یادوں کے ہجوم شاید اس لیے دل کے قریب ہوتے ہیں کہ اُن تک دوبارہ ہاتھ نہیں پہنچتا۔نارسائی کا یہ کرب کبھی سوہان روح بھی بن جاتا ہے۔ آکاس بیل کی طرح جذبوں کو ہر طرف سے گھیر لیتا ہے۔کچھ چہرے،اُن کی آوازیں،کچھ ہستیاں اور محفلیں یادوں میں اس طرح گھل جاتے ہیں کہ کوئی بھی شاید انہیں الگ نہیں کر سکتا۔خاک میں کیا کیا صورتیں کھو گئیں۔پچھتاوے دامن سے لپٹ سے جاتے ہیں کہ کچھ وقت اور ان کے ساتھ گزر جاتا تو کیا حرج تھا۔ایسا ہی ایک چہرہ ہے علی سفیان آفاقی صاحب کا۔ 2015ء کی بات ہے۔میرے پی ٹی وی میں پروگرام کا فارمیٹ ،ون پلس تھری تھا۔دِل چاہتا تھا کہ لالی وُڈ کے سنہرے دنوں اور اب اس کی ویرانیوں پر ایک پروگرام کیا جائے۔عظیم ہدایتکار اسلم ڈار بھی مان گئے اور دانش ور ڈائریکٹر حسن عسکری صاحب سے بھی بات ہو گئی۔مگر جب علی سفیان آفاقی صاحب سے رابطہ کیا گیا تو پروڈیوسر نے بتایا کہ انکار ہو گیا ہے۔نوائے وقت والوں کے فیملی میگزین کے ایڈیٹر تھے۔اپنے پروگرام پروڈیوسر سے کہا کہ ملاقات کی سبیل کریں۔وقت طے پا گیا۔ہم دونوں اُن کے دفتر جا پہنچے۔میں کئی سال سے ایک ماہانہ ڈائجسٹ میں ان کی فلمی الف لیلیٰ باقاعدگی سے پڑھ رہا تھا اور اس کے سحر میں باقاعدہ گرفتار تھا۔اُن سے سید نور کی فلم"گھونگٹ"کے پریمئر میں ایک ملاقات ہو چکی تھی مگر ادھوری سی اور سرسری بھی۔ہم انہیں فلم نگری کا انسائیکلوپیڈیا مانتے تھے کہ اُن کی یادداشتوں نے ہمیں ماضی کی دھندلی تصویروں کو دھند سے پاک کرکے دکھایا۔وہ سب جن کو دیکھا تھا،اُن کا گلیمر اس چکا چوند کا پسِ منظر بھی اور پیشِ منظر بھی۔ آفاقی صاحب اجنبیوں سے بالکل نہیں کُھلتے تھے۔ہم انہیں مسلسل ان کی فلمی الف لیلیٰ کے قصے اور حکایتیں پیش کر رہے تھے مگر وہ سمٹے ہوئے تھے اپنی ذات کے حصار میں۔مقام شکر کے ہمارے پروڈیوسر خاصے سوشل تھے اور آفاقی صاحب سے اُن کی پُرانی یاد اللہ تھی۔چنانچہ بات بن ہی گئی۔ملاقات کے آخری رائونڈ میں ان سے اپنے ٹی وی کے فلمی پروگرام میں شرکت کی درخواست کی۔کہنے لگے یہ موضوع خاصابسیط اوروسیع ہے،تھری پلس ون میں بات ادھوری رہے گی۔کسی دِن مناسب سمجھیں تو ون پلس ون کر لیں۔آپ کو پوچھنے کا لطف آئے گا اور ہمیں بتانے کا بھی۔بات درست تھی اس لیے زیادہ اصرار مناسب نہ سمجھا اور اجازت لے کر چلے آئے۔ان سے یہ اجازت بھی لے لی کہ ہم کبھی کبھار بغیر کسی واسطے کے بھی اُن سے مل سکتے ہیں۔پروگرام کا فارمیٹ اسلام آباد سے ہی تبدیل ہوتا تھا۔۔۔تاخیر پر تاخیرہوتی گئی۔جب فارمیٹ بدلا تو آفاقی صاحب اس دنیا سے اپنا ٹھکانا اگلی دنیا میں بنا چکے تھے۔مگر گاہے گاہے ان سے کچھ ادھوری،کچھ مکمل،کچھ باقاعدہ اورکچھ بے قاعدہ ملاقاتوں کے ایسے نقوش ہیں کہ مٹتے ہی نہیں۔رات کے پچھلے پہر یادوں کا ایک ہجوم ہوتا ہے اور آفاقی صاحب کی آواز بھی اُ ن میں شامل ہوتی ہے۔"میاں تمہارا فارمیٹ بدلتے بدلتے دیکھو کتنا وقت بدل گیا ۔کتنا وقت گزر گیا۔ہمارا نمبر لگ گیا اور ہمیں جانا پڑا"۔مجھے بار بار منیر نیازی کی آواز اوورلیپ ہوتے سنائی دیتی ہے"ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں"۔ آفاقی صاحب ایک حساس اور انسان دوست شخصیت کے مالک تھے۔اُن کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ"آئی سپیشلسٹ "نہ تھے۔ قاسمی صاحب نے کبھی ایک لطیفہ سنایا تھا کہ اُن سے ایک دوست نے امریکہ سے فون کر کے پوچھا کہ پاکستان میں سب سے اچھا"آئی سپیشلسٹ"کون ہے۔قاسمی صاحب نے بڑی صراحت سے ایک مشہور کالم نگار کا نام لے دیا۔ایسے لوگوں کے دربار میں بات اُن ہی سے شروع ہوتی ہے اور اُ ن پر ہی ختم۔آفاقی صاحب بڑی دلچسپی سے آپ کا سوال سنتے اور پھر چائے کا کپ اٹھا کر سِپ لیتے اور بڑی متانت سے مسکراتے ہوئے اپنا نقطہ نظر آپ کی نذرکر دیتے۔اُن کی چند شخصیات سے بڑی دوستی رہی تھی جو اب دنیا میں نہ تھیں۔اُن میں ایک باکمال اور سمارٹ فلم ڈائریکٹر حسن طارق بھی تھے۔اُن کے ساتھ مل کر آفاقی صاحب نے اپنی پہلی فلم "کنیز"بنائی تھی۔میڈم صبیحہ اس میں مرکزی کردار ادا کر رہی تھیں۔کس طرح حسن طارق صاحب نے آفاقی صاحب کی فلم کیلئے اپنا گلبرگ میں ایک کنال کا پلاٹ صرف دس ہزار میں بیچ دیا۔ آفاقی صاحب کہا کرتے تھے"حسن طارق کے تمام رومانس اور شادیاں میرے سامنے ہوئیں اور علیحدگیاں بھی۔ اُ ن کی کچھ باتیں جیسے یادوں کا حصہ بن کر رہ گئی ہیں۔جیسے"دِل سے بڑا قبرستان اور کہاں ہو گا۔ہم یہاں اپنی یادیں دفن کر دیتے ہیں اور ان پر کتبے لگا دیتے ہیں۔ان کتبوں سے یادوں کی پہچان رہتی ہے۔ان قبروں پر فاتحہ خوانی کیلئے کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔بس خیال آیا اور دعا کر لی ،بغیر ہاتھ اٹھائے فاتحہ پڑھ لی۔اپنے پیاروں کے چہرے دیکھنے کیلئے گردن بھی جھکانی نہیں پڑتی بس آنکھیں بند کرنا پڑتی ہیں۔کھلی آنکھوں سے،بھری محفلوں میں بیٹھے بیٹھے آپ ان قبروں پر فاتحہ پڑھ لیتے ہیں"۔بات حسن طارق صاحب کی ہو رہی تھی ۔حسن صاحب پروفیشنل پارٹنر تھے آفاقی صاحب کے اور شام گزارتے تھے ریاض شاہد اور خلیل قیصر کے ساتھ۔یہ دونوں ہی خوبصورت رائیٹر اور حیرت انگیز ہدایتکار تھے۔غالباً یہ تینوں ہی انور کمال پاشا کے شاگر درہ چکے تھے اس لیے طارق صاحب کی شام ان بے تکلف دوستوں کے ہمراہ بسر ہوتی اور باقی وقت آفاقی صاحب کے ساتھ۔آفاقی صاحب کبھی کبھی ایک مصرعہ زیرِ لب بولا کرتے تھے۔زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا،ہمی سو گئے داستاں کہتے کہتے۔اُن کے مطابق ایک واقعہ سن لیجئے۔زیڈ اے بخاری ایک وقت میں ریڈیو پاکستان کے بے تاج بادشاہ تھے۔ بُخاری صاحب کی بھنویں بہت گھنی تھیں۔ایک دن اُن سے شوکت تھانوی انتہائی ناراض ہو گئے اور کہنے لگے"آنکھوں کے اوپر مونچھیں لگاکر بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔نہ جانے خود کو کیا سمجھتے ہیں"۔آج آفاقی صاحب ہم میں نہیں مگر رات گئے یادوں کے ہجوم میں اُن کا چہرہ بار بار فلیش ہوتا ہے،کلوز اپ میں نظر کاچشمہ لگائے ہوئے۔۔۔مسکراتے ہوئے!!!