سال 2018 ء میں ہندوستان کو خواتین کے حق میں سب سے زیادہ پرخطر ملک قرار دیا گیا۔ یہ مقام تھامسن ریوٹرس فاؤنڈیشن کے سروے کی بنیاد پر دیا گیا تھا۔ اگر صرف گزشتہ چند ہفتوں کے واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کا تجزیہ کیا جائے تو ہندوستان کو لڑکیوں کے قاتل ملک کی حیثیت مل جائے گی جہاں پر عصمت دری ، عصمت ریزی اور اس کے بعد بہیمانہ ، بے دردانہ و بے رحمانہ صنف نازک کا قتل پورے یو پی اور مدھیہ پردیش میں آپ کو نظر آئے گا اور اکثر یہ معاملہ چھوٹے موٹے خاندانی جھگڑوں کی بنیاد پر پیش آئے ہیں۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے آپ گورکھپور کے کشی نگر ڈسٹرکٹ کی مثال لے سکتے ہیں جہاں ایک 12 سالہ نابالغ و ناکردہ گناہ لڑکی کو 7 جون کو اس کے گھر سے باہر کھینچ کر بلکہ گھسیٹ کر لایا گیا اور اس کی 6 بظاہر انسان نظر آنے درندوں نے عصمت دری کی۔ ان درندوں نے یہ گھناؤنی حرکت اس وجہ سے کی کہ اس معصوم کے گھر والوں سے پانی کی نکاسی کی تعمیر کے لئے کچھ جھگڑا ہوگیا تھا۔ ان 6 بزدل درندوں میں سے 2 مفرور بتائے گئے ہیں جبکہ وہ معصوم ناکردہ گناہ لڑکی ابھی مقامی اسپتال میں ہنوز زیر علاج ہے۔ اب آیئے پرگیہ ٹھاکر ، بی جے پی کی رکن پارلیمنٹ بھوپال کی طرف جس نے متاثرہ بدنصیب لڑ کی کے گھر کو گئیں اور انہیں ڈھارس و تسلی اور پرسہ دیا اوراپنی ہمدردی جتائی۔ لوک سبھا میں بھال کی نمائندہ شخصیت کی حیثیت سے پرگیہ کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ مدھیہ پردیش خواتین سے متعلق خطرناک جرائم کی فہرست میں ’’سرفہرست ‘‘ ہے۔ این سی آر بی یعنی نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کے اعداد و شمار کی روشنی میں مدھیہ پردیش میں عصمت ریزی کے کیس میں پورے ملک میں پہلا مقام رکھتا ہے جہاں سال 2016 ء میں 4,882 عصمت ریزی کے کیسز رپورٹ ہوئے۔ ان میں زائد از 50 فیصد یعنی 2,479 کیسز کا تعلق انتہائی کم سن معصوم لڑکیوں سے ہے۔ علیگڑھ میں واقع تپال میں 3 سالہ معصوم لڑکی کا قتل کیا گیا اور اسے بعد ازاں ایک کچرے کے ڈبے میں پھینک دیا گیا جس کے بارے میں اخبارات میں سرخیاں لگیں۔ واضح رہے کہ اس بدنصیب لڑکی کی گمشدگی کی خبر 30 مئی کو پولیس میں درج کروائی گئی تھی جبکہ اس کی نعش 2 جون کو پائی گئی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی کہ اس کو پھندا لگاکر یعنی گلا گھونٹ کر مار دیا گیا اور پولیس نے اس کے ساتھ جنسی بدسلوکی کے کسی بھی خدشہ کی نفی کی ہے تاہم ابھی یہ حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا اس لئے کہ ابھی یہ معاملہ زیر تحقیق ہے۔ سال 2010 ء میں 22,172 کیس ہندوستان میں 65 فیصد اضافہ کے ساتھ سال 2014 ء میں 36,735 کیسز درج ہوئے جبکہ اترپردیش میں سال 2010 ء میں 1563 کیسز کے بالمقابل 121 فیصد اضافہ کے ساتھ سال 2014 ء میں 3,467 کیسز درج کئے گئے۔ یہ تمام اعداد و شمار این سی آر بی نے پیش کئے ہیں۔ علاوہ ازیں کمسن نابالغ عصمت ریزی کرنے والے ملزمین نے سال 2015 ء میں 1688 کیس میں اضافہ کے ساتھ گزشتہ سال 1,903 کیس درج کئے گئے جو تقریباً 13 فیصد اضافہ کا اشارہ کرتا ہے۔ ان سب اعداد و شمار کے پیش کرنے کے بعد میں (مصنف) یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہوں کہ باوجود سخت قوانین ہونے کے ، خواتین کے ساتھ جنسی بدسلوکی اور فحاشی پر کیوں روک لگانے میں ناکام ثابت ہورہا ہے۔ واضح رہے کہ نئے جنسی بدسلوکی و فحاشی کے انسداد کے قوانین سال 2013 ء میں مدون کئے گئے تھے جس میں کم ترین وقت مقدمہ میں لگاتے ہوئے ناسور نسانیت عصمت ریزی کے ملزمین کیلئے سخت ترین سزائیں تجویز کی گئی تھیں، اس سلسلہ میں جب ہیڈ آف سوسائٹی برائے پروموشن آف یوتھ اینڈ ماس ڈاکٹر راجیش کمار سے سوال کیا گیا کہ عصمت ریزی کے بعد بے دردانہ و بہیمانہ قتل کے واقعات میں زبردست اضافہ کیوں ہورہا ہے ، جو تہاڑ جیل میں طفلانہ تقصیر / نابالغ عصمت ریزی کے ملزمین کے سلسلہ میں بھی کام کرتے ہیں۔ کمار نے کہا کہ ’’جب سال 2013 ء میں قانون میں ترمیم کی گئی تو میں (کمار) نے اس قانون میں موجود کمزوریوں اور نقائص کی طرف توجہ دلائی تاکہ اس میں مضبوطی لائی جاسکے۔ انہوں نے اس حقیقت کا اظہار کیا کہ اگر عصمت ریزی سے متاثرہ لڑکی زندہ رہتی ہے تو وہ اس (ملزم) کے جرم کی گواہ بن جاتی ہے جس کی وجہ سے ملزم اس متاثرہ بدنصیب لڑکی کو دنیا سے ہٹا دینے میں ہی عافیت خیال کرتا ہے اور یہ بھی انہوں نے واضح کیا کہ جن ملزمین نے اس جرم کو انجام دیا ہے۔ 600لفظ باہر ہیںچاہے وہ کھلے عام سڑکوں پر رہیں یا پھر جیل میں ، ان میں نہایت ہی کم فرق ہوتا ہے۔سپریم کورٹ کی ایک سینئر ایڈوکیٹ ریبیکا جان کا احساس ہے کہ اس قسم کے جرائم کے سدباب اور بیخ کنی کے لئے اسے بڑے پیمانہ پر سامنے لانا اور انسداد کی بھرپور کوشش کی سخت ضرورت ہے۔ ’’ہمیں ان جرائم (عصمت ریزی و قتل) کی بیخ کنی کیلئے اس کی اصل جڑ یعنی اصل وجہ کو جاننے کی کوشش کرنا چاہئے اور اس جرم سے جڑے مسائل کو سمجھنا چاہئے۔ ہمارے اس ملک ہندوستان میں بے روزگاری بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے معاشی پسماندگی اور ذہنی صحت میں درماندگی خلط ملط ہوکر ان بہیمانہ و سفاکانہ جرائم کا سبب بن رہا ہے۔ کیا ہماری ریاست (یعنی ریاستی حکومت) نے ان مسائل پر کبھی غور و فکر کیا ہے ؟ کیا وہ اس کے لئے جواب دہ نہیں ہے ؟ اس موقع پر حکومت ، بہروں والی خاموشی سے کام لیتے ہوئے خاموش ہوجاتی ہے۔ یاد رکھئے کہ صرف سزاء میں اضافہ اس کا جواب نہیں ہے۔ ریبیکا جان نے ان احساسات قلبی کا اظہار کیا۔ ’’ہماری سوسائٹی اندرونی طریقہ پر پھٹ رہی ہے جیسا کہ قبل ازیں سری لنکا میں ہوا۔ مسابقتی جمہوری سیاست کے خلفشار نے سماج میں طبقات کو جنم دیا ہے کہ جس کی وجہ ہماری سوسائٹی میں یہ تباہ کاریاں جنم لے رہی ہیں اور سوسائٹی کو زخم پر زخم لگ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری پولیس ابھی بھی اکثریت والے طبقہ کا ساتھ دیتی ہے جو کہ 1947 ء سے چلی آرہی ہے‘‘۔ (بشکریہ سیاست:بھارت)