سیلاب کے عذاب کے بعد بجلی کے بل ڈیتھ وارنٹ کے طور پر غریبوں کے پاس آرہے ہیں۔ ون سلیب کے خاتمے نے غریب عوام کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔ ماہانہ سو یونٹ پر فی یونٹ نرخ 7.74 سے بڑھ کر 13.48 اور دو سو یونٹ پر نرخ 10.06 سے بڑھ کر 18.58 پیسے ہو گیا ہے۔ 300 یونٹ کے استعمال پر فی یونٹ ریٹ 21.47 اور ماہانہ 400 یونٹ کے استعمال پر فی یونٹ 24.63 روپے کا ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ ٹیکسز کی بھرمار ہے۔ سمجھ نہیں آرہی کہ حکومت کیا کر رہی ہے؟ مسلم لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ بجلی بل غریبوں پر عذاب بن کر گر رہے ہیں۔ صورتحال اس قدر خراب ہے کہ غریبوں کی تنخواہ سے بھی زیادہ بل آرہے ہیں۔ ہر بندہ بجلی کے بل اٹھا کر دہائیاں دے رہا ہے۔ ظلم تو یہ ہے کہ صرف پچاس، ساٹھ یونٹ استعما ل کرنے والوں کے بل بھی چار پانچ ہزار سے کم نہیں ہیں۔ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں صارفین پر بہت بڑی قیامت ڈھا دی گئی ہے۔ بجلی استعمال کرنے والا ہر شخص دھاڑے مار کر رو رہا ہے۔ صارفین کیلئے بل کا ٹیرف بڑھانے اور اس پر ایف پی اے سرچارج کی مد میں اضافہ بہت بڑا ظلم ہے۔ پنجاب میں سو یونٹ تک بجلی فری کا ڈرامہ رچایا گیا وہ صرف ضمنی الیکشن کا جھانسہ تھا۔ بجلی بل کے حوالے سے ایک بات عرض کروں کہ بزرگ سرائیکی شاعر حاجی بشیر ملتانی جو بیمار رہتے ہیں اور جن کے دو بیٹے تھے اور دونوں ہی دو سال کے عرصے میں بیماری سے فوت ہو چکے ہیں۔ بیوہ بیٹی اور اس کے تین بچے اور میاں بیوی اور کرائے کا مکان۔ میرے پاس بل لے کر آئے اور کہا کہ میں اس کا کیا کروں؟ گھر میں ایک پنکھا، دو بلب اور ایک استری کے علاوہ کچھ نہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اکادمی ادبیات سے 13ہزار روپے کا وظیفہ ملتا ہے جو کئی ماہ سے نہیں آیا۔ حاجی بشیر ملتانی نے کہا کہ خدا کیلئے مجھے چولستان میں کوئی جھونپڑی لے کر دیں جس میں بجلی کا میٹر نہ ہو۔ آخر خواجہ فرید نے بھی سترہ سال روہی میں گزار دیئے تھے۔ زندگی کے چند سال میں بھی گزار لوں گا۔ مسائل اور مظالم کی ایک داستان ہے۔ ہمارے دفتر کا بل 49 ہزار آیا ہے۔ حالانکہ دس بارہ ہزار سے بل کبھی زیادہ نہیں آیا تھا۔ ہمارے دفتر میں اے سی تو کیا ایئر کولر بھی نہیں ہے۔ پنکھا، بلب اور دو کمپیوٹر ہیں۔ ایک بات یہ بھی عرض کروں کہ ہمارا تعلق وسیب کے شاعروں، ادیبوں سے ہے۔ کچھ اہل قلم یکے بعد دیگرے آتے رہے بل اُن کے ہاتھوں میں ہوتے۔ اُن کے آنے کا مقصد یہ بھی تھاکہ میڈیا اور اخبارات میں غریبوں کی آواز بلند کریں کہ بجلی بلوں کی صورت میں غریبوں پر بہت ظلم ہو رہا ہے۔ ان میں سے کچھ نے یہ بھی کہا کہ خدا کیلئے کسی کو کہہ کر ہمارا یہ بل ادا کرا دیں۔ ایسی صورتحال دیکھ کر ایک حساس آدمیپرکیا گزرتی ہے، وہ بیان سے باہر ہے۔ گزشتہ روز سرائیکستان ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے ملتان میں بجلی بلوں میں ٹیکسوں کے بے تحاشہ اضافہ کیخلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ پارٹی کے چیئرمین رانا محمد فراز نون نے کہا کہ دو سال قبل ہمارا 35-40 ہزار کا بل آتا تھا۔ میں نے بچت کا سوچا دس لاکھ روپیہ خرچ کرکے سولر لگوایا مگر بجلی کے بل کم نہ ہوئے۔ اب تو یہ ظلم ہوا ہے کہ میرا ڈیڑھ لاکھ کا بل آگیا ہے اور کوئی بل ٹھیک کرنے کو تیار ہے اور نہ کوئی بات سننے کو۔ مظاہرے کے دوران سخت نعرے بازی کے علاوہ بجلی کے بل پھاڑ کر سڑک پر پھینکے گئے۔ مظاہرے میں ایک دکاندار آیا ہوا تھا جس نے بتایا کہ تین چار سال سے کاروبار نہیں ہے۔ دکان روز بروز پیچھے جا رہی ہے۔ بچوں کے بڑا ہونے کا مقصد یہ ہے کہ مسئلے بڑے ہو رہے ہیں۔ جب سے کاروبار کا مندا ہوا ہے۔ آمدنی کم ہو گئی ہے اور اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ عمران خان کو ووٹ بھی دیئے تھے اور اس کو دوش بھی دیتے تھے۔ دل چل گیا تھا کہ یہ کیسی تبدیلی ہے کہ ریلیف کے بجائے تکلیف ملی ہے؟ عمران خان کے دور میں بجلی اور تیل اور ضروریات زندگی میں اضافے سے ہمارے خواب چکنا چور ہو چکے تھے۔ سوچا تھا کہ آئندہ ووٹ (ن) لیگ کو دیں گے کہ ہمارے بزرگ شروع سے (ن) لیگ کے ساتھ تھے مگر عمران حکومت گئی اور شہباز شریف برسراقتدار آئے تو صورتحال عمران خان کے دور سے بھی بد تر ہو گئی۔ مہنگائی دگنی ہوئی اور بجلی کے بل تین سے چار گنا زیادہ آرہے ہیں۔ کئی ماہ سے سلسلہ ادھار پر چل رہا ہے۔ پچھلے ماہ کا بل موٹر سائیکل بیچ کر دیا۔ اس ماہ بل ادا کرنے کیلئے میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ اب بتائیں کہ جائوں تو جائوں کہاں؟ ملک میں سیاسی تماشہ لگا ہوا ہے۔ ایک طرف سیلاب نے بربادی کر دی ہے تو دوسری طرف سیاستدان ضمنی الیکشنوں کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔ غریب عوام کی کسی کو پرواہ نہیں۔ وسیب کی تباہی کا منظر جوں کا توں ہے۔ کھڑے پانی کی بیماریوں نے صورتحال کو اور بھی گھمبیر کر دی ہے۔ سندھ ڈوبا ہوا ہے۔ آصف زرداری کی اپنی سیاست ہے۔ سندھ حکومت بچانے کیساتھ مرکز میں بھی حصہ لے لیا ہے۔ تیل، بجلی اور مہنگائی کا تمام ملبہ (ن) لیگ کے سر پر آرہا ہے۔ آصف زرداری کو جوڑ توڑ کی سیاست کا بے تاج بادشاہ کہا جاتا ہے۔ یہ سب آصف زرداری کی سیاست کے کرشمے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جوڑ توڑ کی سیاست میں شاید آصف زرداری کو کوئی شکست نہ دے سکے۔ البتہ سندھ کا سیلاب اس کی ساری سیاست کو لے ڈوبے گا۔ سندھ میں بلا شرکت غیر پی پی مسلسل برسراقتدار ہے مگر اس دوران پورا سندھ مونجودوڑو بن چکا ہے۔ ترقی کا کوئی نام و نشان نہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ سندھ کا سیلاب آصف زرداری کی سیاست کو لے ڈوبے گا مگر شرط یہ ہے کہ تکلیف کی اس گھڑی میں سندھ کے غریب عوام کو ریلیف دینے والا کوئی لیڈر وہاں پہنچے۔