نہ کوئی شک ہے باقی نہ ستارا کوئی اے مرے یار مرے دل کو سہارا کوئی تم سے وابستہ کیا ہم نے امیدوں کا جہاں جز تمنا نہ رہا اور ہمارا کوئی پر جائیں تو جائیں کہاں کہ تمنا کا دوسرا قدم بھی تو نہیں ہوتا۔ اس وقت تو ورلڈ کپ کا ہنگام ہے مگر کیا کریں کہ ہماری امیدیں اور تمنائیں ماند ہی نہیں پڑیں۔ بلکہ ان پر مردنی سی چھا گئی ہے۔ کس کس کے لئے ہم نے جیتنے کی دعائیں نہیں کیں اور یہ کوئی ترک عشق کی بھی دعا نہیں تھی کہ حالی کی طرح کوئی کہتا کہ ’’دل چاہتا نہ ہو تو دعا میں اثر کہاں‘‘ ہم بھی عجیب لوگ ہیں کہ دشمن سے دوستی اور خیر کی توقع رکھتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ بھارت آخر ہمارے لئے برطانیہ سے کیوں جیتے! ہماری خواہش نے اس کی ہار کو بھی جیت بنا دیا۔ بھارتیوں نے زندگی میں پہلی بار اپنی ٹیم کی ہار پر جشن منایا۔ وہ بدبخت ہماری خواہش پر بنگلہ دیش سے بھی نہیں ہارا۔ باقی بات رہی نیوزی لینڈ کی۔ اسے کیا پڑی کہ وہ برطانیہ کو ہرانے کی کوشش کرے۔ آپ کو گورے کالے کی تمیز ابھی تک نہیں۔ بہرحال جھگڑا سارا کھیل کا تھا وہ نہیں رہا۔ اس وقت بنگلہ دیش سے ہونے والا ہمارا میچ بے معنی سا ہے۔ اور اس پر ہونے والی باتیں اس سے بھی زیادہ بے معنی ہیں کہ پاکستان چار صد سکور کرے اور بنگلہ دیش 50سکور کرے وغیرہ وغیرہ۔ یہ کام تو بنگلہ دیش ہمارے ساتھ مکمل تعاون کر کے بھی نہیں کر سکتا۔ بس اتنا بڑا ہے کہ خوش قسمتی سے ہم سنسنی خیزی کا حصہ رہے ہیں کہ کہیں ہمارا سکوپ نہ بن جائے۔ سب ہمارے بارے میں متفکر تھے۔ ہم نے اپنے سنہری لمحے کھو دیے اور وہ لمحے واپس نہیں آ سکتے۔ اتنا کافی ہے کہ ہم نے برطانیہ اور نیوزی لینڈ کو ایک مرتبہ ہرا دیا۔ ہمارے کھلاڑیوں کو ذرا سا تو سوچنا ہو گا کہ سری لنکا نے بھارت کے تین صد سولہ کے جواب میں تین صد کے قریب سکور کئے۔ ہمیں پتہ نہیں بھارت کے خلاف کیا ہو جاتا ہے۔ بس یہی ہمارا المیہ ہے۔ بارہ ورلڈ کپ تھوڑے نہیں ہوتے۔ بارہ برس بعد تو روڑی کی بھی سنی جاتی ہے۔ ورلڈ کپ تو 4سال بعد ہوتا ہے اب یہ تو ہوا کہ ہم سکون سے بیٹھ گئے ہیں’’بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم کوئی ہمیں اٹھائے کیوں‘‘ دوستوں سے گزارش ہے کہ اپنی ٹیم کا استقبال کریں کہ وہ اپنی اوقات سے زیادہ اچھا کھیل گئے۔ چلیں کرکٹ کوچھوڑیں آتے ہیں سیاست اور روز مرہ کی طرف کہ سیاست کیا گل کھلا رہی ہے اور ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ ابھی صبح بیٹھے تھے کہ عبدالغفور ایڈووکیٹ نے دلچسپ بات کی کہ ڈالر کے مہنگا ہونے کے پیچھے خان اعظم کی زبردست حکمت عملی ہے۔ ہم نے بیک آواز پوچھا کہ وہ کیا؟ کہنے لگے کہ منصوبہ یہ ہے کہ ڈالر کو اتنا مہنگا کر دیا جائے کہ درآمد تقریباً بند ہو جائے اس سے یہ ہو گا کہ یہاں کی اشیا فروخت اور استعمال ہونگی۔ میں نے کہابات تو آپ کی دل کو لگتی ہے ویسے اگر بعض اشیا کی برآمد یعنی ایکسپورٹ بھی بند کر دی جائے تو اس میں مثبت پہلو نکلیں گے۔ یہاں پر پیدا ہونے والی اچھی مصنوعات یہاں کے لوگ بھی استعمال کریں گے اور جو اچھا پھل باہر جاتا ہے عام لوگوں تک بھی پہنچ جائے گا۔ ویسے تو باہر سے اپنا رشتہ قائم رکھنے کی بھی کیا ضرورت ہے۔ خود اپنے وسائل کے اندر زندگی بسر کیوں نہیں ہو سکتی۔ ویسے ہنسی آتی ہے کہ جب نان چنے والا بھی کہتا ہے کہ جناب دیکھیں ڈالر کہاں چلا گیا ہے آپ بارہ روپے کے نان پر رو رہے ہیں۔ حکومت کو کچھ اور مشورے بھی دیے جا سکتے ہیں کہ جس سے ہمارا رہن سہن اور معاشرتی زندگی میں انقلاب آ سکتا ہے۔ انقلاب یہ کہ وہی سنہری دور واپس آ سکتا ہے جو عین فطری تھا۔ بجائے اس کے کہ ہم بجلی کے مہنگا ہونے پر شور مچائیں کہ تین سو یونٹ کے اوپر کے بل ڈبل ہوتے جا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ اگر آپ اپنے من کو سمجھا لیں اور صحن میں نیم اور دھریک کے درخت لگا لیں تو ان کی چھائوں سے اچھا ٹونک کوئی نہیں۔ استاد جی نے کہا تھا : بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھائوں گھنی ہوتی ہے ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے آپ صرف پہلے مصرع تک ہی رہیں۔ آپ پی ٹی آئی کی طرح اربوں پیڑ لگائیں اور ایک دو گھر کے آنگن میں بھی۔ وہاں چند مرغیاں اور بطخیں بھی رکھ لیں۔ ایک دو کٹے باندھنے میں بھی کیا حرج ہے۔ یہ ہے ایک قدرتی اور فطری فضا۔ علی الصبح بھینس کا دودھ دوہیں‘ پھر اس سے دہی اور لسی بھی ملے گی آپ بھی مصروف ہو جائیں گے چلیے اگر آپ کے گھر کا صحن نہیں تو چھت پر چھڑکائو کر کے رات کو سو جائیں۔ میرا دوست کہہ رہا تھا کہ وہ بجلی کے بل سے اتنا ڈرا ہوا ہے کہ ایک بچے کی ڈیوٹی لگا دی ہے کہ وہ گھر کی اضافی بتی چیک کرتا رہے اور غیر ضروری بتی بجھا دیا کرے۔میں نے کہا کہ دوسرے بچے کو پابند کریں کہ غیر ضروری بتی جلنے بھی نہ پائے ویسے تو اب بتیوں کا جلنا بجھنا حکومت ہی کے ہاتھ میں ہے: کبھی اس نے مجھ کو جلا دیا کبھی اس نے مجھ کو بجھا دیا میں چراغ تھا تو ہوا نے بھی مجھے اک تماشہ بنا دیا اس دور میں بکری سکیم سب سے اچھی جا سکتی ہے۔ میں ایک خاتون کو روزانہ بکریاں چراتے دیکھتا ہوں خالی پلاٹوں میں وہ چرتی ہیں۔ وہ خاتون اپنی بچی کے ساتھ آرام سے کسی سائے میں بیٹھی بکریوں کے سیر ہونے کا انتظار کرتی ہے۔ ان بکریوں کے چرانے پر کوئی حرج نہیں۔ قدرتی گھاس ان کو مرغوب ہے۔ علاوہ ازیں بکری کا دودھ بڑے سٹوروں پر چار سے پانچ صد روپے کلو ہے۔ اس سے بھی آگے کی بات بکریاں سال میں دو مرتبہ سوتی ہیں۔ گویا ان کی نسل بھی تیزی سے بڑھتی ہے۔ بھیڑوں کو چرانے سے حکومت کرنے کا شوق بھی پورا ہو جاتا ہے۔ اس خاتون کے ہاتھ میں صرف ایک چھڑی ہوتی ہے اور پچاس ساٹھ بھیڑیں آگے آگے چلتی جاتی ہیں۔ بعض نے تو زیادہ بھیڑوں کی صورت میں ایک آدھ کتا بھی رکھا ہوتا ہے اسے شیپ ڈاگSheep dogکہتے ہیں اگر آپ ایسی طرز زندگی کی طرف آ جاتے ہیں تو مہنگائی آپ کا کیا بگاڑ سکتی ہے۔ گھروں میں درخت لگائیں ان سے جلانے کے لئے لکڑی بھی مل جائے گی۔ یونس احقر نے خوب کہا تھا: تھوڑے نیں جیہڑے پالن والے ہوندے نیں بہتے رُکھ تے بالن والے ہوندے نیں اس سے یہ ہو گا کہ گیس کے مہنگا ہونے کی شکایت بھی ختم ہو جائے گی۔ آپ گھر میں مٹی کے گھڑے رکھیں آپ دیکھیں گے کہ گھڑوں کا پانی ٹھنڈا میٹھا بھی ہوتا ہے اور اس سے مٹی کی سوندی خوشبو بھی آتی ہے۔ دو مٹی کے پیالے بھی رکھیں۔ مٹی کی ہنڈیا میں سالن پکائیں مزہ نہ آئے تو پھر کہیے گا۔ کوشش کریں کہ بجلی‘ پٹرول گیس اور پانی پر آپ کا انحصار کم ہو جائے۔ آپ کم سے کم گھر سے نکلیں کہ باہر تو نری آلودگی ہے رش بھی بے تحاشہ ہوتا ہے۔ گھر میں سکون کریں اور پٹرول بچائیں۔ آپ کبھی سوچیں تو سہی جب لوگ ایسے رہتے تھے جیسا کہ ذکر کر ہو چکا وہ کتنے صحت مند ہوتے تھے اور بالکل بے فکری۔ ’’دوڑ ماضی کی طرف اے گردش ایام تو‘‘ایک شعر کے ساتھ اجازت: اے شب آگہی ستارے چن بام روشن ہیں ماہتاب کے ساتھ