہ ملک کے مشہور کالم نگاروں اور ادیبوں کو بھی خطوط لکھنے لگے۔ اس کا اندازہ یوں ہوا کہ ایک مرتبہ عطا الحق قاسمی کراچی آئے تو مشفق خواجہ مرحوم نے ناظم آباد کے ایک ریستوران میں انہیں لنچ پر مدعو کیا۔ وہاں عطا صاحب نے مجھ سے فیاض اعوان کی بابت پوچھا کہ یہ صاحب کون ہیں اور انہیں کس نے لکھنے والوں کی اصلاح احوال کی ڈیوٹی پر مامور کیا ہے؟ میں اس کا بھلا کیا جواب دیتا لیکن جان گیا کہ فیاض نے انہیں بھی کوئی طول طویل اصلاحی نوعیت کا خط لکھ مارا ہے۔ اور جب موبائل آیا تو بھی وہ کالم نگاروں اور ادیبوں کو موبائل سے میسج بھیجتے رہے۔ یوں ان کے مراسم و تعلقات ملک کے اکثر کالم نگاروں صحافیوں اور ادیبوں سے قائم رہے۔ پچھلی بار جناب الطاف حسن قریشی کراچی تشریف لائے تو یہاں بھی فیاض اعوان ان سے ملاقات کے لئے پہنچے‘ ان کے پاس کچھ یادگار تصویریں تھیں جو وہ الطاف صاحب کو دکھانے لائے تھے۔ جب تک فیاض موجود رہے الطاف صاحب ان ہی سے محو کلام رہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود کے کالموں سے بھی اس کا سراغ ملتا رہا کہ فیاض اعوان انہیںبھی پابندی سے میسج وغیرہ کرتے رہتے ہیں۔ یہ عجیب سی عادت تھی ان کی۔ مجھے نہیں معلوم کہ مشہور شخصیات کو مسیج کرنے سے ان کی شخصیت کی کس فیکلٹی کو تسلی ملتی تھی۔ فیاض کی عمر ان ہی سرگرمیوں میں گزرتی رہی شادی انہوں نے کی نہیں اور باقاعدہ ملازمت سے بھی عرصہ تک انقطاع رہا۔ انتقال سے قبل جیسا کہ طارق محمود صاحب نے بتایا کہ وہ محمود شام کے رسالے سے منسلک تھے اسی کے لئے مضامین لکھتے انٹرویوز لیتے اور یوں دنیا چھوڑنے سے پہلے ان کا قلم خطوط نویسی سے بڑھ کر صحیفہ نگاری میں منہمک ہو چکا تھا۔ فیاض اعوان کوئی بڑے صحافی تو نہ تھے اور نہ یہ بڑا صحافی بننا ان کاخواب تھا۔وہ دنیا میں یہی کچھ کرنے آئے تھے لیکن ایسا کچھ وہ کب تک کرتے رہتے۔ ؎ کہانی ہے تو اتنی ہے فریب خواب ہستی کی کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہو جائے