بائیس نومبر کوجب بھارت سے خبر سامنے آئی کہ انڈین کابینہ نے کرتارپوربارڈر کھونے کی اجازت دیدی ہے تو کون ہے جو اس بھارتی فیصلے پر حیران نہ ہوا،یہ منظوری کسی وزیر یا وزیر اعظم کی طرف سے نہیں بھارتی کابینہ نے دی،کرتار سنگھ بارڈر کھولنے کی بات ،تجویز یا پیشکش پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے عمران خان کی بحیثیت وزیر اعظم حلف برداری کی تقریب میں کی تھی، یہ وہ لمحہ تھا جب آرمی چیف نے عمران خان کی دعوت پر اسلام آباد آئے ہوئے سابق کرکٹر اور ایکٹر سدھو کو گلے لگایا تھا، اس واقعہ پر پورے بھارت میں سنسنی پھیل گئی، بھارتی میڈیا نے بھی اس واقعہ کو ٹوئیسٹ کرکے پیش کیا گیا، سدھو کو پاکستان کا ایجنٹ تک قرار دیدیا گیا، کہا گیا کہ سدھو کا جنرل باجوہ سے گلے ملنا بھارتی فوج کی توہین ہے، بے شک سدھو کی جانب سے کہا گیا کہ اگر پاک فوج کے سربراہ سے گلے ملنا بھارت کی توہین ہے تو وہ توہین آئندہ بھی کرتے رہیں گے، اور اب دونوں اطراف سے بارڈر کھولنے کی تیاریاں، کچھ تو ہے جو مجھے ہضم نہیں ہورہا،انڈین کیبنٹ کے فیصلے کے اگلے ہی دن کراچی میں چینی قونصلیٹ پر خود کش حملے کی کوشش ہماری پولیس اور دیگر ایجنسیوں نے ناکام بنادی، اس ناکام حملے کے ماسٹر مائنڈ کا نام بھی سامنے آچکا ہے، اسلم عرف اچھو نامی یہ وطن دشمن نئی دہلی کے ایک اسپتال میں زیر علاج بتایا جا رہا ہے، اسپتال کے بیڈ پر لیٹے ہوئے اسلم اچھو کی تصویر بھی وائرل ہو چکی ہے، اس کے اسپتال میں زیر علاج ہونے اور اسکی تصویر کے پیچھے کیا کہانی ہے،اس پر غور کی بھی ضرورت ہے، یہ خبر بھی سامنے آ چکی ہے کہ اچھو کی بہن بھی دہشت گردی کے الزام میں پکڑی گئی تھی۔وزیر اعظم عمران خان کا اس واقعہ پر ردعمل قابل غور ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ سی پیک کے خلاف سوچی سمجھی سازش تھی،دہشتگرد بیرونی ایجنڈے پر آئے، یقینا یہ چینی قونصل خانے پر نہیں پاک چین دوستی پر حملہ تھا اور اس میں بہت دور بیٹھے ہوئے پاکستان کے متروکہ دوست بھی تو ملوث ہو سکتے ہیں۔ اس ٹیم کی کمان ایک خاتون اے ایس پی سوہائے عزیز کے ہاتھ میں تھی، پاکستانی قوم کی ہیرو یہ پولیس افسر پانچ سال پہلے پولیس میں آئیں،سوہائے عزیز کے بارے میں بہت ساری تفصیلات سامنے آئی ہیں، ان میں سب سے زیادہ قابل توجہ بات یہ ہے کہ ان کے خاندان میں بچیوں کو پڑھانا ممنوع ہے، جب ان کے والد نے انہیں اسکول میں داخل کرایا تو ان کے سارے خاندان نے انکے گھرانے سے ناطہ توڑ لیا تھا اور ان کا مکمل سوشل بائیکاٹ کردیا گیا تھا، خاندان کے اس فیصلے کی وجہ سے سوہائے کے والد کو اپنا گاؤں بھی چھوڑنا پڑا تھا، قوم کی اس بہادر بیٹی نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کرکے محکمہ پولیس کو جوائن کیا، پاکستان کے میڈیا نے بھی سوہائے کو خراج تحسین پیش کرنے میں کسی بخل سے کام نہ لیا، جس جس نے بھی سوہائے کی تعریف و توصیف کی اس کے جواب میں وہ کہتی ہیں، چینی قونصلیٹ کو مکمل محفوظ رکھنے کا سہرا ان دو پولیس اہلکاروں کے سر ہے جو شہید ہوئے۔ ٭٭٭٭٭ آوارہ گردی کے دن تھے، صبح کہیں شام کہیں بسر ہو رہی تھی، عنایت حسین بھٹی کے سابق ڈرائیور اور اسٹیج سنگر شوکت کشمیری نے میری ملاقات کرائی عالم لوہار سے۔۔چوک نواں کوٹ سے سمن آباد داخل ہوں تو بائیں ہاتھ ایک بوسیدہ سا بنگلہ موجود تھا۔ یہاں عالم لوہار اپنے تھیٹر کی بہت ساری فنکاراؤں کے ساتھ رہائش رکھے ہوئے تھے، وہ خود تو نیچے گراؤنڈ فلور پر ہی ملتے ، لیکن جب کوئی قریبی دوست آتا تو فنکاراؤں کو اوپر والی منزل سے نیچے بلوا لیتے، کبھی تین آجاتیں ، کبھی چار۔عالم لوہار کے نام کا طوطی بول رہا تھا ، ان کی زندگی کا مقصد صرف ایک تھا۔ وہ خود کو سینما اسکرین پر ہیرو کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے،، شنید ہے کہ کئی نام نہاد یا کنگلے ڈائریکٹر ان سے مال ہتھیانے کے لئے انہیں سٹوڈیوز لے جاتے اور خالی کیمروں کے ساتھ انہیں شوٹ کرتے رہتے۔۔عالم لوہار کے پاس کتنا مال ہوگا ، یہ وہی سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے عالم لوہار کا میلوں میں تھیٹر دیکھا ہو۔۔میں جس بوسیدہ بنگلے کا ذکر کر رہا ہوں اس کے مالک تھے زرتاش ابھی بقید حیات ہیں نوے کے قریب عمر ہے ، کبھی کبھی اپنی ایک نوجوان ملازمہ کی تیمار داری میں زندگی کے آخری دن گزار رہے ہیں ، ان دنوں زرتاش کو لکھنے لکھانے اور فلم ڈائریکشن کا شوق تھا.عالم لوہار نے زرتاش کو ڈائریکٹر لے کر اپنی ذاتی فلم کی مہورت کر دی۔ ہیرو تھے خود عالم لوہار اور ہیروئن لیا گیا زمرد کو ، اس فلم کی شوٹنگز شروع ہو گئیں۔ اس بار عالم لوہار سے فراڈ نہیں ہو رہا تھا ، کیمرہ بھی اصلی تھا اور کیمرہ میں بھی اصلی اسی دوران عالم لوہار کو حکومت برطانیہ کی طرف سے سرکاری دورے کی دعوت آگئی ، یہ ہوا کیسے؟ یہ تو مجھے معلوم نہیں ، لیکن یہ ہوا۔۔اور انہیں بکنگھم پیلس میں ملکہ عالیہ نے پرفارم کرتے دیکھا، لندن سے انکی واپسی کے بعد میں ان سے ملنے زرتاش والے گھر گیا ، میرے ساتھ ایک دوست بھی تھا جسے کہانیاں اور نظمیں لکھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا ، وہ خواتین کے عروسی ملبوسات پر کڑھائی کا ماہر کاریگر بھی تھا۔۔عالم لوہار نے لندن یاترا کی کہانی سنانا شروع کردی جو ان کے چمٹے سے بھی زیادہ طویل تھی، بڑی مشکلوں سے کہانی ختم کرائی تو انہوں نے ایک خاتون کو آواز دے کر بلوا لیا’’’ او کپڑا تے لیا ، جیہڑا میں زمرد دے لہنگے لئی لیاندا اے ‘‘‘‘ سرخ رنگ کا یہ کپڑا بہت عمدہ اور نفیس تھا۔۔عالم لوہار نے بتایا کی اس کپڑے سے وہ زمرد کے لئے لہنگا سلوائیں گے اور اس لہنگے کو پہن کر زمرد اس کے ساتھ فلم میں دوگانا پکچرائز کرائے گی۔ میری شامت، کہہ بیٹھا کہ میرا ساتھ آنے والا دوست کڑھائی کرتا ہے اور اگر اس کپڑے پر کڑھائی کے بعد لہنگا سلوایا جائے اور پھر زمرد کو پہنایا جائے تو زمرد کو مزید چار چاند لگ جائیں گے۔۔عالم لوہار کو میری یہ تجویز اتنی بھائی کہ انہوں نے وہ کپڑا میرے دوست کے حوالے کر دیا . طے یہ پایا کہ ایک ہفتے بعد کڑھائی کرکے یہ کپڑا انہیں واپس کر دیا جائے گا۔اس واقعہ کو تین چار ہفتے گزر گئے تو ایک دن عالم لوہار نے میرے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا دیا،’’’’ یارا، او تیرا بیلی لہنگے دا کپڑا ای نئیں لے کے آیا‘‘‘‘ میں نے کہا ،، لالہ جی ، اسے کوئی مصروفیت آگئی ہوگی ، میں اس کے پاس جاتا ہوں ، پتہ کرنے ، آپ جائیں ، میں آپ کو بتا دوں گا، عالم لوہار یہ کہتے ہوئے واپس چلے گئے،،’’’ میں تے ایس ہفتے شوٹنگ رکھ لئی سی۔میں اپنے دوست کو ڈھونڈنے اس کے گھر اور دکان پر کئی دن جاتا رہا ، وہ مجھے مل ہی نہیں رہا تھا ، میں شرمندگی کے مارے عالم لوہار سے بھی نہیں مل رہا تھا۔۔۔ رات کو جب میں گھر جاتا تو میرے ابا جی پوچھتے ’’ اوئے اے عالم لوہار تینوں لبھن روز آ جاندا اے، خیر تے ہے ؟ میں جواب دیتا ’’’ انہیں میرے ساتھ کوئی کام ہوگا ، میں مل لوں گا ‘‘‘کئی روز کی مشقت کے بعد میں نے اپنے اس کاریگر دوست کو ڈھونڈھ ہی لیا۔یار، تم نے مجھے کس مصیبت میں پھنسا دیا ؟ عالم لوہار روزانہ میرے گھر پہنچ جاتا ہے،’مجھے پیسوں کی ضرورت تھی ، میں نے تو وہ کپڑا بیچ دیا تھا۔ ٭٭٭٭٭ ہمیں اب اپنے وزیراعظم عمرن خان پر کڑی نظر رکھنا ہوگی۔ آپ نے دیکھا کہ ملائیشیا کی خاتون اول نے بلاجھجک عمران خان سے ہاتھ مانگا اور انہوں نے ہاں کردی۔ حالات یہی رہے تو ہم اپنے نئے وزیراعظم سے محروم بھی ہو سکتے ہیں جنہیں وزیراعظم بناتے بناتے قوم کے بائیس سال لگ گئے۔