خان صاحب ہمارے عزیز دوستوں میں سے ہیں۔ آپ اُن کی داستانِ غم سنیں گے تو کلیجہ مُنہ کو آئے گا۔ دُنیا میں یوں تو بڑے بڑے بدقسمت لوگ پیدا ہوئے ہیں لیکن خان صاحب جیسا بدقسمت انسان آپ کو خوش قسمتی ہی سے ملے گا۔ اُن کی پہلی اور بنیادی بدقسمتی تو یہ ہے کہ اِس برِّ صغیر میں پیدا ہوگئے جہاں جہالت ہے، بھوک ہے، بیماری ہے اور جہاں کے رہنے والے ہر لحاظ سے جانوروں سے بھی بدتر ہیں اور پھر ایسے گھر میں پیدا ہوئے جہاں دولت کی ریل پیل تک نہ تھی۔ اُن کے والد جنہیں وہ باپ " سالا " کہہ کر یادکیا کرتے ہیں، معمولی حیثیت کے آدمی تھے جِن کی کُل کائنات دو کوٹھیاں اور چند ایک دُکانیں تھیں۔ جن کی دیکھ بھال اور کرایہ کی وُصولی میں خان صاحب کو اَن گنت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے بقول اُن کے " باپ سالا میرے لیے پریشانی کا سامان چھوڑ گیا۔" آپ ہی انصاف سے فرمائیے کہ خانصاحب اگر بر لایا ٹاٹا جیسے کسی خاندان میں پیدا ہو جاتے تو کیا قیامت ٹوٹ پڑتی۔ لیکن جب انسان ازلی بدقسمت ہو تو کیا کیا جا سکتا ہے۔ مقدّر اچھے ہوتے تو پاکستان میں کاہے کو پیدا ہوتے۔ آخر انگلینڈ ، فرانس ، امریکہ وغیرہ بھی تو اِسی روئے زمین پر واقع ہیں۔ بچّے وہاں بھی پیدا ہوتے ہیں لیکن وہ کم بخت خوش نصیب ہوتے ہیں۔ خان صاحب کی طرح بدقسمت نہیں۔ خان صاحب بی۔اے کرنے کے بعد سی۔ایس۔پی (موجودہ ڈی ۔ ایم ۔ جی ) افسر بننا چاہتے تھے ۔ چنانچہ انہوں نے مقابلے کا امتحان دیالیکن اِس ملک میں بدقستمی سے ہر کام رشوت سے ہوتا ہے اور یا پھر سفارش سے ۔ چنانچہ خان صاحب کو تحریری امتحان میں فیل کر دیا گیا۔ خان صاحب نے ہمت نہ ہاری اور اگلے سال پھر امتحان دے ڈالا۔ اِس بار پرچے اتنے اعلیٰ حل کئے کہ ممتحن انہیں باوجود کوشش کے فیل نہ کر سکے۔ لیکن بدقسمتی نے انٹرویو کے وقت آلیا۔ انٹرویو لینے والے اُن کی شخصیت اور علم سے متاثر ہونے کے بجائے ، حسد میں مبتلا ہو گئے اور بر بنائے کینہ و حسد انہیں فیل کر دیا اور اُن کے مقابلے میں نا لائق لیکن سفارشی امیدواروں کو پاس قرار دے دیا۔ اِس کھُلی دھاندلی پر خان صاحب اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ معلمّی کا پیشہ اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ بی۔ایڈ کی ڈگری لے کر ایک ہائی سکول میں ٹیچر لگ گئے ۔ لیکن بد قسمتی نے یہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا ۔ تنخواہ کم تھی۔ چالیس چالیس منٹ کے پانچ پیریڈ روزانہ پڑھانا کیا کسی انسان کے بس کی بات ہے؟ دوسرے اساتذہ تو گپّیں ہانک کر وقت گزار لیتے تھے لیکن خان صاحب بدقسمتی سے اپنا فرض پہچانتے تھے۔ نیز اُس سکول کے لڑکے بقول خان صاحب بہت " حرامی" تھے ۔بالخصوص خان صاحب کی کلاسز میں ہیڈ ماسٹر نے ، جو اُن کے علم و فضل سے جلتا تھا ، چُن چُن کر شرارتی اور نا لائق لڑکے جمع کر دیئے تھے تاکہ خان صاحب تنگ آکر خود ہی سکول چھوڑ جائیں ۔ چالیس میں سے اڑتیس منٹ تو انہیں خاموش کروانے میں لگ جاتے جونہی لڑکے خاموش ہوتے پیریڈ ختم ہونے کی گھنٹی بج جاتی۔ سکول کی انتظامیہ سے یہ تک نہ ہوا کہ انہیں فارغ اوقات میں بیٹھنے کے لیے الگ کمرہ ہی دے دیتی۔ جِس میں ایک آدھ قالین اور دو چار صوفے ہوتے۔ انہیں مجبوراً ایک اصطبل نُما سٹاف رُوم میں دوسرے ٹیچروں کے ساتھ بیٹھنا پڑتا جو خان صاحب کی باتوں سے مستفید ہونے کے بجائے اُلٹا ان پر ہنستے اور اپنی جہالت پر شرمندہ بھی نہ ہوتے ۔ آخر ایک روز ہیڈ ماسٹر کی سازش کامیاب ہو گئی اور اس کے اُکسانے پر لڑکوں نے خان صاحب کی کلاسوں کا بائیکاٹ کر دیا۔ خان صاحب نے طیش میں آکر استعفیٰ دے دیا لیکن آتے وقت ہیڈ ماسٹر کو وہ بے نقط سنائیں کہ اُس کی طبیعت صاف ہوگئی۔ اب خان صاحب نے ایم ۔ اے کی تیاری کر کے امتحان دے ڈالا۔ بد قسمتی سے یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن تو حاصل نہ کر سکے تاہم پاس ہوگئے اور چند ماہ بعد ایک مقامی کالج میں لیکچرار لگ گئے۔ لیکن مقدّر کی سیاہی پھر بھی کم نہ ہوئی۔ تنخواہ اگرچہ پہلے سے زیادہ تھی اُٹھنے بیٹھنے کو الگ کمرہ بھی مل گیا لیکن چپڑاسی ایک بھی نہ ملا۔ فون بھی نہ تھا۔ حکومت سے یہ تک نہ ہوا کہ جی۔ او۔ آر میں آٹھ دس کنال کی کوٹھی ہی رہائش کے لیے دے دیتی۔ خان صاحب کی اپنی کوٹھیاں کرائے پر اٹھی ہوئی تھیں۔ کالج آنے جانے کا مسئلہ بھی کافی سنگین تھا۔ کالج کی اپنی کوئی بس نہیں تھی۔ اے ۔جی ۔ آفس والے کار خریدنے کے لئے پیشگی رقم نہیں دیتے تھے۔ مجبوراً خان صاحب کو اپنے ذاتی سکوٹر پر کالج آنا پڑتا۔ لیکچر شپ میں ایک خرابی یہ تھی کہ اُوپر کی آمدنی کے مواقع نہ ہونے کے برابر تھے ۔ لے دے کر کبھی کبھار ایف ۔ اے ، بی ۔ اے کے پرچے مل جاتے جن کی مارکنگ کا معاوضہ برائے نام تھا۔ چنانچہ خان صاحب پرچوں پر محض سرسری نظر ڈال کر نمبر لگا دیتے ۔ جلد ہی خان صاحب اِس پیشے سے بھی بد دل ہوگئے۔ بھلا یہ بھی کوئی پیشوں میں پیشہ تھا۔ نہ کوٹھی ، نہ کار ، نہ چپڑاسی ، نہ ٹیلی فون ، نہ رُعب ، نہ دبدبہ ۔ حالانکہ مجسٹریٹوں کو یہ سب کچھ میسّر تھا۔ تنگ آکر خان صاحب نے پی۔ سی ۔ایس کا امتحان دے ڈالا۔ پاس بھی ہوگئے اور مجسٹریٹ بھی لگ گئے۔ لیکن واہ ری بدقسمتی ! تُو نے یہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا ۔ آئے دن ٹرانسفر ہو جاتی۔ ایک جگہ جم کر بیٹھ نہ پاتے کہ دوسری جگہ جانے کا حُکم مل جاتا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پرجواب طلبی کرنے والے ایک نہیں کئی۔ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ، ڈپٹی کمشنر ، سیکرٹری، ہائی کورٹ، زندگی عذاب بن کر رہ گئی۔ ایک بار ہائیکورٹ نے توہینِ عدالت کے سلسلے میں طلب کر لیا۔ معافی مانگ کر جان چھُٹی۔ عدالت میں بے چارے خان صاحب کو اتنا کام کرنا پڑتا کہ بمشکل پیسے جیب میں ڈالنے کی فرصت ملتی۔ سارا دن اوٹ پٹانگ قسم کے مقدمے سُننا پڑتے۔ وکیلوں کی باتیں اپنی جگہ پریشان کُن ہوتیں۔ گھر جا کر ، ایک سینئر وکیل کی مدد سے ، مقدمات کے فیصلے لکھنا پڑتے۔ وہ وکیل لوگوں سے پیسے لے کر اپنی مرضی کے فیصلے لکھوا لیتا۔ اور بددیانت اِس حد تک تھا کہ اکثر خان صاحب کے حصّے کے پیسے بھی خود ہضم کر لیتا ۔ مسائل کی فہرست یہیں ختم نہیں ہوتی۔ وقتاً فوقتاً شہر میں ہنگامی ڈیوٹی لگ جاتی۔ عید کے روز لوگ تو نماز ِ عید پڑھ رہے ہوتے اور خان صاحب مسجد کے باہر ڈیوٹی دے رہے ہوتے۔ زندگی ایک مشین بن کر رہ گئی ۔ خان صاحب لیکچر شپ کے زمانے کی فراغت یاد کرتے اور آہیں بھرتے۔ عشق و محبتّ اور شادی کے سلسلے میں بھی خان صاحب خاصے بدقسمت ثابت ہوئے۔ ایک عرصہ تک وہ محبوبہ کی تلاش میں سرگرداں رہے۔ محبوبہ نہ ملی تو بیوی کی تلاش شروع ہوئی جو آج تک ختم نہیں ہوسکی۔ رشتے تو بہت آرہے ہیں لیکن ڈھنگ کی لڑکی نہیں مل رہی۔ بدقسمتی سے لڑکی اگر خوبصورت ہے تو ایم۔اے پاس نہیں۔ ایم۔اے پاس ہے تو لمبی نہیں۔ لمبی ہے تو پتلی نہیں ۔ پتلی ہے تو امیرزادی نہیں۔ امیر زادی ہے تو شریف زادی نہیں، شریف زادی ہے تو گوری نہیں۔گوری ہے تو سانولی نہیں وغیرہ وغیرہ ۔ غالباً اب تو آپ کو یقین آگیا ہو گا کہ خان صاحب اِس صدی کے بدقمست ترین انسان ہیں۔ اللہ ان کی حالت پر رحم کرے۔