پنجاب حکومت اپنا پہلا بجٹ پیش کر چکی ہے اور یہ بات پورے اعتماد اور دعویٰ کیساتھ کہی جا سکتی ہے کہ پہلی بار دستیاب وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ترقیاتی منصوبے بنائے گئے اور عوام سے صوبہ کی ترقی اور بہبود کے ضمن میں وہ وعدے کیے گئے جن کو پورا کرنے کی حکومت اہلیت رکھتی ہے،عوام سے ہوائی،خلائی وعدے کیے گئے اور نہ ہی خیالی پلاؤ کی’’ریسپی‘‘شیئر کی گئی۔ پنجاب حکومت کی معاشی حکمت عملی پر بات کرنے سے قبل اس بات کا تذکرہ بھی ازحد ضروری ہے کہ پنجاب میں مسلسل 10سال حکومت کرنے والے والوں نے ایک مقروض پنجاب وراثت میں چھوڑا، حالانکہ 2007 ء میں چودھری پرویز الٰہی کی حکومت نے سر پلس پنجاب چھوڑا تھا اور 2007 ء میں پنجاب کی جی ڈی پی 7فیصد سے زائد تھی،ہسپتال اور تعلیمی ادارے حقیقی معنوں میں غریب آدمی کے مددگار تھے، ہر سال 50لاکھ ملازمتوں کے مواقع مہیا ہورہے تھے، صوبہ میں تعمیر و ترقی کا عمل اس مربوط طریقے سے جاری و ساری تھا کہ ہمیں ڈھونڈنے سے بھی کوئی ہنر مند بیروزگار نہیں ملتا تھا، وہ دور مینوفیکچرنگ اور انفراسٹرکچر کی ترقی کا مثالی دور تھا، سابق حکمران 2018ء میں جس حالت میں پنجاب کو چھوڑ کر گئے وہ ایک مقروض اور سود کی ادائیگی کے بوجھ میں دبا ہوا پنجاب تھا جس کی سالانہ شرح نمو 4فیصد سے کم تھی جو بلاواسطہ 800ارب اور بلواسطہ 2000ارب کا مقروض تھا، تباہ حال ادارے،غیرفعال انتظامیہ، بدعنوانی، کذب و افتراع، اربن رورل امتیازی ترقی، ون مین شو کا انتظامی کلچر، سیاسی پولیس، رشوت، سفارش،اقربا پروری یہ سب کچھ موجودہ حکومت کو ورثے میں ملا، پنجاب کے 80فیصد عوام پینے کے صاف پانی سے محروم تھے مگر قیمتی وسائل، اورنج ٹرین، میٹرو بسوں، آشیانہ ہاؤسنگ سکیم، میٹ کمپنی، پانی کمپنی جیسے فراڈ منصوبوں میں جھونکے گئے، اورنج ٹرین پر اڑھائی سو ارب سے زائد پیسہ خرچ ہو چکا، اس سے آدھے پیسوں میں پنجاب میں 37ہزار کلو میٹر سے زائد فارم ٹو مارکیٹ سڑکیں تعمیر کی جا سکتی تھیں چونکہ میگا ترقیاتی منصوبوں کا مقصد عوام کو ریلیف دینا نہیں تھا بلکہ اس سے بھاری کمیشن اور فوائد حاصل کرنا تھا، اس لیے یہ تمام منصوبے صوبے کو قرضوں اور سود کے بوجھ تلے دفن کرنے کا سبب بنے اور ان منصوبوں کے خالق آج نیب کے پاس زیر تفتیش ہیں اور ان سے ان کی آمدن سے زائد اثاثوں کے بارے میں سوال ہورہا ہے اور آئیں، بائیں، شائیں کررہے ہیں۔ پنجاب حکومت کا پہلا بجٹ پنجاب کو ترقی کی پٹڑی پر چڑھانے کا ذریعہ بنے گا کیونکہ عوام سے سچ بولا جارہا ہے، اعلانات اور بیانات کے ذریعے عوام کو خوش فہمی میں مبتلا نہ کرنے کی انتظامی حکمت عملی بروئے کار لائی جارہی ہے اور ہم پرعزم بھی ہیں اورپر یقین بھی ہیں کہ پنجاب اور پاکستان جلد بحرانوں سے نجات حاصل کرے گا اورعوام سکھ کا سانس لیں گے کیونکہ عمران خان نے ایماندار اور محنتی ٹیم منتخب کی ہے، شفاف گورننس کی بنیاد ڈالی ہے، چیک اینڈ بیلنس کے ایک مربوط نظام کو متعارف کروایا ہے اور جواب دہ جمہوری حکومت کی اقدار قائم کی ہیں اور الحمداللہ 10 ماہ میں کرپشن کاایک بھی حکومتی سکینڈل سامنے نہیں آیا، وزراء اور مشیران نے محض الزام پر مستعفی ہونے کی قابل تقلید جمہوری روایات کی بنیاد رکھی،صوبہ کی تاریخ میں پہلی بار اقرباپروری، سفارش سے پاک گندم خریداری مہم کو یقینی بنایا گیا اور پہلی بار باردانہ چٹوں پر تقسیم نہیں ہوا اور 100فیصد عام کاشتکار کو گندم خریداری مہم میں شامل کیا گیا، لوڈشیڈنگ سے پاک رمضان المبارک موجودہ حکومت کا ایک بڑا تحفہ ہے،گزشتہ ایک عشرہ میں کوئی ایک رمضان المبارک ایسا نہیں گزرا جس میں روزہ داروں کی چیخیں آسمان تک نہ پہنچی ہوں، اشیائے خورونوش پر سبسڈی کا 100فیصد استعمال تبدیلی نہیں تو اور کیا ہے، اربوں روپے مالیت کی سرکاری زمینوں پر قبضے واگزار کروائے گئے، لوٹ مارکا ذریعہ ’’کمپنیاں‘‘بند کی گئیں، عوام دوست بلدیاتی نظام کے لیے قانون سازی ایک بڑا تحفہ اور حقیقی جمہوری اداروں کے قیام کی طرف انقلابی پیشرفت ہے، پراسیکیوشن کے نظام کو فعال بنا کرفوری انصاف کی فراہمی کی منزل حاصل کی جائے گی، اب کوئی غریب آدمی پیسے نہ ہونے کی وجہ سے حصول انصاف کی جدوجہد سے محروم نہیں ہو گا،سٹیٹ مظلوم کے ساتھ کھڑی ہے، سادگی کے کلچر کو حقیقی معنوں میں اختیار کیا گیا، ایوان وزیراعلیٰ، گورنر ہاؤس، سیکرٹریٹ کے اخراجات میں کمی لائی گئی ہے، قربانی کے عمل میں حکمران طبقہ نے اپنے آپ کو بطور مثال پیش کیا، 10 ماہ میں پورے پنجاب میں کوئی ایک ایسی مثال پیش نہیں کی جا سکتی کہ حکمران جماعت کے کسی کارکن یا عہدیدار نے کسی تھانے پر حملہ کیا ہو یا کسی سرکاری دفتر کا گھیراؤ کیا ہو، ماضی میں حکمران جماعت کے عہدیدار تھانوں، سرکاری اداروں اور سرکاری زمینوں کو والدین کی وراثت سمجھ کر ان پر حملہ آور ہوتے تھے، ایسی درجنوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ ج وزیراعظم شیشے کے گھر میں نہیں بیٹھے، وہ تاجر برادری، عوام،بیوروکریسی سب کے براہ راست رابطے میں ہیں، ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے گریٹ ڈیبیٹ کا براہ راست حصہ ہیں، انشاء اللہ تعالیٰ ذمہ دار اور محب وطن میڈیا اور اداروں سے مل کر جلد پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے میں کامیاب ہوں گے۔ جہاں تک اپوزیشن کی ملٹی پارٹیز کانفرنسز کا تعلق ہے تو یہ بات فہم سے ماورا ہے کہ پاکستان کو 30ہزار ارب روپے کا مقروض کرنے والے اداروں کو مفلوج اور غیر فعال کرنے والے،پاکستان کو عالمی تنہائی سے دور چار کرنے والے، قومی وسائل ذاتی تجوریوں میں بھرنے والے کس ایجنڈے کیساتھ قوم کو احتجاج کی طرف مائل کرنا چاہتے ہیں؟