آئی ایم ایف سے پیکیج لینے کے حوالے سے بلی بالآخر تھیلے سے باہر آ گئی ہے۔ابھی تک قوم کو یہی بتایا جا رہا تھا کہ اس ضمن میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔کبھی کہا جاتا تھا کہ ہمیںبیرونی دوستوں سے اتنا مال آئے گا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔کبھی یہ کہ پروگرام میں جائیں گے لیکن ابھی نہیں۔تاہم وزیراعظم عمران خان کی آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ سے دبئی میں ورلڈ گورنمنٹ سمٹ کی سائیڈ لائن میں ملاقات کے بعد بہت سی باتیں واضح ہوئی ہیں ،میڈیا ،عمران خان اور آئی ایم ایف کی سربراہ کے ٹویٹس اور ملاقات کے بعد جاری ہونے والی پریس ریلیز سے جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق مذاکرات خاصے عرصے سے جاری تھے لیکن نہ جانے کیوں قوم کو مسلسل اندھیرے میں رکھا جا رہا تھا۔عام طور پر خیال کیا جا رہا تھا کہ پاکستان کے توسط سے افغان طالبان کے امریکہ کے ساتھ قطر میں مذاکرات کے بعد امریکی صدر ٹرمپ کے پاکستان کے بارے میں سخت رویے میں نرمی آ جائیگی لیکن اعلیٰ سطح کے مذاکرات کی تفصیلات سے ایسا نہیں لگتا۔ اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف کا پیکیج 6 ارب ڈالر کا ہو گا اور اپریل تک اس سلسلے میں اتفاق رائے ہونے کی توقع ہے لیکن بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے طے ہونے والے پیکیج کی تفصیلات بجٹ سے عین پہلے یا بجٹ میں واضح ہونگی۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ کرسٹین لیگارڈ کے ساتھ مذاکرات میں ملک کو پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے بنیادی اصلاحات کرنے اور اس کے ساتھ ساتھ غریب طبقے کے تحفظ کو یقینی بنانے کے پیکیج پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔پاکستان ماضی میں کئی مرتبہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں جا چکا ہے۔اس کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو قرض تو لے لیتے ہیں لیکن شرائط پوری کرنے میں اکثر ناکام رہتے ہیں۔اس لئے اسے’ ون ٹرینش کنٹری‘ کہا جاتا ہے اور اس طرح پیکیج تشنہ ہی رہ جاتا ہے۔اگرچہ میاں نوازشریف کے حالیہ دور وزارت عظمیٰ میں آئی ایم ایف کے پیکیج کو پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا۔ پاکستان کی خراب اقتصادی کارکردگی کی بنیاد پر ہی آئی ایم ایف پہلے ہی یہ شرائط عائد کر دیتا ہے کہ یہ شرائط پوری کرو پھر ڈالر لو۔ دوسری طرف امریکہ کی موجودہ انتظامیہ کی ہارڈ لائن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے چند ماہ قبل کے اس بیان سے واضح ہوتی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم پاکستان کیلئے آئی ایم ایف کے پیکیج کی حمایت اس لئے نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے مطابق یہ رقم چین کے قرضے اتارنے کیلئے استعمال ہو گی۔تاحال ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ امریکہ جو آئی ایم ایف کا غالب شیئر ہولڈر ہے کے رویہ میںکوئی مثبت تبدیلی آئی ہے۔خارجہ اور سکیورٹی پالیسی کے حوالے سے پاکستان امریکہ کے آگے کورنش بجا لا رہا ہے۔افغان مذاکرات شروع کرنے کے علاوہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے ساتھ تعاون اور ہنی مون زوروں پر ہے۔پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل(ر) راحیل شریف کی قیادت میں اسلامی فوجی اتحاد جس کا ہیڈ کوارٹرز سعودی عرب میں ہے کا وفد پاکستان کے دورے پر آیا ہوا تھا۔وفد کی وزیر اعظم،آرمی چیف،وزیر خارجہ اور اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں۔متذکرہ فوجی اتحاد سعودی عرب کی یمن میں فوجی مہم جوئی کیلئے قائم کیا گیا تھا۔دوسری طرف سعودی ولی عہد اور عملاً حکمران شہزادہ محمد بن سلمان بھی عنقریب پاکستان آ رہے ہیںاور سنا ہے کہ آئل ریفائنری سمیت بہت بڑا اقتصادی پیکیج لا رہے ہیں۔بعض ناقدین کے مطابق ہم اپنی اقتصادی مجبوری کی بنا پر گریٹ گیم میں پھنستے جا رہے ہیں۔ماضی میں سرکاری طور پر کہا جاتا رہا ہے کہ ہم یمن کی مہم جوئی میں فریق نہیں بنیں گے لیکن مشرق وسطیٰ میں ٹرمپ کے سب سے بڑے حواری سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں سے بڑھتی ہوئی پینگیں کسی اور طرف بھی اشارہ کرتی ہیں۔یقینا پاکستان قومی اسمبلی کی اس ضمن میں متفقہ قرارداد کی روشنی میں بھی خود کو اس جنگ نہیں جھونکے گا۔ترکی اور ایران ہمارے برادر اسلامی ملک ہیں ہم انہیں بھی ناراض نہیں کر سکتے ۔اس کے باوجود اگر پاکستان کو بہت بڑے آئی ایم ایف پیکیج پر عملدرآمد کرنا پڑا تو اس کے بھی انتہائی گھمبیر مضمرات ہو سکتے ہیں۔محض یہ کہنے سے کہ پچھلی حکومت معیشت کا بیڑہ غرق کر گئی ہے لہٰذا ہم عوام کے اوپر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے اور سبسڈیز کم کرنے پر مجبور ہیں سے کام نہیں چلے گا۔ آئی ایم ایف ٹیکس ریونیو میں اضافے کا مطالبہ کر رہا ہے،مزید برآں وہ چاہتا ہے کہ پالیسی ریٹ میں مزید اضافہ کیا جائے،روپے کی قدر گرائی جائے اور سبسڈیز کم کی جائیں جس سے بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ ہو جائے گا۔یہ دعویٰ کرنا تو آسان ہے کہ ہم غریب کو ہاتھ نہیں لگائیں گے لیکن ان تمام اقدامات سے نزلہ نچلے طبقے پر ہی گرے گا۔اپوزیشن پہلے سے چھریاں تیز کئے بیٹھی ہے۔مسلم لیگ ن کے رہنما تو اس بات پر بھی معترض ہیں کہ وزیراعظم آئی ایم ایف کی سربراہ سے کیوں ملے ہیں۔ان کے مطابق حکومت شرائط پہلے ہی پوری کر چکی ہے اور یہ ملاقات محض ایک ٹوپی ڈرامہ تھا۔اپوزیشن کا یہ الزام کسی حد تک درست ہے کہ یہ دعویٰ کرنے کیساتھ کہ ہم آئی ایم ایف میں نہیں جا رہے عملی طور پر اس کی شرائط پوری کی جا رہی ہیں،اسی بنا پر گیس اور بجلی کے ریٹس اور شرح سود میں اضافہ آئی ایم ایف کی خواہشات کی تکمیل کی طرف اشارہ کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ پاکستان کی اقتصادیات جس نچلی سطح پر پہنچ چکی ہیں اس کیلئے اکانومی میں سٹرکچرل اصلاحات کرنا انتہائی ضروری ہو گیا ہے۔معیشت کا بیڑہ غرق کرنے میں سابق حکومت اور اس کی پیش رو حکومتوں کا بھی ہاتھ ہے۔ایک نکتہ نظریہ بھی ہے کہ حکومت کو لیت و لعل سے کام لینے کے بجائے سابق حکومتوں کی طرح برسراقتدار آتے ہی آئی ایم ایف پروگرام میں چلے جانا چاہئے تھا۔اس وقت یہ دعویٰ کہ پچھلی حکومت معیشت تباہ کر گئی تھی کی کچھ زیادہ پذیرائی ہوتی۔ اب سیاسی طور پر آئی ایم ایف کے پروگرام کے محرکات سے حکومت کو خود نبٹنا پڑے گا۔اس نازک ترین مرحلے پر چاہئے تو یہ تھا کہ حکومت اور اپوزیشن حتی المقدور ایک صفحے پر ہوتیں لیکن یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے،محاذ آرائی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ جمہوری نظام بھی خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے،مہنگائی کی تازہ لہر بھی عوام کو سڑکوں پر لا سکتی ہے،اسی بنا پر نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے تمام سٹیک ہولڈرز کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی اور دفاعی بجٹ میں مزید اضافے کے خلاف ہے۔یقیناً حکومت کو ایک ایسی ریاست جو قلاش ہے اس ضمن میں بھی توازن پیدا کرنا ہو گا، وطن عزیز یقینی طور پر دفاعی تقاضوں سے غافل نہیں رہ سکتا اس کیلئے دفاعی قوت کو مضبوط تر بنانا لازم ہے لیکن دوسری طرف ریاست کا بنیادی فریضہ ہے کہ وہ عوام کی بہتری کیلئے پروگرامز میں مزید اضافہ کرے نہ کہ تخفیف۔