صحافیوں اور کالم نگاروں کے بارے میں اکثر یہ سوچا جاتا ہے کہ ہم کو اچھی چیزیں نظر نہیں آتیں۔ وہ بری خبروں کے منتظر رہتے ہیں۔ یہ الزام سچ نہیں ہے۔ صحافی اور کالم نگار نہ صرف اس معاشرے کا حصہ ہیں بلکہ اس معاشرے کا حساس حصہ ہیں۔وہ صرف بری خبروں سے متاثر نہیں ہوتے ۔ ان کو اچھی خبریں شاید دوسروں سے زیادہ بہتر محسوس ہوتی ہیں۔ اگر یہ بات سچ نہ ہوتی تو آج کا کالم سندھ میں ہونے والی بارشوں کے بعد کراچی سے لیکر حیدرآباد تک اور ٹھٹہ سے لیکر بدین تک ناقص نظام کے کرپشن کے ان تالابوں اور ریلوں پر ہوتا جن میں عام آدمی کی عید کی خوشیاں بھی بہہ گئی ہیں۔ یہ کالم کراچی اور اندرون سندھ کے حوالے سے جاری اس بحث پر بھی ہوسکتا ہے جس میں سندھی مہاجر تضاد کو پھر تیکھا کرنے والے سازشی عناصر نے یہ اعتراض اٹھایا کہ کہاں نقصان زیادہ ہوا ہے؟ کیا یہ سوال اس قدر اہم ہے کہ اس پر اس وقت سوچا جائے جب حیدرآباد کے گھروں میں پانی داخل ہوجائے اور کراچی میں کے الیکٹرک کی ناقص کارکردگی کے باعث زندگی سے محروم ہوجائیں۔اس بار بارش نے سندھ کے اہم شہروں ٹھٹہ اور بدین کو تو اس قدر نقصان پہنچایا ہے کہ اس کا تذکرہ ایک الگ کالم میں ممکن ہے۔ یہ کالم حکومت سندھ کے اس ناقص کارکردگی پر بھی ہوسکتا تھا۔ جس طرح وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ بارش کے دوراں جینز کی پینٹ اور لانگ شوز پہن کر جس طرح کراچی اور حیدرآباد کی بارش میں تصاویر بنواتے رہے؛ ان کی ایسی کارکردگی پرایک عدد طنزیہ کالم بھی لکھا جاسکتا تھا۔ سندھ اس بار صرف بارش سے متاثر نہیں ہوا۔ جب گرفتار ہونے سے پہلے کرپشن کے حوالے سے ’’سندھ حکومت کی پھولن دیوی‘‘ کے نام سے مشہور شخصیت فریال تالپور کو کئی دنوں تک اپنے قیمتی بنگلے میں رکھنے کے بعد گذشتہ روز ہسپتال سے جیل منتقل کیا گیا تو سندھ کے نازک مزاج مڈل کلاس کو اس بات کا بھی دکھ ہوا۔ سندھ کے مڈل کلاس کی منافقت پر بھی کالم لکھا جاسکتا تھا۔ سندھ کے درد بہت ہیں۔ سندھ کے مسائل گنتے گنتے انگلیاں تھک سکتی ہیں۔ مگر صرف زندگی میں مسائل نہیں ہیں۔ اس معاشرے میں صرف بری باتیں نہیں ہوتیں۔ اچھی اور مثبت چیزیں بھی جنم لیتی ہیں۔ اس لیے آج کا کالم نہ تو کرپٹ سیاست پر لکھا جائے گا اور نہ کرپٹ سیاست کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل پر رقم ہوگا۔ آج کا کالم اس تھر پر ہے جہاں زندگی ہمیشہ بھوکی پیاسی رہتی ہے۔ جہاں بچے خوراک اور علاج حاصل نہ ہونے کی وجہ سے ماؤں کی آغوش میں بغیر تڑپے مر جاتے ہیں۔ جہاں نہ صرف انساں بلکہ پرندے اور جانور بھی پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں۔ اس تھر میں اس بار اتنی بارش ہوئی ہے کہ تھر اپنے حصے میں آنے والے کئی برسوں کے غموں کو بھول گیا ہے۔ اس لیے آئیں اور ایک دن کے لیے سیاست کو بھول جائیں۔ آج صرف اس مسرت کو محسوس کریں جو تھر کے اجڑے اداس چہرے پر مسکراہٹ کی صورت ابھر آئی ہے۔ تھر کے لیے بارش محبت کی سب سے بڑی مثال ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ جب کسی تھر کے باسی کو یہ خبر ملتی ہے کہ تھر میں بارش ہو رہی ہے تو وہ اچھی ملازمت کو بھی قید سمجھنے لگتا ہے اور شہر سے بھاگ کے اس صحرا میں پہنچ جاتا ہے جہاں مائی بھاگی کی ان صداؤں پر مور ناچتے ہیں: ’’بھٹ کے بھٹائی تیری بھٹ پر برسے نور تم نے میری آس پوری کی‘‘ اس بار بادلوں نے تھر کی آس بھی پوری کی ہے اور اس کی پیاس بھی مٹائی ہے۔ تھر والوں کی خوشی کو سوشل میڈیا پر دیکھنے والوں کو محسوس ہورہا تھا کہ حالیہ بارشوں میں نہ صرف تھر کے لوگ اور تھر کے مور بلکہ تھر کی ریت کا ذرہ ذرہ خوشی سے رقص کر رہا تھا۔ تھر بارش سے بغیر اور بارش کے بعد متضاد منظر پیش کرتا ہے۔ اگر آپ تھر کو اس صورت میں دیکھیں جب دو تین برسوں سے اچھی بارشیں نہ ہوئی ہوں تو تھر پر نظر ڈال کر آپ کا دل اداس ہوجائے گا۔ کمزورلوگ اور بیمار جانور دیکھ کر آپ کو افسوس ہوگا۔ جب انسان پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ہاتھ پھیلاتے نظر آئیں تو تکلیف ہوتی ہے۔ جب تھری لوگوں کے مویشیوں کو کھانے کے لیے سبز گھاس کا ایک تنکہ نصیب نہ ہو تو انسان کا دل نہیں چاہے گا کہ وہ غربت اور افلاس کے ایسے مناظر دیکھے۔ شہر کے بہتر حالات میں بسنے والا کوئی شخص کس طرح دیکھ سکتا ہے انسانوں اور جانوروں کو ایک تالاب سے پانی پیتے ہوئے؟ ایسے مناظر انسان کا دل دبوچ لیتے ہیں۔ تھر اس صورت میں درد کا گھر محسوس ہوتا ہے۔یہ ایک عام تھر ہے۔ اس تھر کے بارے میں افسوس سے بھری ہوئی خبریں پاکستان کا ہر شہری پڑھتا ہے۔ یہ عام سی حقیقت اس وقت بدل جاتی ہے جب بادل تھر پر اس طرح جم کر برستے ہیں جس طرح وہ اس بار برسے ہیں۔ عمرکوٹ سے اسلام کوٹ تک اور مٹھی سے نگرپارکر تک اس بار بادلوں نے تھر کے کسی علاقے کو باران رحمت سے محروم نہیں رکھا۔ بارش کے حوالے سے تھر کے جس حصے سے جو خبر آ رہی تھی وہ اچھی خبر تھی۔ اب تھر میں ایسا چہرہ نظر آنا مشکل ہے جس پر مسکراہٹ کا رقص نہ ہو۔ یہ اور بات ہے کہ بادلوں کو بھرپور انداز سے برستا دیکھ کر وہ آنکھیں بھیگ جاتی ہیں جنہیں اپنے بچھڑے ہوئے پیارے یاد آتے ہیں۔ تھر میں اس وقت خوشی کا موسم ہے۔ تھر میں بارش کے بعد سبزہ اپنی پوری قوت سے ابھر رہا ہے۔سندھ کے شہروں میں بسنے والے لوگ تو تھر کی بھیگی ہوئی ریت پر چہل قدمی کرنے کے لیے نکل پڑے ہیں۔ مگر تھر ان کو ہر پل یہ کہتا محسوس ہو رہا ہے کہ ابھی تم نے صحرا کی حسین صورت دیکھی کہاں ہے؟ بس چند روز انتظار کرو اور پھر آؤ اور آکر دیکھو کہ تھر سوئٹزرلینڈ سے مقابلہ کرنے والے مناظر پیش کرتا ہے کہ نہیں؟ اس وقت ہی ہریالی پیدا ہونا شروع ہوگئی ہے مگر چند دنوں کے بعد جب پورا تھر سبز گھاس سے بھر جائے گا اور جب وہ ہواؤں میں لہرائے گا تب تھر میں اس حسن کو اپنی آنکھوں اور اپنی یادوں میں محفوظ کرنے کے لیے سیاحوں کے قافلے امڈ پڑیں گے۔ کاش! حکومت سندھ تھر میں آنے والی اس بہار کے دوران ایسے انتظامات کرے کہ تھر میں سیاحت اہلیان تھر کے لیے آمدنی کا ایسا مضبوط ذریعہ بن جائے کہ تھر ہر سال سرکار سے امداد حاصل کرنے کے لیے اپنے زخم نہ دکھائے۔ اگر سندھ حکومت چاہے تو تھر میں چھوٹے چھوٹے ڈیم بناکر بارش سے حاصل ہونے والے پانی کو محفوظ رکھنے کا بندوبست بھی کرسکتی ہے۔ اگر سندھ حکومت چاہے تو تھر میں ترقی کا نیا نیٹ ورک بچھا سکتی ہے۔ اگر سندھ حکومت چاہے تو تھر میں اچھائی کا آغاز کرسکتی ہے۔ اگر سندھ حکومت چاہے تو تھر کو لوک ورثہ بنا کر اس کے دکھوں سکھوں میں تبدیل کرسکتی ہے۔ سندھ حکومت ایسا کرسکتی ہے مگر سندھ حکومت ایسا کیوں کرے گی؟ اگر سندھ حکومت تھر کے لوگوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے اور انہیں خود کفیل بنانے میں کامیاب ہوگئی تو ان وزیروں؛ مشیروں اور کرپٹ افسران کا کیا ہوگا جو تھر کے لیے جاری ہونے والی امداد میں ڈاکے ڈالتے ہیں۔ وہ تھر کو خوشحال دیکھنا نہیں چاہتے۔ مگر تھر کی ذمہ داری صرف حکومت سندھ کی نہیں ہے۔ تھر سے صحت کارڈ کا اجرا کرنے والے ملک کے وزیر اعظم عمران خان تھر کے درد سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ ان کے انتخابی منشور میں سیاحت کو فروغ دینے کے حوالے سے مضبوط نکات شامل تھے۔ اب تھر میں بارش ہوئی ہے۔ اب تھر میں ترقی کا بنیاد رکھنے کے مواقعے میسر آئے ہیں۔ اگراس برس سے تھر کی خوشحالی کے سفر کا آغاز بھی کیا جائے تو وہ منزل دور نہیں ہوگی جس منزل پر پہنچ کر تھر غربت کا گھر نہیں کہلائے گا۔ جس منزل پر پہنچ کر تھر مسرت کا در بن جائے گا۔