کینیڈا میں پرآسائش زندگی گزارنے والا روی ہودا ایک بھارتی نژاد کینیڈین شہری ہے ،ہودا ایک مشہور اسکول کا کونسلر بھی تھا اور ساتھ ہی ایک رئیل اسٹیٹ فرم کے ساتھ جڑا بھی ہوا تھاوہ ایک خوشحال زندگی گزار رہا تھااسکے پاس بہترین کار، اپنا گھر، پرسکون ملازمت اور کاروبار بھی تھا جہاں اسکے اچھے خاصے چھکے لگ جاتے تھے۔ اسے زندگی میں ہر وہ آسائش میسر تھی جس کی کوئی بھی ہندو لکشمی دیوی سے امید رکھتا ہے۔ روی اپنی پرآسائش زندگی سے مطمئن تھا بس اسے اپنے آس پاس مسلمان بہت کھلتے تھے اسکے اند ر کا شدت پسند ہندوغصے میں کھولنے لگتا تھا۔ موجودہ رمضان میں کینیڈین حکومت نے مسلمانوں کو اذان کے لئے مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کی اجازت دی تو روی میں چھپا شدت پسند آپے سے باہر ہوگیا ،اللہ کی کبریائی اور فلاح کا پیغام اسکے کانوں میں سیسے کی طرح اترتا تھا۔وہ ٹوئٹر پرمسلمانوں کے خلاف نفرت اگلنے لگا ،اس نے نفرت انگیر لہجے میں سوال کیا کہ ’’اب اگلا اقدام کیا ہوگا،انہیں قربانی کے نام پر گھروں تک بکرے او ر اونٹ مویشی لانے کے لئے سڑکوں پر الگ لین دی جائیں گی؟ووٹ لینے کے لئے قانون بنا یاجائے گا کہ تمام خواتین سر سے پاؤں تک خیمے نما برقعوں میں خود کو چھپا لیں ۔۔۔اس ٹوئٹ پر روی ہودا کا غصہ تو نکل گیا لیکن پشیمانی رہ گئی اسکے ٹوئٹ کا نوٹس لیا گیا اوراس کی نوکری گیلا صابن بن کر ہاتھ سے نکل گئی۔ اسکول والوں نے اعلانیہ نکال باہر کیا ۔وہ جس ادارے کے ساتھ زمین کی خریدو فروخت کا کام کرتا تھا انہوں نے بھی اسے کاروبار سے علیحدہ کردیا اور باقاعدہ اعلامیہ بھی جاری کیا۔ متحدہ عرب امارات بھارت کے لئے سونے کی چڑیا ہے ،یہاں نوے لاکھ بھارتی شہری کام کرتے ہیں جومتحدہ عرب امارات کی ستائیس فیصد آبادی کے لگ بھگ ہیں یہاںہر تیسرا شخص بھارتی ہے ان ہی بھارتیوں میں پریتی گری بھی ہیں یہ ادھیڑعمر بی بی دبئی کی ایک فرم میںاچھے عہدے پرفائز ہیں۔ ان کی رسائی بھارتی وزر اعظم تک بھی بتائی جاتی ہے کم از کم ٹوئٹرکی ڈی پی پر یہ نریندر مودی کے ساتھ تصویرمیں یہ ہی ظاہر کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ جب انسان کے پاس دولت کی طاقت ہو بااختیار لوگوں کے ساتھ میل ملاقات ہو سماج میں اسٹیٹس ہواور ظرف نہ ہو تو اسکی گردن میں سریا آہی جاتا ہے۔ پریتی گری صاحبہ کے ساتھ بھی ایسا ہی تھا ان کے اند ر کا انتہا پسند انہیں نچلا بیٹھنے نہیں دیتا تھا وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو مسلمانوں کو تما م مسائل کی جڑ سمجھتے ہیں ،جو کچھ انسان کے ذہن میں ہوتا ہے وہ کبھی نہ کبھی زبان پر آہی جاتا ہے۔ پریتی گری کے اند ر کاانتہا پسند انسان بھی باہر آکودا۔یہ گذشتہ ماہ کی بات ہے جب پریتی گری نے ٹوئٹر پر بھارتی حکومت کو مشورہ دیا کہ اگر تبلیغی جماعت والے ان سے تعاون نہ کریں اور خود کو حکومت کے حوالے نہ کریں تو ان کا ’’انکاؤنٹر‘‘ کردینا چاہئے یہ ہی واحد راستہ ہے۔ اسے کسی نے دبئی پولیس کو ٹیگ کر دیا پریتی گری کو اگرچہ بعد میں احساس ہو گیا کہ ان کی زبان انکے لئے مشکلات کھڑی کر گئی ہے انہوں نے اپنا ٹوئٹ ہٹا دیا لیکن تب تک اس کے اسکرین شارٹ لئے جاچکے تھے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق سوربھ اپادھیائے نامی نوجوان نے اس سے پہلے ٹوئٹر پرآگ لگا چکا تھا کہ یہ خلیجی ممالک جو بھی ہیں ہم بھارتیوں کی وجہ سے ہیں یہ ہم ہندستانی ہی ہیں جس میں اسی فیصد ہندو شامل ہیں،ہم نے کوڑے کے ڈھیر سے دبئی جیسا شہر کھڑا کیااور اس بات کی عزت یہاں کا شاہی خاندان بھی کرتا ہے ۔جناب کے اس غرور پر وہ ہوا جو پہلے کبھی نہ ہوا تھا ،ٹوئٹر پر خلیجی ریاستوں میں مقیم انتہا پسند ہندوؤں کے ان تیزابی نفر ت انگیز بیانا ت نے شاہی خاندان کو نوٹس لینے پر مجبور کردیا،شارجہ کی شہزادی ہندالقاسمی کا ٹوئٹ بڑا ہی سخت تھا شہزادی نے نام لئے بغیر لکھا کہ حکمران شاہی خاندان بھارت کے دوستوں میں سے ہے لیکن آپ کا یہ برتاؤ ہرگز قابل قبول نہیں یہاں سب ہی کو کام کا پیسہ ملتا ہے کوئی مفت میں کام نہیں کرتاآپ اس زمین سے روزی روٹی کماتے ہیں اور اسی کی توہین کر رہے ہیں آپ کو اسکا جواب ملے گا۔ اسی عرصے میں بنگلور سے بی جے پی کے رکن تیجسوی سوریہ کے ٹوئٹ بھی عربوں کو خاصا مشتعل کرچکا تھا،تیجسوی نے عرب خواتین کے بارے میں نہایت شرمناک جملے کہے تھے ان غلیظ لفظوں نے عرب ممالک میں پہلی بار بھارتیوں کو الگ طرح سے دیکھنے پر مجبور کر دیا ہے وہ سوچ رہے ہیں کہ یہ وہ محسن کش لوگ ہیں جو ہمارے درمیان رہتے ہوئے اپنالائف اسٹائل تبدیل کرتے ہیں خوشحال زندگی گزارتے ہیں اور یہ احسان ماننا تو چھوڑیئے ہم سے صرف مسلمان ہونے کی بنا پر ایسی نفرت کرتے ہیں؟ ہماری عورتوں کے بارے میں اس طرح کی غلیظ گفتگو کرتے ہیں، عربوں کو بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر برہمی ہے کہ بالآخر وہ انسان اور مسلمان ہیں۔ نئی دہلی کو عوامی سطح پر عربوں کے اشتعال کا پتہ چلا تو وہی نریندر مودی جو پہلے شہریت کے امتیازی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں کے لئے کہتا تھا کہ دنگا فساد کرنے والے اپنے حلیے سے پہچانے جاسکتے ہیںانہیں ٹویٹ کرنا پڑاکہ کورونا مذہب دیکھ کر حملہ نہیں کرتا ۔۔۔مودی عربوں کو شانت کرنے کی کوشش میں ہیں لیکن عربوں کا اشتعال پھیلتا جارہا ہے انہیں پہلی بار احساس ہواہے کہ ان کے آس پاس کس قسم کے لوگ ہیں۔ کویت کے ایک وزیر نے نہائت سخت ردعمل دیتے ہوئے یہاں تک کہا کہ اگر بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم بند نہ کی گئی توبھارتی اشیاء کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ ایک او ر کویتی لیڈر نے کہا کہ ہمارے ملک میں کورونا کے اٹھارہ سو کیس ہیں جن میں نو سو بھارتیوں کے ہیں اور ان میں بھی اکثریت ہندو ہیں ۔۔۔خلیجی ممالک سمیت عرب دنیا میں پہلی بار عوامی سطح پر ہندو انتہاپسندی زیر بحث ہے۔ عرب سوچ رہے ہیں کہ روی ہودا سے پریتی گری تک بھارتی ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت چھپی ہوئی ہے یہ نفرت بحیثیت مسلمان انکی زندگی اور کاروبار کو بھی داؤ پر لگا سکتی ہے ،مودی جی کے چیلوں نے بیرون ملک بھارتیوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان نہیں لگایا تو اسکی ابتدا ضرور کردی ہے ، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔