تین عشرے قبل جب عظیم مقاصدکے حصول کے لئے جہادکشمیرکا آغازہواتوقابض بھارت کی طرف سے ملت اسلامیہ کشمیرپرقہرناک مظالم کاسلسلہ شروع ہوالیکن عظیم جدوجہدکے طفیل اسلامیان مقبوضہ کشمیرکوکچھ اہم بندشوں اورقدغنوں سے نجات مل گئی جن میں سے ایک یہ کہ آج بلاروک ٹوک وہ گائے ذبح کرتے ہیںجبکہ کئی مقامات پرانہوں نے ان شرین چشموں کے پانیوں پرکلی طورکنٹرول پالیاہے جومندروں کے زیر تسلط اپنی شفافیت کھوچکے تھے۔ 1990ء سے قبل مقبوضہ کشمیرمیں کیفیت یہ تھی کہ چوری چھپے گائے کوذبح کیاجاتاتھاکہ کسی کشمیری ہندو’’کشمیری پنڈتوں ‘‘کوکانوں کان خبرنہ لگ سکے۔ہمارے گائوں میں چارہزارنفوس پرمشتمل آبادی ہے جن میں محض سونفوس پرمشتمل کشمیری ہندویعنی کشمیری پنڈت تھے لیکن بعض معاملات میں گویااس مختصرسی ہندوآبادی نے ہمارے گائوں کے سواداعظم مسلمانوں کویرغمال بنارکھاتھا۔ کھلے عام ہم گائے ذبح نہیں کرسکتے تھے اورگائوں کے سب سے بڑے میٹھے پانی کے چشمے کوہم پینے کے لئے استعمال نہیں کرسکتے تھے۔ہمیںجب گائے کوذبح کرناہوتاتھاتو بڑے پاپڑ بیلناپڑتے تھے ہمارے گھرمیں پلی بڑھی ہماری گائے جس کاگوشت ہمارے دین نے ہمارے لئے حلال طیب قراردے رکھاہے کے باوجودجب اسے ذبح کرنے کاوقت آن پڑتاتھاتواپنے ہی گھرکے گائو خانے یاگھرکے صحن کوچادروں سے ڈھانپ کے یاپھرایسے میدان میں جہاں گائوں کے ’’ہندئووں‘‘ کاگزرنہ ہوتا ،گائے ذبح ہوتی تھی وگرنہ محال۔کئی مرتبہ ایساہواکہ ہم گائے ذبح کررہے ہوتے تھے توگائوں کے ہندوئوں کوپتاچلتاتووہ اس پرہماری کلاس لیتے تھے ۔ اسی طرح ساٹھ کی دہائی میںہمارے گائوں میں ہماری بستی کے شرین چشمے پر بھارت سے آئے ہوئے ایک پڑے لکھے شخص جس کے پاس مذاہب کی معلومات تھیں ہندوسادھونے پڑائو ڈالااور اس چشمے پرقبضہ جماکراس پرایک مندرتعمیرکیاگائوںکی تمام آبادی چونکہ ان پڑھ تھی اس لئے وہ ہندوسادھوکے گائوں کے میٹھے پانی کے چشمے پرپڑائوڈالنے اورمندربنائے جانے کے عواقب ونتائج سے مکمل طورپربے بہرتھی ۔وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ بھارت سے وارداس ہندوسادھونے بھارت سے ہی چندایک سادھوئوں کواپنے پاس بلایا جو ہندو سادھو پہلے واردہواتھاوہ طبعی موت مرگیالیکن اس کی بلائی ہوئی سادھوئوں کی ٹیم نے نہ صرف مندرکی دیکھ بھال کواپنے ہاتھوں میں لیابلکہ انہوں نے ہمارے گائوں کی چراگاہ جو مندرکے آس پاس تھی میں سے سینکڑوں کنال اراضی کوکرمندرکے حدوداربعہ میں شامل کرلیا اس کے ساتھ ساتھ یہاں سالانہ دوبارہندوتہوارہولی اورجنم اشٹمی منانے کے لئے بھارت کے کونے کونے سے ہندوآنے لگے جبکہ کشمیری ہندوبھی ان تہواروں میں شامل ہوتے رہے۔اس پرمستزادیہ کہ پوری سول ضلعی انتظامیہ ان ہندوسادھو ئوںکااس طرح ہاتھ بٹاتی رہی کہ ہماری بستی کے لئے جیناحرام کردیاگیانیز ہمارے چشمے کواس قدر مستعمل کرڈالاکہ اس کاپانی ہمارے پینے کے لائق نہ رہ سکا۔اگرچہ میرے عم زادجواس وقت ام القریٰ یونیورسٹی سعودیہ میں زیرتعلیم تھے نے بے خوف ہوکر ہندوسادھوئوں کے عزائم غلیظہ کے خلاف آوازاٹھائی لیکن چونکہ وہ سال میں صرف دوماہ کی چھٹی گزارنے کے لئے گھرآتے تھے اس لئے یہ کام جتناوقت مانگتاتھاان کے پاس اتنانہیں ہوتاتھاتاہم ان کی جدوجہدکاایک بڑافائدہ یہ ضرورملاکہ ضلعی انتظامیہ کومداخلت کرناپڑی اور ہندوسادھوئوں اوران کے مندرکااحاطہ مختص ہوا،اورطے ہواکہ وہ اس سے آگے بڑھنے کی کوئی کوشش نہیں کریں گے یوں ہندوسادھوئوں کی حدودمحدودہوکررہ گئی ۔ 1990ء میں جونہی جہادکشمیرشروع ہواتووادی کشمیرکی آبادی میں سے ساری 2فیصد ہندو آبادی ’’کشمیری پنڈت ‘‘ بھارتی گورنر جگموہن کے اکسانے پر راتوں رات وادی کشمیر چھوڑ گئے توان کے ترک سکونت کے باعث پوری وادی کشمیر میں گائے ذبیحہ پر عائد تمام قدغنیں خود بخودختم ہوگئیں جگہ جگہ مویشی منڈیاں لگ گئیں اوریوںوادی کشمیرکی ہرگلی، ہرنکڑ اور ہر بازار میں گائے کاگوشت بلاکسی روک ٹوک کے بکنے لگا۔ یوں حلال طیب گوشت سے اہل کشمیرلطف اندوز ہوتے رہے۔ اسی کے ساتھ ہمارے گائوں میں واردہوئے بھارتی سادھوبھی رات کے اندھیرے میں دم دباکر بھاگ گئے اوراس طرح بھارت سیآیاہوایہ دھندا تقریباََ30سال کے بعدبندہوا۔تین عشروں سے مستعمل چلے آرہے چشمے کاپانی پھرسے شفاف ہوکرہماری بستی کے مکینوں کوسیراب کرتارہا۔سینکڑوں کنال ہمارے مویشیوں کی چراگاہ پھرکھل گئی ۔لیکن بدقسمتی سے مقبوضہ ریاست کے جموں بیلٹ میں مسلمان ہندئووں کے رحم وکرم پراب بھی جی رہے ہیں ۔وہ آج تک گائے کوسرعام ذبح کرکے کھانہیں سکتے اگریہ ثابت ہواکہ جموں ریجن کی کسی مسلم بستی میں گائے کوذبح کیاگیاتوبس اس بستی کی خیرنہیں۔اس کی تازہ ترین مثال16مئی جمعرات کی علی الصبح جموی علاقے خطہ چناب کے ضلع ڈوڈہ کی تحصیل بھدرواہ کی ہے جہاں چندمسلمان اپنی مویشیوں کوچراگاہ چھوڑنے جارہے تھے کہ علاقے میں موجود ہندوغنڈوں کو شک ہواکہ یہ لوگ مویشیوں کو چرانے کے لئے نہیں بلکہ ذبح کرنے اورپھران کا گوشت فروخت کرنے کے لئے لے جارہے ہیں توعلاقے میں موجودگائے رکھشوئوں’’گائے کی حفاظت پرمامورہندونوجوان فورس‘‘نے اس مقام کوگھیرے میں لیااوران میں سے ایک درندے نے گولی چلائی جومویشی چراگاہ لے جانے والوں میں سے پچاس سالہ نعیم احمد شاہ کو لگی اوراس کی موقع پر ہی موت واقع ہوئی جبکہ اس کے ساتھی جان بچا کر بھاگ نکلے ۔ بستی کے مسلمانوں نے اس ظلم عظیم پرآواز اٹھائی۔ وہ قاتلوں کو گرفتار کرنے کی مانگ کر رہے تھے۔لیکن مقامی انتظامیہ نے مسلمان بستی کی آوازکو دبانے کے لئے علاقے میںکرفیو نافذ کردیا ۔اس واقعہ کے خلاف بھدرواہ کی انجمن اسلامیہ کے صدرشیخ پرویز احمد کاکہناتھاکہ گائے ذبح کرنے کے شک پر بی جے پی ، آر ایس ایس اور شو سینا نے ایک بزرگ مسلمان کاسفاکانہ قتل کر دیاجوعلاقے میں بھگوا بریگیڈ کے خطے سے متعلق عزائم کوطشت از بام کردیتاہے ۔ بھدرواہ کے تازہ ترین واقعے سے اس امرپرمہرتصدیق ثبت ہورہی ہے کہ سابق بی جے پی حکومت نے گائے کوقانونی طورپرانسانی درجے پرپہنچایادیاہے کہ گائے کے ذبح ہونے کے شک پرانسان قتل کردیاجائے گا ۔ 2014 ء میںجب بھارت میں مودی حکومت قائم ہوئی تو اس نے اعلان کیاتھا کہ گائے ذبیحہ روکیں گے۔مودی حکومت قائم ہونے کے بعدبڑے پیمانے پر گائے کے تحفظ کا معاملہ سامنے آیا ہے اورگائے کے ذبیحہ کوگائے کی بے حرمتی کا جرم قراردے کر کئی مسلمانوں کوہندئووں کے مشتعل ہجوموں نے قتل کیا ہے۔بھارت کی ایسی ریاستیں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، وہاں گائورکھشا کمیشن قائم کیے گئے ہیں جو گائے کے تحفظ کے لیے کام کرتے ہیں۔