یورپی یونین میں بھارت نے درخواست جمع کرائی ہے کہ باسمتی چاول اس کی جغرافیائی نشانی ہے لہٰذا باسمتی چاول کو اس کی پیداوار سمجھتے ہوئے صرف بھارت کو رجسٹر کیا جائے جبکہ پاکستان میں باسمتی چاول کی پیداوار کے کاروبار سے منسلک حلقوں نے بھارتی دعوے پر گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ علاقے کی زرعی تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو بھارتی دعویٰ بالکل بے بنیاد ہے۔بھارت آج سے نہیں بلکہ گزشتہ 20سال سے باسمتی چاول کو اپنی جغرافیائی پیداوار ثابت کرکے چاول کی پاکستانی برآمدات کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کر رہا ہے حالانکہ پاکستان میں باسمتی کی پیداوار کے شواہد 1766ء میں لکھے گئے صوفی شاعر وارث شاہ کے کلام میں موجود ہیں جبکہ انگریز دور میں بھی کالا شاہ کاکو میں باسمتی کی پیداوار کا تذکرہ موجود ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ پاکستانی باسمتی چاول کی یورپی منڈیوں میں بہت مانگ ہے اور پاکستان باسمتی چاول کی پیداوار کے حوالے سے یورپی یونین میں رجسٹر ہے تا ہم یورپی یونین کے قوانین کے مطابق 90روز کے اندر اگر پاکستان نے بھارتی دعوے کو چیلنج نہ کیا اور باسمتی کی پیداوار پر بھارتی لیبل لگ گیا تو پاکستان یورپی ملکوں کو باسمتی چاول برآمد نہ کر سکے گا۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ اس معاملہ کو سنجیدگی سے لے اور بھارتی دعوے کے خلاف اپنا مؤقف واضح کرے اورباسمتی کو پاکستان کی قدیم زرعی صنعت کے طور پر رجسٹرڈ کرائے تا کہ پاکستان سے یورپی ملکوں کو باسمتی کی سالانہ 5سے 7لاکھ ٹن برآمدات متاثر نہ ہوں۔