پرنس چارلس اور اسکی بیوی بغیر کوئی تاثر دیئے دیوانِ عام میں سنگِ مرمر کی اس خوبصورت دیوار سے آگے نکل گئے، جس پر ان کے ہم وطنوں کی بدتہذیبی کے نقش آج بھی کنندہ نظر آتے ہیں۔ گوروں نے وہاں اپنے نام کے ساتھ شہر اور فوجی یونٹ کا نام بھی لکھ رکھا ہے۔ کوئی محقق اگر تحقیق کرنا چاہے تو وہ برطانیہ میں ان گھرانوں تک آسانی سے پہنچ سکتا ہے، جن کے آباؤ اجداد نے اس عالمی ورثے کی خوبصورت اور مرصع دیوار کا حلیہ بگاڑا تھا۔ میری ایک مختصر سی ملازمت اقوامِ متحدہ کے منشیات کے روک تھام والے ادارے میں بھی رہی ہے۔ میں اور میراساتھی محقق ایک جرمن نژدا ہنس سپیل مین (Hans Speilman)پاکستان کے طول و عرض میں قریہ قریہ ہیروئین کے عادی افراد کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے۔ یہ 1980ء تھا اور ابھی دنیا میں ہیروئین متعارف ہی ہوئی تھی اور اس کے متاثرہ افراد صرف بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے سرحدی علاقوں میں پائے جاتے تھے۔ کئی ماہ کے تحقیقی سفر کے دوران ہمارا سامنا ایک برطانوی خاتون سے بار بار ہوا۔ اسے انگلینڈ کی حکومت نے بھاری معاوضہ دے کر پاکستان میں موجود گوروں کی قبروں پر تحقیق کرنے بھیجا تھا۔ جس عرق ریزی اور جانفشانی سے وہ دالبندین اور نوکنڈی کے ریگستانی علاقوں اور ناگ کے پہاڑوں میں واقع گوران کھنڈ میں موجود گوروں کی قبروں کے متعلق معلومات اکٹھا کرتی تھی وہ دیدنی تھا۔ ایسی چھوٹی جگہوں پر رات گزارنے کیلئے عموما ًایک ہی ریسٹ ہاوس یا ڈاک بنگلہ میسر ہوتا ہے،اس لیئے اکثر ہم تینوں رات کے کھانے پر اکٹھا ہوجاتے۔ گیس لیمپ یا لالٹین کی روشنی میں بحث چل نکلتی۔ ظاہر بات ہے ہر گورے کی قبر کے پیچھے ایک کہانی تھی، مقامی لوگوں کو قتل کرنے، لالچ سے خریدنے اور علاقے فتح کرنے کی کہانی۔ لیکن اسقدر پڑھی لکھی ’’گوری خاتون‘‘ جس نے آکسفورڈ سے آثارِ قدیمہ پر پی ایچ ڈی کر رکھی تھی، اس کے تعصب کا عالم یہ تھا کہ اس کے نزدیک یہ سب برطانوی قطعاً ظالم نہیں تھے، بلکہ یونین جیک کی سربلندی کے لیئے مارے گئے تھے اور انہی کی قربانیوں سے برطانوی پرچم کینیڈا سے لے کر آسٹریلیا تک ایسا لہرایا تھا کہ اس سلطنت پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ ایسے میں، بار بار یہ جی چاہا کہ کاش حکومتِ پاکستان گورا قبرستانوںپر تحقیق کرنے والی گوری کی طرح کسی پاکستانی کو ان تاریخی عمارات کی بدحالی، تباہی اور بدصورتی میں گورے کے حصے پر تحقیق کرنے کیلئے سرمایہ فراہم کرتی۔ حیرت کی بات یہ کہ پاکستان کی کسی یونیورسٹی میں بھی اس موضوع پر کبھی سنجیدہ تحقیق نہیں کی گئی۔ ہمارے تاریخ دان شاید یہ جانتے بھی نہ ہوں کہ گورا یہاںاپنی نفرت کے کیسے نقوش چھوڑ کر گیاہے۔ برصغیر پاک و ہند کو سماجی، تعلیمی، اقتصادی اور ہنرمندی کے حوالے سے کسی اور حکمران نے نہیں بلکہ صرف اور صرف گورے نے برباد کیا ہے ۔ مسلمان حملہ آوروں نے تو یہاں ترقی کی تاریخ رقم کی ہے۔ یوں تو تاریخ خود اس بات پرگواہ ہے ،لیکن ایک معتبر گواہی یہاں پیش خدمت ہے اور یہ گواہی برصغیر کے بہت بڑے ہیرو بھگت سنگھ کی ہے، جسے بغاورت کے جرم میں پھانسی دی گئی تھی۔ بھگت سنگھ کے مقدمے کی پوری فائل لاہور کے آرکائیوز میں موجود ہے۔ اس کا طویل بیان اور عدالت کی جرح پڑھنے کے قابل ہے۔ اس کا یہ بیان دنیا بھر میں ہندوستانی تاریخ کے حوالے سے نصاب کا درجہ رکھنے والی ’’بی ایل گروور‘‘ (B.L Grover) کی کتاب ’’A New look at modren Indian history‘‘میں بھی مل جائے گا ۔ عدالت میں بھگت سے سوال کیا گیا کہ ’’آٹھ سو سال تک مغلوں نے آپ پر حکومت کی، لیکن اسوقت تو آپ نے بم نہیں پھینکااور ہمیں یہاں صرف ڈیڑھ سو سال ہوئے ہیں اور آپ نے سنٹرل لجسلیٹو اسمبلی میں بم پھینک دیا‘‘۔ بھگت سنگھ نے جواب دیا، ’’ دیکھیں مغلوں نے جو ہم پر راج کیا ہے وہ ہمارے دلوں پر راج کیا ہے اور انہوں نے ہمارے ملک کو سونے کی چڑیا بنا دیا اور اسی سونے کی چڑیاکی چمک کے تعاقب میں آپ سات سمندر پار سے یہاں آئے ہیں اور یہاں آنے کے بعد اگر آپ کی حکومت کو ایک لفظ میں بیان کرنا مقصود ہو تو وہ یہ ہے کہ آپ کی حکومت ایک ’’اسفنج‘‘ کی طرح ہے ،جو گنگا کے کنارے ہیرے جواہرات اکٹھا کرکے لندن میں ٹیمز کے کنارے پر نچوڑتی ہے اور انگلینڈ مالا مال ہو جاتا ہے اور اس دولت سے آپ اپنی ترقی کرتے ہیں۔ مغلوں اور پٹھانوں نے ایسا نہیں کیا، وہ یہاں سے کچھ بھی لوٹ کر نہیں لے کر گئے، یہیں کی دولت یہیں خرچ کی، یہیں عمارات بنوائیں اور یہیں کی دھول مٹی میں خود کو مٹا دیا‘‘۔ یہ صرف ایک بھگت سنگھ کا بیان نہیںہے، برصغیر کا جو بھی آزاد اور غیر متعصب مؤرخ ہے ،اس نے مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے ایسے ہی لکھا ہے۔ ’’گورے‘‘ نے جہاں اپنے دورِ اقتدار میں برصغیر کی معاشرتی روح سے ہر اس نقش کو مٹانے کی بھرپور کوشش کی، وہیں اس نے مسلمانوں کی پرشکوہ عمارات کو بھی باقاعدہ منصوبہ بندی سے تباہ کرنے، بدصورت بنانے بلکہ صفحۂ ہستی سے مٹانے کی بھرپور کوشش کی۔ لاہور کے شاہی قلعے کی اصل دیوار وہ منقش دیوار ہے جو انگریز کی بنائی ہوئی اینٹوں والی دیوار کے پیچھے ہے۔اس دیوار پر دنیا کا سب سے بڑا ٹائل ’’موزیک‘‘ (Tile Mosaic)کا کام ہوا ہے۔ یہ دیوار پچاس فٹ بلند اور پندرہ سو فٹ طویل ہے۔ دیوار کی ٹائلوں پر ایسے نقش و نگار بنے ہوئے ہیں کہ اس پر مسلسل پینٹنگ کا گمان ہوتا ہے۔گورے نے جان بوجھ کر اس دیوارکے ساتھ ساتھ تیل رکھنے کا ایک گودام بنایا، جسکی وجہ سے دیوار کا زمین سے پندرہ فیصد تک کا حصہ مکمل تباہ ہوگیا۔ شیش محل اپنی خوبصورتی میں کمال رکھتا ہے۔ اس کی چھتوں اور دیواروں پر شیشے کا کام اپنی جگہ خوبصورت ہے، لیکن اسکے سنگِ مرمر کے ستونوں اور دیواروں پر نقش و نگاری کی معراج یعنی ’’Pietra Dura‘‘کا کام ہوا ہے۔ یہ دراصل سنگِ مرمر میں قیمتی پتھروں کے جڑاؤ کا ایسا کام ہوتا ہے کہ یوں لگتا ہے یہ سنگِ مرمر ایک مرصع تصویرہے۔ شیش محل کے ساتھ نولکھا میں ایک انچ مربع میں قیمتی پتھروں سے پھول اس مہارت سے بنائے گئے ہیں کہ صرف ایک انچ مربع میں بنے ہوئے پھول کی بیس پتیاں ہیں۔ ’’گورے‘‘ نے شیش محل کو چھاؤنی بنایا تو گورے سپاہیوں نے جہاں تک ہاتھ جاتا تھا وہ قیمتی پتھر نکالے اور لے گئے۔ جہانگیر، نورجہاں اور آصف جاہ ، تینوں کے مقبرے ایک خوبصورت انگوری باغ میں تھے۔ اس باغ کی خوبصورتی کو تباہ کرنے کیلئے اس کے بیچ سے ریلوے لائن نکالی گئی۔ اس کا دہرا مقصد تھا۔ یہ چالاک منصوبہ اس وقت مجھ پر کھلا جب میں نے آگرہ میں ڈائریکٹر محکمہ آثار قدیمہ کے دفتر میں تاج محل کی ایک تصویر دیکھی جس کے پاس سے ریلوے لائن گذر رہی تھی۔ میں نے پوچھا تصویر میں ایسا کیوں۔ جواب ملا ہم نے ریلوے لائن ہٹا دی ہے، کیونکہ گورے نے اسے اس لیئے بچھایا تھا تاکہ تیزرفتار گاڑیوں کے بھونچال سے ایک دن تاج محل گر جائے گا۔ آگرہ کے قلعہ میں گیا تو وہاں سے دیوانِ خاص غائب، پتہ چلا اسے ٹکڑے ٹکڑے کرکے برطانیہ منتقل کردیا گیا تھا۔ محکمۂ آثار قدیم، آگرہ کے دفتر کی فائلوں میں وہ ٹینڈر آج بھی موجود ہے جس کے مطابق تاج محل کولندن منتقل کرنے کا ٹھیکہ ہوگیا تھا ،لیکن عین وقت پر ہندو لالہ بھاگ گیا، کیونکہ اس ٹھیکے میں اسے نقصان ہورہا تھا۔ بادشاہی مسجد کا سب سے خوبصورت منظر مغرب کی سمت سے ہے۔ جب یہ مسجد گورے کے قبضے میں آئی تو ایک کھنڈر تھی لیکن پھر بھی اس کی ظاہری خوبصورتی کو چھپانے کیلئے مغرب کی جانب لیڈی ولنگٹن ہسپتال کی دو منزلہ عمارت تعمیر کر وائی۔ ایک طویل فہرست ہے جو جگہ جگہ گورے کے تعصب کا پتہ دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی کسی عالمی فورم پر گورا ہمیں یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ اپنے ورثے کا تحفظ کیسے کیا جاتا ہے ،تو صرف ایک فقرہ منہ سے نکلتا ہے کہ اگر ہم تھوڑے سے غیرت مند ہوتے اور گورے کے ڈیڑھ سوسالہ تعصب ، غلاظت اور بدتہذیبی کو عبرت کے ایک شوکیس میں جمع کرلیتے تو شاید ہم میں احساسِ غیرت ایسا جاگ اٹھتا کہ ہماری آئندہ نسلیں مرعوب پیدا نہ ہوتیں۔(ختم شد)