صدر ٹرمپ جنرل اسمبلی میں حسب توقع خوب گرجے برسے۔ان کے خطاب کا ایک تہائی حصہ ایران سے براہ راست دھمکی آمیز تخاطب پہ مبنی تھا لیکن سچی بات ہے مزا نہیں آیا۔یہ وہی الزامات تھے جن کا تذکرہ ان ہی سطور میں گذشتہ کئی سال سے ایک تسلسل کے ساتھ کیا جاتا رہا ہے۔ ایران کے امریکہ اور یورپ کے ساتھ جوہری معاہدے کی حقیقت جس پہ اس وقت بھی ری پبلکن کانگریس ممبران کو شدید تحفظات تھے ان ہی کالموں میں بیان کی جاچکی ہے۔ اس وقت بھی راقم کا خیا ل تھا کہ ایران کو امریکی ڈیموکریٹ اک مخصوص وقت تک ڈھیل دینا چاہتے ہیں اور اسی واسطے یہ ڈیل کی گئی ہے۔ جس دن ایران کا کام مشرق وسطی میں ختم ہوگیا ، اس دن یہ ڈھیل اور ڈیل لپیٹ دی جائے گی اور ہوا بھی یہی۔ صدر ٹرمپ نے آتے ہی اس جوہری معاہدے کو یکطرفہ طور پہ ختم کردیا اور ایران پہ پابندیاں عائد کردیں۔ جسے یورپ جس نے اس دوران ایران کے ساتھ تجارتی حجم میں قابل قدر اضافہ کرلیا تھا،مسترد کردیا۔ ایران اس دوران اپنی جوہری استعداد بڑھاتا رہا حتی کہ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے کسی فٹ پاتھی حکیم کی طرح ایران کے جوہری تجربات کے ثبوت کی برقی دستاویزات دنیا بھر کے میڈیا کو دکھانی شروع کردیں۔ایران اس دوران مشرق وسطی میں اپنا اثر و رسوخ بڑھاتا رہا حتیٰ کہ ایک وقت آیا جب اس کی مرضی اور تعاون کے بغیر شام اور عراق میں امن ممکن نہ رہا اور وہ عرب دنیا کے اندر اس خطے کا سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر بن گیا جس طرح ماضی میں اس نے لبنان میں حزب اللہ کے ذریعے عرب اسرائیل تنازعے فلسطین کو جسے مسلم دنیا اب بھی اپنا سب سے بڑا تنازعہ سمجھتی ہے، عربوں سے چھین کر اسے ایران اسرائیل تنازعہ بنا دیا اور دنیا بھر میں مرگ بر امریکہ اور اسرائیل ایک مقبول نعرہ بن گیا۔ اس کے ساتھ ہی یمن میں اس کی مداخلت جاری رہی جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور اب اسے سرکاری طور پہ بھی تسلیم کرلیا گیا ہے۔ مشرق وسطی کے نقشے پہ نظر دوڑائیں تو ہلال ایران ایک حقیقت کی طرح دمکتا نظر آتا ہے۔ جب یہ خطرہ اتنا بڑھنے لگا کہ مہرے بساط کو کھانے لگے تو لگامیں کھینچنے کا وقت آگیا ۔ امریکہ یکطرفہ طور پہ جوہری ڈیل سے نکل گیا اور ایران پہ پابندیاں لگا دی گئیں۔ یہ پابندیاں ایران کے لئے کبھی نئی نہیں رہیں اور اس دوران بھی فرانس اور برطانیہ ایران کے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار رہے۔ یہی وہ تمام حالات ہیں جن کا تذکرہ صدر ٹرمپ نے جنرل اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کیا جو حقائق کے اعتبار سے درست ہیں۔اب لیکن ہوا کچھ ایسی بدلی ہے کہ ادھر انہوں نے ایران میںمزید پابندیوں کا اعلان کیا ، ادھر امریکہ کے روایتی حریفوں چین اور روس کے علاوہ برطانیہ جرمنی اور فرانس نے ایران کے ساتھ تجارت جاری رکھنے اور پابندیوں کی موجودگی میں ادائیگیوں کا طریقہ کار وضع کرنے کا اعلان کردیا۔یہ امریکہ کے خلاف کھلا اعلان جنگ ہے جو پہلے ہی چین اور ترکی کے ساتھ تجارتی جنگ میں مصروف ہے دوسری طرف ایران کے جوہری معاہدے سے یک طرفہ طور پہ علیحدہ ہوکر اس نے خود کو الگ تھلگ کرلیا ہے۔ جوہری معاہدے سے علیحدگی نے ایران کو ایک اخلاقی برتری عطا کی ہوئی ہے لیکن اخلاقیات کی ایسی کی تیسی اس پاپی دنیا میں ہوتی رہتی ہے اس لئے اصل بات تو یہ ہے کہ تجارت معاہدے موجود ہیں اور روس کے ساتھ ساتھ ایران بھی اوپیک کا ممبر ہے جسے صدر صاحب نے تڑی لگائی ہے کہ اوپیک ممالک دنیا کو لوٹ رہے ہیں ، تیل مہنگا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ وہ اس وقت بھی اوپیک کو نہیں روک سکے جب ان کی مرضی کے خلاف اس نے روس کے ساتھ معاہدے کرلئے تھے۔ اسی سال اوپیک اور روس نے دو بار پینترا بدلا پہلے اس وقت چین بھارت او ر امریکہ کے مطالبے پہ انہوں نے تیل کی پیداوار بڑھانے اور مارکیٹ میں یومیہ ایک ملین بیرل اضافی مہیا کرنے کا عندیہ دیا۔ اس وقت بھی ایران نے اس کی مخالفت کی تھی۔ اس کا موقف تھا کہ تیل کی قیمتوں میںاضافے کا ذمہ دارا مریکہ ہے جس نے ایران اور وینزویلا پہ پابندیاں لگا رکھی ہیں جب تیل بکے گا نہیں تو پیداوار کیوں بڑھائی جائے۔یوں تو اوپیک بھی دیگر تجارتی گروپوں کی طرح ایک کارٹل ہی ہے جو قیمتوں اور پیداوار کو بلحاظ کوٹہ کنٹرول کرتا ہے اس لئے پیداوار کی کھپت کی ذمہ داری بھی اسی کی ہے اور وہ ایران کی ناراضگی مول لینے کا ہرگز روادار نہیں ہے جو اوپیک میں تیل کا تیسرا بڑا پیداواری ملک ہے ۔بات اوپیک کی ہورہی تھی جس کی اضافی پیداوار کا امریکی مطالبہ ایران نے مسترد کردیا تھا۔ اب اس ماہ کے اوائل میں سعودی عرب اور روس نے بھی یہ مطالبہ مسترد کردیا ہے جس پہ صدر ٹرمپ مشتعل ہیں۔ان کے اشتعال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تمام تر دھمکیوں کے باوجود کوئی ان کے قابو میں نہیں آرہا نہ ہی ان کی منشا کے مطابق کوئی ایرا ن کو تنہا کرنے کے لئے تیار ہے۔ شمالی کوریا کو انہوں نے جو لگام ڈالنے کی کوشش کی اور جس کا فخریہ ظاہر بھی انہوں نے اپنے خطاب میں کیا اس کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ اس نے جنوبی کوریا سے کچھ وعدے کر تو لئے ہیں جن میں ایک اس جوہری تنصیب کی تباہی ہے جو میڈیا کی نظر میں وہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے پہلے دور میں ہی کرچکا تھا لیکن وہ ایسا کرچکا ہوتا تو اس کی نوبت کیوں آتی۔ چین جس پہ دبائو ڈال کر امریکہ نے شمالی کوریا کو اچھا بچہ بننے کی تنبیہ کی تھی، کسی معاشی ڈریگن کی طرح پھیلتا جارہا ہے اور امریکی تجارتی پابندیوں کے جواب میں پابندیاں لگائے جارہا ہے۔ پاکستان اب اپنے دفاع کے لئے امریکہ کا محتاج نہیں رہا اوراس نے ستر فیصد دفاعی سازو سامان روس اور چین سے خریدنا شروع کردیا ہے اور روس کے ساتھ سالانہ عسکری مشقیں بھی شروع کرچکا ہے۔امریکی پابندیوں کی زد میں آئے روس کی سب سے بڑی توانائی کی کمپنی گیزپرام پاکستان میں دس بلین ڈالر کا گیس پائپ لائن منصوبہ شروع کرچکا ہے جو ستر کی دہائی میں روس کی معاونت سے پاکستان اسٹیل مل کے قیام کے بعد سب سے بڑا منصوبہ ہوگا۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ جس میں کئی اتار چڑھائو آئے ہیں ایک بار پھر شرمندہ تعبیر ہونے کے قریب ہے۔ اس منصوبے میں پہلے بھارت بھی شامل تھا جو امریکی دبائو پہ اس سے الگ ہوگیا تھا بعد میں پاکستا ن پہ امریکہ نے سعودی عرب کے ذریعے دباو ڈالنے کی کوشش کی تھی ۔ جنوری 2010ء میں امریکہ نے پاکستان کو ترغیب دی تھی کہ اگر یہ منصوبہ ترک کردیا جائے تو امریکہ اس کے بدلے میں ایل ای جی ٹرمینل اپنے خرچے پہ قائم کرنے اور تاجکستان سے افغانستان کے واخان کوریڈور سے بجلی درآمد کرنے کو تیار ہے۔اسی دوران ایک نامعلوم دوست ملک نے اسی منصوبے کے لئے ایک بلین ڈالر کا ہدیہ دیا جو کہاں گیا اس کا جواب میرے پاس نہیں ہے۔امریکہ کے شدید تحفظات کے باوجود یہ منصوبہ ایک بار پھر منصہ شہود پہ آرہا ہے۔ ساتھ ہی امریکی پابندیو ں سے تنگ ترکی نے پاکستان سے سی پیک میں شمولیت کی درخواست کردی ہے جس میںامریکہ کا قریبی حلیف سعودی عرب پہلے ہی شامل ہورہا ہے۔ان ہی بدلتے ہوئے حالات میں پاکستان ایران اور سعودی عرب کے ساتھ ماضی کی طرح متوازن تعلقات رکھنے کا خواہشمند ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ نئی بننے والی حکومت میں انتہائی غیر متوقع طور پہ ایک خاتون وزیر کو وزیر دفاع یا خارجہ لگانے کی بجائے انسانی حقوق کی وزیر لگادیا گیا۔ اس کی ایک وجہ موصوفہ کی امریکہ کے ساتھ کھلی چھیڑ چھاڑ ہے تو دوسری طرف ایران کی سمت ان کا معروف جھکائو ہے۔ غالبا نئی حکومت سعودی عرب کو ایسا کوئی تاثر نہیں دینا چاہتی تھی، پہلا سرکاری دورہ جس کا ہمارے وزیر اعظم نے کیا، لیکن ایران نے سب سے پہلے اپنے وزیر خارجہ کو پاکستان بھیجا۔ پاکستان کو امریکی دبائو میں آئے بغیر اپنے مفاد میں فیصلہ کرنا ہوگا جیسا کہ آج دنیا کا ہر ملک کررہا ہے ویسے بھی صدر ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ وہ گلوبلائزیشن کو نہیں حب الوطنی کو اہمیت دیتے ہیں۔جہاں صدر ٹرمپ سب سے پہلے امریکہ کا نعرہ لگا کر دنیا کے ہر ملک سے مڈبھیڑ کا رویہ اپنا رہے ہیں پاکستان کو پورا حق ہے کہ وہ اپنے معاشی مسائل اور تزویراتی نزاکتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی مرتب کرے ۔ سعودی عرب جیسے دوستوں نے ہمیشہ ہمارے مسائل کو سمجھا اور ہماری معیشت کو سہارا دیا ہے۔انہیں سمجھانا ہوگا کہ اب امداد نہیں تجارت کے دن ہیں اور وہ ایسا کرنے کے لئے تیار بھی ہیں۔ انہیں بھی علم ہے کہ بھری دنیا میں میں ایران نہیں امریکہ تنہا ہورہا ہے اور اس کی ابتدا ایک معاہدے سے غیراخلاقی طور پہ نکلنے سے ہوئی تھی۔