گزشتہ سے پیوستہ کالم میں متحدہ قومی موومنٹ کے ’’قائد ‘‘اوراُن کے جانثاروں کے اپنی قوم پر ڈھائے جانے والے مصائب و آلام کے ذکر کے بعد یہ بھی تو ضروری تھا کہ اُن اسباب و محرکات پر بھی گفتگو ہو جس کے سبب اسکولوں سے نکلے گلیوں ،سڑکوں میں گلی ڈنڈا کھیلتے چند سر پھرے نوجوان وطن عزیز کی تیسری اور صوبے کی دوسری بڑی قوت کیسے بن گئے؟ اگر اُن محرومیوں اور مسائل کو ختم نہیں کیا گیا۔جیسا کہ اس وقت وفاق اور سندھ کی حکومت کی پالیسیوں کے سبب ہو بھی رہا ہے۔تو کوئی بانی متحدہ جیسا دیو قامت قائدنہ بھی پیدا ہو۔تب بھی اُن کا دوسری یا تیسری پیڑھی کا کوئی بھی چیلا ’’بھائی‘‘کا جھنڈا اٹھا کر ماضی کی تاریخ زندہ کرسکتا ہے اور ہاں اس دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد کا یہ بیان بھی شہ سرخی بنا کہ ’’سندھ کرپٹ ترین صوبہ ہے جس کے بجٹ کا ترقیاتی کاموں کے لئے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوا۔معزز اعلیٰ عدالت کا اتنا بڑا اور سنگین الزام اور صبح شام کی آہ و زاریوں کے دوران اس مجرمانہ خاموشی کو کیا یہ سمجھا جائے کہ جسٹس گلزار احمد کا کہا سچ ہے۔اور پھر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے ترجمان کی اس بات کو بھی تسلیم کرلیا جائے کہ ہر سال شہرِ کراچی سے 4سو ارب کا ریونیو سمیٹنے کے بعد تین سال میں صرف کراچی کے ترقیاتی کاموں کے لئے 37ارب روپے ،میئر کراچی کے وائٹ پیپر کے بیانیہ سے لگتا ہے کہ اس میں شیخ مجیب الرحمان اور سردار اختر مینگل کے ’’چھ نکات‘‘کو پھیلا دیا گیا ہے۔ طویل وائٹ پیپر میں سے چند ہی نکات دے کر اس باب کو یہیں بند کربھی دوں مگروہ بھی تو حل کئے بغیر بند ہو نہیں سکتے کہ بد قسمتی سے سندھ کی حکمراں جماعت کراچی کو بھی ’’لاڑکانہ ‘‘بنانے پر تلی ہوئی ہے۔جی ہاں ،وہی کھنڈر کا ڈھیر لاڑکانہ جسے ستّر کی دہائی میںحکمراں جماعت پیرس بنانے کا دعویٰ کرتی تھی۔وائٹ پیپر میں انکشاف کیا گیا ہے کہ: اختیارات اور وسائل کی مرکز سے صوبوں کو منتقلی اور اس کے ساتھ ساتھ سیاسی، انتظامی اور مالی قوت و اختیار کی لوکل گورنمنٹ کے اختیارات کی صوبہ سندھ میں واپسی نے صوبوں کو ایک طرف بے قابو اور بد انتظام اور دوسری جانب لوکل حکومتوں کو مکمل بیکار اور بے اختیار کر دیا ہے۔ اس صورتحال میں 2015 ء میں ہونے والے الیکشن کے نتیجے میں قائم ہونے والا لوکل گورنمنٹ کا نظام محض ایک دکھاوا ثابت ہوا ہے اور اصل حاکمیت صوبائی حکومت کے پاس ہی ہے۔ کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن میں پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کی ایم کیو ایم کے لئے عدم برداشت اور قبولیت سے انکار کی حد کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن سے چھ ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز کی عملداری میں ڈال دئیے گئے تاکہ KMC کو مالی طور سے مزید کمزور کر دیا جائے۔ ان اقدامات کا لوکل گورنمنٹ کے میئر کے آفس کے الیکشن کے انعقاد کے بعد عمل میں لانا اس بات کا صریحاً غماز ہے اور ثابت کرتا ہے کہ اس سازش کا مقصد ملک کے سب سے بڑے شہر جو کہ اپنی حیثیت میں ایک منی پاکستان ہے کے میئر کو عملی طور پر ناکام کرنا ہے۔ آرٹیکل 140-A کے تحت صحیح معنوں میں اقدامات لئے جائیں، وگرنہ ایم کیو ایم مجبور ہوگی کہ اگر اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی نہیں کی جاتی تو یہ مطالبہ کرنا جائز ہو گا کہ چار کے بجائے 20 انتظامی یونٹ بنائے جائیں۔ طویل عرصہ سے گورنر سندھ ’’پبلک سروس کمیشن سندھ‘‘ کے چیئرمین اور ممبران کا تقرر کرنے کے علاوہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن بورڈ کے چیئرمین اور تمام جامعات کے چیئرمین اور وائس چانسلر کا انتخاب اور تقرر کرنے کا اختیار استعمال کرتے چلے آرہے تھے۔ لیکن یہ تمام اختیارات اب واپس لے لئے ہیں ۔ چالیس برس کے لئے دیہی اور شہری علاقوں کا کوٹہ 40.60 کے تناسب سے بالترتیب مقرر کر کے نہ صرف انتہائی زبردست نا انصافی کی گئی بلکہ برسوں کا آزمودہ میرٹ کا فارمولا مسمار کر دیا گیا۔2012 ء سے کوٹہ سسٹم کو توسیع نہیں ملی لہٰذا عملی طور پر کوٹہ سسٹم ختم ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود سندھ میں کوٹہ سسٹم غیر قانونی اور غیر آئینی طور پر جاری ہے۔ صوبہ کے تمام 29 اضلاع میں سے صرف 2 میں اردو بولنے والے ڈپٹی کمشنرز تعینات ہیں۔ تمام 29 اضلاع کے 150 تعلقوں میں صرف 5 اسسٹنٹ کمشنروں کا تعلق نامزدشہری شہروں سے ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2008 ء میں اپنے آغاز سے ہی غیر منصفانہ انداز حکومت اپناتے ہوئے شہری سندھ کے عوام کے ساتھ عدم مساوات، امتیاز اور تعصب کا رویہ اختیار کئے رکھا ہے۔ انہوں نے اس دور میں جو 250000 ملازمتیں دیں اور بھرتیاں کیں اس میں زیادہ تر دیہی سندھ کے لوگوں کو ترجیح دی گئی اور شہری سندھ کے امیدواروں کو نظر انداز کیا گیا۔ 40 فیصد قانونی حصہ (کوٹہ) جو شہری سندھ کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے امیدواروں کے لئے مختص تھا بے شرمی سے ہڑپ کر لیا گیا۔ایک انسپیکٹر جنرل آف پولیس اور 4 ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس، 13 ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس میں صرف ایک DIG سینٹرل آفس میں نامزد شہری شہر کی نمائندگی کرتا ہے۔ کراچی، حیدرآباد، میرپور خاص، سکھر اور لاڑکانہ کے پانچ شہری نامزد شہروں میں ایک بھی ڈی آئی جی کا تعلق ان علاقوں سے نہیں ہے۔ 6 ڈی آئی جی کی پوسٹوں میں سے جبکہ تین پر کوئی تعیناتی نہیں ہے باقی تین میں سے ایک کا تعلق کراچی سے ہے، جبکہ 14 ایس ایس پی میں سے 5 نامزد شہری علاقہ جات سے ہیں اور 7 ایس ایس پی میں 3 نامزد شہری علاقہ جات سے تعلق رکھتے ہیں ۔ وائٹ پیپر میں دئیے گئے درج بالا مندجات میں اگر جعلسازی کی گئی ہے تو سندھ حکومت کا یہ فرض بنتا تھا کہ 3 مہینے قبل شائع ہونے والے اس وائٹ پیپر کے جواب میں ایک پیپر شائع کرتی جس کا کہ دعویٰ سندھ حکومت کے ترجمان نے کیا بھی تھا۔ ایم کیو ایم ایک سوچ کی پیداوار تھی جس نے بانیِ متحدہ جیسا قائد پیدا کیا اور جس کی پالیسیوں کے سبب اس شہرِ ناپُرساں کو حقوق ملنے سے زیادہ محرومیوں اور خوں ریزی کا شکار ہونا پڑا ۔