نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی(نیپرا) نے بجلی کے نرخوں میں 1روپیہ 95پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری دیدی ہے۔ نیپرا کے مطابق فی یونٹ قیمت میں اضافے کا اطلاق 50یونٹ استعمال کرنے والے غریب ترین شہریوں اور کے الیکٹرک کے صارفین پر بھی ہو گا۔ نئے اضافے کے بعد اوسط ٹیرف 14.38روپے سے بڑھ کر 16.33روپے فی یونٹ ہو گیا ہے۔ تازہ اضافے کے باعث صارفین پر 200ارب روپے کا مزید بوجھ پڑنے کا امکان ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی کئی وجوہات بیان کی جاتی رہی ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے دور اقتدار میں سرکاری منصوبے شہریوں کی طلب کے مطابق بجلی پیدا کرنے سے قاصر رہے۔ پہلا مسئلہ بجلی کی پیداوار میں اضافہ تھا۔ حکومت نے پرائیویٹ پاور پروڈیوسرز کو بجلی کے کارخانے لگانے کی اجازت دی ۔معاملے کو سیاسی مقبولیت بڑھانے کے لئے استعمال کرنے کی نیت موجود تھی اس لئے پن بجلی منصوبوں کی جگہ تیل سے بجلی پیدا کرنے والے کارخانے لگانے کی اجازت دی گئی جو کم مدت میں پیداوار دینا شروع کر دیتے ہیں۔ ان آئی پی پیز کے ساتھ ڈالر میں ادائیگی اور پھر پیداوار کی بجائے پوری صلاحیت کے مطابق حکومت سے رقوم لینے کی شرط نے ملک کو ایک گھن چکر میں پھنسا دیا۔ ایک روپے فی یونٹ میں ملنے والی بجلی تین روپے کے لگ بھگ ہو گئی۔ اس دوران لائن لاسز میں اضافہ ہونے لگا‘ قبائلی علاقے‘ کراچی‘ کچہریوں میں اور طاقتور افراد نے جی بھر کر بجلی چوری کی۔ لائن لاسز اور بجلی چوری کے باعث جو نقصان ہوا وہ ان صارفین کی گردن پر لاد دیا گیا جو باقاعدگی کے ساتھ بجلی بل ادا کر رہے تھے۔ سابق حکومتوں نے ان نقصانات سے ملک کو محفوظ رکھنے کے لئے کوئی قابل قدر حکمت عملی اختیار نہ کی بس بری شرائط پر بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر توجہ کی جو کرپشن کے الزامات کے سبب متنازع ہوتے گئے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں یہ خرابیاں موجود رہیں۔ پیپلز پارٹی نے 2008ء میں اقتدار سنبھالا تو رینٹل پاور اور نندی پور جیسے سکینڈل سامنے آئے‘ مسلم لیگ نون نے نندی پور پاور منصوبے میں خرابیوں کا حجم مزید بڑھایا۔ بہاولپور میں قائد اعظم سولر پراجیکٹ لگایا گیا جہاں سے معمولی مقدار میں بجلی حاصل کی جا رہی ہے۔ عمران خان کو عوام نے اصلاحات کا مینڈیٹ دیا ہے۔ سابق حکومتوں نے جو گل کھلائے ان کی وجہ سے ان کو ووٹر نے مسترد کر دیا۔ غیر ملکی قرضوں کی واپسی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ یہ بھی بجا کہ گردشی قرضہ اور آئی ایم ایف کی شرائط نے وسائل کو عام آدمی تک پہنچنے سے روک رکھا ہے۔ پن بجلی کے نئے منصوبوں کی تعداد بڑھانے کی کوشش ہو رہی ہے لیکن بجلی چوری اور لائن لاسز کے متعلق اقدامات تاحال گفتگو سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ گزشتہ ڈھائی ماہ میں بجلی کے نرخوں میں متعدد بار اضافہ ہو چکا ہے۔28دسمبر کو وزارت توانائی نے بجلی کے نرخوں میں فی یونٹ 18پیسے کا اضافہ کیا۔ جس سے فی یونٹ قیمت 13روپے 53پیسے ہو گئی۔ جو صارفین 300یونٹ تک استعمال کرتے ہیں ان کے لئے یہ اضافہ 15پیسے فی یونٹ رکھا گیا۔ اس فیصلے کے بمشکل 15دن بعد حکومت نے آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی کی شرط بتا کر بجلی کے نرخوں میں ایک روپیہ 90پیسے فی یونٹ اضافہ کر دیا۔ حکومت کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے منع کرنے کے باوجود صارفین کو 473ارب روپے کی سبسڈی دی گئی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہر پندرہ دن کے بعد بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا یہ سلسلہ رک نہیں پایا اور 12فروری کو ایک بار پھر ایک روپیہ 90پیسے کا اضافہ کر دیا گیا۔ نیپرا حکام کا کہنا ہے کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت 16.65روپے تک لانے کی ضرورت ہے۔اس کا مطلب ہے گویا ابھی مزید اضافے کا امکان موجود ہے۔ نیپرا کے بقول حکومت کو اس اضافے سے مجموعی طور پر 280ارب روپے حاصل ہوں گے۔ بجلی کے نرخوں میں اضافے کی ایک وجہ حکومت کے پاس توانائی کے شعبے میں مہارت رکھنے والے ماہرین کی کمی ہے۔ پیپلز پارٹی‘ نون لیگ نے اصلاحات کے لئے کچھ نہیں کیا۔ ان کا زور توانائی کے منصوبوں کے لئے نئی سرمایہ کاری لانے پر رہا۔ ریکارڈ بتاتا ہے کہ اس سرمایہ کاری میں مالیاتی گھپلے ہوتے رہے ہیں۔ معاملات بلاشبہ بہت خراب ہیں‘ قومی خزانے میں ٹیکس کی مدمیں رقوم کا حجم بڑھا ہے لیکن اب بھی یہ تسلی بخش نہیں۔ کسی ادارے اور وزارت توانائی نے سستی بجلی کے تیز رفتار منصوبوں پر تسلی بخش کام نہیں کیا۔ ونڈ انرجی ون ٹائم انوسٹمنٹ ہے ان منصوبوں کو پہاڑی اور ساحلی علاقوں میں لگایا جا سکتا ہے۔ بجلی کی قیمتیں بڑھنے سے فوری طور پر جو نقصان ہوتا ہے وہ مہنگائی میں اضافہ ہے۔ ہر چیز کی پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے۔ مستزاد یہ کہ گزشتہ چند ہفتوں میں متعدد بار پٹرول کے نرخ بھی بڑھ چکے ہیں۔ ان حالات میں حکومت جانتی ہے کہ صنعتکاروں کو سستی بجلی فراہم کرنے کے باعث برآمدی آرڈرز بڑھے ہیں۔ فیصل آباد میں ٹیکسٹائل کا شعبہ 30سال بعد زیادہ سے زیادہ گنجائش کے ساتھ کام کرنے لگا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ سے صرف کارخانہ مالکان متاثر نہیں ہوں گے۔ گھریلو صنعتیں اور گھریلو صارفین کا پہلے سے بگڑا ہوا بجٹ مزید مسائل کا شکار ہو سکتا ہے۔ حکومت جانے کیوں یہ فراموش کر رہی ہے کہ بجلی کے نرخ بڑھانے سے ریونیو میں جتنا اضافہ ہوتا ہے‘نرخ کم کرنے سے ریونیو اس کی نسبت زیادہ جمع ہو سکتا ہے۔