کہاوتیں اور اقوال یونہی نہیں بن جاتے۔ اس کے پیچھے صدیوں کی دانش ہوتی ہے۔ عام کہا جاتا ہے کہ "Misfortune never comes alone" یعنی برا وقت تنہا نہیں آتا۔ کام بگڑتا ہی چلا جاتا ہے کہ اس میں شومئی تقدیر بھی ہوتی ہے۔ اس وقت میرا پیارا وطن ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے۔ ایک مسئلہ حل نہیں ہوتا کہ دوسرا پیدا ہو جاتا ہے۔ اب دیکھیے کہ ڈالر تاریخ کی اونچی ترین سطح 150 یا 151 روپے تک پہنچ گیا اور ابھی اس کا سفر جاری ہے جو 200 تک بھی جا سکتا ہے۔ ڈالر کی اہمیت بڑھنے کا مطلب ہے روپیہ کی بے توقیری۔ صحیح معنوں میں یہ عام آدمی کی زبان میں ٹکہ ٹوکری کہلائے گا۔ آپ نے پانچ روپے کا نیا سکہ بھی دیکھا ہو گا جو اتنا ننھا منا ہے کہ آپ جیب میں ڈالیں تو دوبارہ نہیں ملے گا۔ سٹاک ایکسچینج بیٹھ گئی۔ ایسی کہ جسے پنجابی میں ’’نٹھ کے بیٹھی‘‘ کہتے ہیں۔ افغانستان اور نیپال کی کرنسیوں کو لطیفوں میں استعمال کیا جاتا تھا وہ بھی پاکستانی کرنسی سے بہتر ہو گئی ہیں۔ لیکن عمران خان ڈٹا ہوا ہے اور مسلسل کہہ رہے ہیں کہ مشکل معاشی صورتحال سے نکل جائیں گے مگر اس کا ٹائم فریم انہوں نے نہیں دیا اور یہ بھی نہیں بتایا کہ یہ کارنامہ ان کے عہد میں ہو گا کہ نہیں۔ تاہم اچھی امید رکھنی چاہئے اور اس کے علاوہ ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔ طوطے یہی بتا رہے ہیں کہ یہ ایک گہری سازش ہے۔ ن لیگ والے اپنی جگہ چیزہ لے رہے ہیں اور موجودہ صورتحال سے لطف اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ڈالر بھی نیازی صاحب کی جگہ کہیں نہیں ٹھہر رہا‘‘ اور یہ کہ وہ آئی ایم ایف کے سامنے لیٹ گئے ہیں۔ اوورسیز تو چھوڑیے پاکستانی سرمایہ کار بھی پیسہ لگانے کیلئے تیار نہیں۔ یہ اس لئے درست ہے کہ سرمایہ دار تو زیادہ تر ن لیگ ہی میں ہیں۔ بات میں کر رہا تھا برے وقت کی۔ اب دیکھیے پاکستان کرکٹ ٹیم بھی موجودہ سیریز جتنے ون ڈے کھیلی سارے ہار گئی۔ چلیے یہ تو تجربات سے گزر رہے ہیں کہ ورلڈ کپ کی تیاری میں کبھی اسے نکالا اور کبھی اسے ڈالا۔ متوقع نتیجہ آ گیا۔ خان صاحب بھی 9 ماہ کے تجربے کے بعد ٹیم چننے میں کامیاب ہوئے ہیں مگر ٹیم کامیاب ہوئی یا نہیں بعد کی بات ہے۔ پی ٹی آئی حکومت پر برا وقت آیا ہے تو یقیناً یہ ن لیگ اور پی پی پی کیلئے اچھا وقت ہی سمجھا جا رہا ہے وہ یقیناً اس صورتحال سے ضرور فائدہ اٹھائیں گے اور خاص طور پر زرداری کہ جن کی جان شکنجے میں ہے اور وہ پہلو بدل رہے ہیں۔ زرداری، فضل الرحمن ملاقات کوئی بھی چاند چڑھا سکتی ہے۔ نواز شریف نے بھی تھوڑی سی لب کشائی کی ہے اور اپنی جماعت کو ہدایات وغیرہ دی ہیں کہ مہنگائی کے خلاف عید کے بعد احتجاج کو بڑھایا جائے۔ پیپلز پارٹی تو ابھی سے حرکت میں آنا چاہتی ہے۔ درمیان میں ایک سانحہ آ گیا کہ قمر زمان کائرہ کا جواں سال بیٹا اسامہ کار حادثہ میں انتقال کر گیا اور بلاول نے ایک یوم کیلئے سیاسی سرگرمیاں معطل کر دی ہیں۔ سچی بات ہے کہ اس حادثہ کا ہمارے دل پر بھی اثر ہوا کہ کائرہ ایک محبوب شخصیت ہیں اور بہت پیارے آدمی ہیں۔ مگر اللہ کی مشیت کے سامنے کس کی مجال اور کس کا اختیار۔ ان کیلئے دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ انہیں صبر جمیل عطا فرمائے۔ ہم بھی اللہ سے اس کے محبوب نبی کریمؐ کے صدقے اسامہ کی بخشش کیلئے دعا کرتے ہیں۔ اللہ اسے کائرہ کیلئے اجر کا باعث بنائے۔ آمین۔ بات ہو رہی تھی کہ مولانا فضل الرحمن بھی بے چین ہیں کہ کسی طرح اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر احتجاج کو آگے بڑھایا جائے۔ حالات بھی اس کیلئے سازگار ہیں۔ عمران خان کیلئے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی طرح بھی نواز شریف اور زرداری کیلئے نرم گوشہ پیدا کرنے کیلئے تیار نہیں کہ ان کی ساری ساکھ کا دارومدار ہی ان دونوں کی کرپشن کے خلاف سٹینڈ پر ہے۔ دوسری طرف ن لیگ کی جڑیں بہت گہری ہیں جس کااندازہ بیوروکریسی کے عدم تعاون سے ثابت ہو چکا ہے۔ خان صاحب بھی کچھ دوست نوازی میں مارے گئے۔ اب خیال آتا ہے کہ انہوں نے اپنوں ہی پر اعتماد نہ کیا۔ اب حفیظ اللہ نیاز جیسا قابل اعتماد کون ہو سکتا ہے۔ خوشامدی خوشامدی ہی ہوتے ہیں۔ خوشامد پتھر کو پگھلا دیتی ہے۔ ایک اور فکر فنانس کا تھا کہ فنانس ہی کو دیکھا گیا اور اب فنانس ہی کا مسئلہ پیدا ہو گیا۔ اگرچہ جماعت اسلامی نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے احتجاج میں یا احتجاجی تحریک کا حصہ نہیں بنیں گے مگر وہ عمران خان کے ساتھ بھی تو نہیں کھڑے اور ان کے بقول خان صاحب نے پاکستان کو آئی ایم ایف کے ہاتھ گروی رکھ دیا ہے۔ باقی بچتے ہیں عوام ان کو تو گرانی نے مار رکھا ہے۔ ان کو کچھ ہوش نہیں۔ حکومت کی ناکام اور نااہلی کا پراپیگنڈا بھی خوب کیا جا رہا ہے اور حکومت اس پراپیگنڈا پر پورا اترنے کی کوشش بھی کر رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والا معاہدہ پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے۔ اب بتائیے کہ مطالبہ کیسے پورا ہو سکتا ہے۔ یہ مطالبہ تو کبھی کسی نے بھی نہیں مانا۔ خیر چھوڑیے اس بات کو۔ اس شور شرابے میں تو اوگرا اپنا کام دکھانے جا رہا ہے۔ اس نے گیس کی قیمتوں میں 47 فیصد اضافے کی سفارش کر دی ہے۔ سونا 72 ہزار روپے تولہ ہو گیا ہے۔ خیر سونا امیروں کا مسئلہ ہے اب تو مڈل کلاس بھی اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ غریب کو تو زندگی گزارنا مشکل ہوا جاتا ہے۔ روزانہ ان کی قوت خرید پر زد پڑتی ہے، جب بھی پیٹرول، بجلی اور گیس مہنگی کی جاتی ہے تو ایک جملہ ضرور کہا جاتا ہے کہ اس بڑھوتری کے باعث غریب آدمی متاثر نہیں ہو گا اور مزے کی بات یہ کہ اصل میں صرف غریب ہی متاثر ہوتا ہے۔ خاص طور پر تنخواہ دار اور وائٹ کالر۔ ویسے بھی حکومت کا زور بے چاروں اور لاچاروں پر ہی چلتا ہے۔ ٹیکس بھی وہی صارف کی صورت میں ادا کرتا ہے۔فی الحال اس حکومت میں کوئی تال میل نظر نہیں آ رہا۔ بڑھکیں بھی ختم ہوتی جا رہی ہیں کہ لوگ اب آگے سے ہنستے ہیں۔ان ساری مشکلات و مصائب کے باوجود عوام ہرگز نواز شریف اور زرداری کی واپسی نہیں چاہتے۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ وہ مولانا فضل الرحمن کو چاہتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے پاس صرف نیک نامی ہے۔ پی ٹی آئی کے پاس اب بھی وقت ہے کہ اچھے لوگ ڈھونڈے، اقربا پروری یا دوست نوازی سے کام چلنے کا نہیں۔ چلئے دو شعروں کے ساتھ اجازت چاہوں گا: فکر انجام کر انجام سے پہلے پہلے دن تو تیرا ہے مگر شام سے پہلے پہلے باعث فخر ہوا رہزن و قاتل ہونا گھر اجڑتے تھے اس الزام سے پہلے پہلے