ہفتے کے روز روٹین ہیئر کٹنگ کیلئے سیلون گیا تو وہاں پہلے سے موجود ایک بزرگ شخص ہئیر ڈریسر سے کہہ رہا تھا کہ واپڈا والے سے میرا بل کم ہوجائے یا اقساط میں کروادو۔ہئیر ڈریسر میری طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ پہلے بھی بابا جی کی اقساط کروائی تھیں مگر پھر تین ماہ کا بل ادا نہیں کر سکا۔ ابھی CP-14میں ہے نہ ادا کیا تو میٹر کٹ جائے گا۔ میں نے اسے کہا کہ بل دکھائو ،میرا خیال تھا کہ ایس ڈی او یا ایکسئین کو کہہ دیتا ہوں کہ اس کی آسان اقساط کردے۔جب بل دیکھا تو چند ہزارروپے تھا۔ میں نے وہیں موبائل ایپلیکشن سے بل ادا کیا اور بابا جی سے کہا ’’بابا جی تسی جائو تواڈا بل ادا ہوگیا‘‘بابا خوشی سے آبدیدہ دعائیں دیتا رخصت ہو گیا۔اس ساری صورت حال نے کافی رنجیدہ کیا۔میں نے وہیں بیٹھے ہوئے واقعہ کا احوال شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف کوواٹس ایپ کیا اور تجویز دی کہ ایسے سفید پوش اور غریب الحال افراد کے بارے سوچیں جن کا بجلی کا ٹوٹل استعمال گھر کے دوپنکھے اور چند انرجی سیور ہے۔ ان کوفوری اور لازمی ریلیف دیںتا کہ وہ زندگی کا پہیہ چلاسکیں۔بجلی بحران کے خاتمے کیلئے بھی دن رات ایک کرنا ہوگا۔کیونکہ بجلی آنے جانے سے عوام شدید ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ہی "Thanks for sharing" کا رپلائی موصول ہوا۔ الحمدللہ میری اس تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے صوبے بھر میں 100 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کیلئے بجلی مفت کرنے کا اعلان کیاکہ ان کا بوجھ پنجاب حکومت اٹھائے گی ، ایسے صارفین کی یکم جولائی سے استعمال کی گئی بجلی جس کا بل اگست میں آئے گا ، وہ بجلی کے بل سے بے فکر ہو جائیںبلکہ منصوبے کے تحت سولر پینل بھی دے رہے ہیں تا کہ آنے والے سالوں میں ان کی بجلی مفت ہو۔ یقیناً اس فیصلے سے پنجاب کی نصف آبادی کے غریب خاندانوں کو فوری ریلیف ملے گا۔انتہائی شرم اور افسوس کا مقام ہے کہ اپوزیشن کے رہنما کبھی اس فیصلے کے خلاف کورٹ میں جانے کا اعلان کرتے ہیں تو کہیں پر جھوٹا پراپیگنڈہ پھیلاتے نظر آرہے کہ یہ محض سیاسی اعلان ہے ۔بجلی تو وفاقی ادارہ ہے ۔ اپنے ساتھ عوام کو بھی بیوقوف بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔سادہ سی بات ہے پنجاب گورنمنٹ 100سے کم یونٹ استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کا بل خود ادا کردے گی۔وزیر اعظم شہباز شریف سے گزارش ہے کہ اس ریلیف کو پاکستان کے تمام صوبوں کیلئے کریں۔بجلی اور تیل پر ہر قسم کی سبسڈی ختم ہونی چاہئے تاکہ اشرافیہ گورنمنٹ کے خرچے پر اے سی کی ٹھنڈی ہوا اور گاڑیوں کے فراٹے نہ بھریں ، سبسڈی صرف مستحق افراد کو ہی حاصل ہو۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم شہباز شریف نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور توانائی کے بحران پر قابو پانے سے متعلق اہم اجلاس کی صدارت کی۔ وزیراعظم نے ملک بھر میں بند پاور پلانٹس فوری طور پر بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے لوڈشیڈنگ کی وجوہات کے بارے میں رپورٹ طلب کی تو یہ بات علم میں آئی کہ 3 ہزار 535 میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت کے 9 بڑے پاور پلانٹس ایندھن کی قلت کی وجہ سے کام نہیں کر رہے، ان میں سے چار پلانٹس ایسے شامل ہیں جو ایل این جی کی کمی کی وجہ سے بند پڑے ہیں، دو فرنس آئل کی قلت کی وجہ سے، ایک کم کوئلے کی انوینٹری کے سبب اور ایک گیس سپلائی کے معاہدے کی میعاد ختم ہونے کی وجہ سے بند ہے۔پی ٹی آئی حکومت نے گیس خریدنے کا موقع جان بوجھ کر گنوایا،پن بجلی کے منصوبوں میں تاخیر کی۔ بجلی کے پلانٹس کی مرمت کا کام نہیں کیا۔بجلی کی لوڈشیڈنگ اور توانائی کے بحران کی اصل وجہ سابق حکومت کے 2018 سے لے کر 2022ء تک کے اقدامات اور فیصلے ہیں۔58 سو میگا واٹ کے بجلی کے منصوبے سابقہ حکومت کی طرف سے بروقت ایندھن کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑے تھے اور اب پوری قوم لوڈشیڈنگ کا عذاب بھگت رہی ہے۔پی ٹی آئی حکومت نے ان پراجیکٹ کی اونر شپ اور مانیٹرنگ کے ایشو پر کوتاہی کا مظاہرہ کیا، ساہیوال کول پراجیکٹ اور حب پاور جیسے مکمل منصوبوں کیلئے ریوالونگ اکاؤنٹ کھولنے میں پی ٹی آئی حکومت کی ناکامی سے مسائل بڑھے۔ ریوالونگ کریڈٹ میں اضافے کی وجہ سے نجی پاور کمپنیوں کو بروقت ادائیگیاں کرنے میں ناکام رہی جس سے کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس پر دباؤ بڑھ گیا۔سابق حکومت کو سی پیک انرجی فریم ورک کی اہمیت کا پتہ نہیں تھا ۔ کیرٹ ہائیڈرو کی پیداواری صلاحیت 720میگاواٹ ہے۔ جبکہ تھرکول بلاک1 اور مائین کی پیداواری صلاحیت 1214 میگاواٹ، اسی طرح ایک اور بہت ہی اہم منصوبہ پنجاب تھرمل RLNG پاور پلانٹ کا ہے اس کی پیداواری صلاحیت 1263میگاواٹ ہے اور عمران خان حکومت نے اس منصوبے کو 3سال سے زائد عرصے تک التوا کا شکار رکھا۔اگر یہ تین منصوبے بروقت مکمل ہو جاتے تو 32سو میگاواٹ بجلی پیدا ہونی تھی جس کی وجہ سے پورے پاکستان کے شہری علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو جانا تھا۔سابق حکومت نے مہنگی LNG خریدی حالانکہ کورونا وباء کے دوران یعنی 2020 کے وسط تک عالمی مارکیٹ میں RLNG کی قیمتیں خاصی گر گئی تھیں۔ اس وقت RLNG کی قیمت تین ڈالر فی MMBTU تھی مگر یہ موقع ضائع کر دیا، اگر اس موقع پر خریداری کا طویل مدتی معاہدہ کر لیا جاتا تو پاکستانی صارفین کو سستی بجلی مہیا کی جا سکتی تھی۔ یوں دیکھا جائے تو موجودہ حکومت کو توانائی کا بحران ورثے میں ملا ہے۔ اگر سابق حکومت توانائی کے منصوبوں پر پوری توجہ دیتی اور توانائی کے مختلف منصوبوں کو مالیاتی سپورٹ فراہم کرتی رہتی تو آج ملک میں توانائی کا بحران پیدا نہ ہوتا اور نہ ہی گردشی قرضے کا بوجھ اس حد تک بڑھتا۔ سابق حکومت کا سارا زور سیاسی مخالفین پر مقدمات بنانے اور بیان بازی پر لگا۔ موجودہ حکومت توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے سنجیدہ کوششیں کر رہی ہے، 720 میگاواٹ کے کروٹ پن بجلی منصوبے نے کام شروع کر دیا ہے، یہ سی پیک کے تحت مکمل ہونے والا پن بجلی کا پہلا منصوبہ ہے۔تمام سرکاری عمارتوں کو درجہ بدرجہ شمسی توانائی پر منتقل کیا جا رہا ہے ، حکومت چھوٹے صارفین کو سولرانرجی پر منتقل کرنے کے لیے سبسڈی کے منصوبے پر بھی غور کررہی ہے۔ اس سے بجلی کی کھپت میں کمی ہوگی، لوڈ شیڈنگ کی کوفت سے جان چھوٹے گی اور ایندھن کی مد میں قیمتی زرمبادلہ بھی محفوظ ہوگا۔ قطر پیٹرولیم / قطر انرجی کے ساتھ ایل این جی کی فراہمی کے معاہدے کے تحت، پی ایس او 5+2 ایل این جی کارگو درآمد کرنے میں کامیاب رہا۔موجودہ حکومت نے LNG اسپاٹ پرچیزنگ کر کے پاور سیکٹر کو RLNG کی سپلائی میں اضافہ کیا۔