بجلی ساڑھے 5روپے یونٹ مہنگی کرنے کے اختیار اور140ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کے آرڈیننس جاری کر دیے گئے ہیں ۔ حکومت کو1.40روپے فی یونٹ تک اضا فی سر چارج لگانے اور بجلی مزید مہنگی کرنے کا اختیار مل گیا ہے۔ جس سے بجلی کے صارفین پر 700ارب کا اضافی بوجھ پڑے گا۔حکومت جس تیزی اور غیر مدبرانہ طریقے سے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل پیرا ہے اس کے نتیجہ میں مہنگائی اور مزید مہنگا ئی کا ایسا طوفان جنم لے گا ،جسے روکنا آنے والی کسی بھی حکو مت کے بس میں نہیں ہو گا۔ کیا گردشی قرضوں کے مسئلے کا واحد حل یہی ہے کہ بجلی مہنگی کر کے اس کا سارا بوجھ صارفین پر ڈال دیا جائے۔ یہ جانتے بوجھتے بھی کہ بجلی مہنگی کرنے کا مطلب تمام چیزوں کی مہنگائی ہے‘ حکومت ایک ایسا اختیار حاصل کر رہی ہے جو مہنگائی کے مارے عوام کو مزید مسائل ومشکلات سے دوچار کر دے گا۔ اگر تدبر سے کام لیا جاتا تو کئی ایسے شعبے ہیں جن میں معاشی خسارے کو کم سے کم کرنے کی راہیں تلاش کی جا سکتی ہیں لیکن حکومتی بزر جمہروں کو صرف بجلی ہی نظر آ تی ہے جس کی قیمتیں بڑھا کر ہر بار عوام کی جیبوں کو خالی کرنے کا سامان کر لیا جاتا ہے۔ کیا آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے ہاتھ کاٹ کر اس کے حوالے کر دیے جائیں اورخود کو اس کے سامنے گروی رکھ کر سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا جائے۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ حکومت سرمایہ کاری کو فروغ دے ،برآمدات میں اضافہ کرے،نئی صنعتیں لگائے اور اپنے وسائل سے ریو نیو بڑھانے پر توجہ دے تاکہ روزگار کے ساتھ ساتھ پیداوار میں بھی اضافہ ہو اور عوام کو مہنگائی کے بوجھ سے نجات دلائی جا سکے۔