جب وطن عزیز میں کوئی ڈیم بنانے کی بات کرتا ہے تو میں چونک جاتا ہوں ،مجھے یہ آوازیں کوئل کی کوک اور پٹھانے خان کی پرسوزصحرائی لے سے زیادہ اپیل کرتی ہیں ،ہو سکتاہے کہ آپ کہیں گے کہ یہ کیا بدذوقی ہے لیکن بات ایسی ہی ہے کیوں کہ معاملہ ذوق کا نہیں اس پیاس کے روگ کا ہے جو ہمارا منتظر ہے زرا لہلاتے کھیتوں کی جگہ اڑتی ریت کا تصور کیجئے۔۔۔ خشک نہروں اور کیکٹس یا کیکر کی جھاڑیوں کو تخیل میں لائیں ۔۔۔ تصور تو کیجئے کہ آپ دوستوں میں بیٹھ کر دیسی گندم ،مکئی ، باجرے کی روٹی اور سرسوں کا ساگ یاد کر رہے ہو ں ۔۔۔ کیسا نوکیلا دکھ ہوگا جب بچوں کو بتائیں گے کہ کبھی ہم اپنی گندم خود اگایا کرتے تھے۔۔۔یہ سب جاننا سمجھنا زیادہ آسان ہوجائے گا اگر آپ دبئی جا چکے ہوں ،جہاں لق و دق صحرا ہیں خال خال ہی کہیں سبزہ دکھائی دیتا ہے ، کھیت کھلیان تو بھول جائیں،وہاں ہری مرچ سے لے کرتوریاں تک جانے کتنوں ملکوں سے کتنا فاصلہ طے کرکے پہنچتی ہیں کھجور کے سوا وہاں کی زمین کوئی پھل نہیں دیتی او ر اسکی وجہ صرف ایک ہی ہے کہ قدرت نے اس زمین پر میٹھی گیلی لکیریں نہیں کھینچیں ، لیکن یہاں تو ایسی کوئی مجبوری اور محرومی نہیں ہمارے پاس چار موسم ہیں برف اوڑھے پہاڑ ہیں جن سے نکلنے والے دریاہمیں خوب سیراب کرتے ہوئے سمندروں کا رخ کرتے ہیں ،ہماری مٹی بہت دیالواور مہربان ہے وہ کسانوں کو انکی محنت کا پھل دینے میں کبھی نہیں ہچکچائی مگریہ بھی سچ ہے کہ اب صورتحال پہلے جیسی نہیں رہی،پانی کی قلت ہمیں دبئی بنانے جارہی ہے قرضوں میں دبا، مفلوک الحال ’’دبئی‘‘۔۔۔اس سارے مسئلے کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے پانی اور پانی کو ذخیرہ کرنے والے ڈیم جوہمار ے نہری نظام کو زندہ رکھ سکیں جو دو دور تک زمینیں سیرا ب کریں پاکستان میں ساٹھ کی دہائی کے بعد سے کوئی بڑا ڈیم نہیں بنا،ہماری زراعت کے لئے پانی اور صنعتوں کے لئے بجلی کا انحصا ر 1968ء میں بننے والے باون برس کے تربیلا ڈیم پر ہے جس کی عمر پوری ہونے کو ہے وزیر اعظم کے مشیر بابر اعوان نے اگست2018ء میں سینیٹ میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ تربیلا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں چالیس اعشاریہ اٹھاون فیصد کمی ہوچکی ہے،یعنی خطرے کی گھنٹی بج نہیں چکی مسلسل بج رہی ہے آبی وسائل پر کام کرنے والی ایک این جی او’’ واش واچ‘‘ نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں ہرفرد کے لئے اوسطا 5000کیوبک میٹر پانی موجود تھا جواب کم ہوکر1000کیوبک میٹر ہوچکاہے،ایک تو پانی کا بے دریغ استعمال او ر پھرحکمرانوں،سیاست دانوں کی مجرمانہ غفلت نے ہمیں ایک بھیانک خطرے سے دوچار کردیا ہے ہم قومی نوعیت کے ان منصوبوں کو سیاست کی بھینٹ چڑھا چکے ہیں جن پر جنگی بنیادوں پر کام ہونا تھا،کالا باغ ڈیم کی مثال سامنے ہے جسے ہماری قوم پرستانہ سیاست نے کاغذوں سے باہر نکلنے نہیں دیا اگر کسی کی نظر میںیہ کریڈٹ ہے تو یہ پشتون اور سندھی قوم پرستوں کو جائے گا جی ایم سید اور ولی خان مرحوم تو علی اعلان کالا باغ ڈیم کوبموں سے اڑادینے کی دھمکیاں دیتے رہتے تھے لیکن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ میں موجود قوم پرست بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے ،سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی اسکے گواہ ہیں وہ صاف کہتے ہیں کہ اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے کالا باغ ڈیم کے منصوبے پر دستخط کرنے سے انکا ر کر دیا تھا وہ دستخط کر دیتے تو آج پاکستان میں خوشحالی کا گراف کچھ اور ہوتاجونیجو کے بعد یہ مسئلہ سندھی قوم پرست تنظیموں نے موت اور زندگی کا مسئلہ بنادیا ادھر عوامی نیشنل پارٹی نے بھی اس کی اس شدت سے مخالفت کی کہ ریاست کو کالاباغ کا بھاری پتھر چوم کر چھوڑنا پڑا۔ آج ایک بار پھر دیامیر بھاشا ڈیم بنانے کا اعلان ہوا ہے خیر سے یہ تیسری بار اعلان ہوا ہے اس بار کے اعلان کے مطابق منصوبے پر1406.5ارب روپے لاگت کا تخمینہ ہے ،پاک فوج کے زیر انتظام فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن اور چین کی حکومتی کمپنی پاور چائنا مل کر یہ ڈیم مکمل کریں گے ،خیال ہے کہ 2028ء تک یہ مکمل ہوسکے گا،آبی ماہرین کے مطابق یہ ڈیم تربیلا سے پہلے اور بلندی پر ہے اسکی وجہ سے تربیلا کی زندگی بھی بڑھ جائے گی ،برطانوی نشریاتی ادارے میں لکھنے والے ہمارے دوست صحافی زبیر خان کے مطابق دیامیر بھاشا ڈیم کے لئے زمین کے حصول کے لئے 175ارب روپے مختص کر دیئے گئے ہیں وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات عاصم باجوہ صاحب کا کہنا ہے کہ دیا میر بھاشا ڈیم سے 4500میگاواٹ بجلی حاصل ہوسکے گی زبیر خان کی یہ رپورٹ کسی رومانوی رباعی سے زیادہ دلکش ہے یہ سب باتیں دل کو چھو لینی والے موسیقی جیسی لگ رہی ہیں دل سے دعائیں نکل رہی ہیں کہ اس پر دن رات کام ہو لیکن ساتھ ہی وسوسے خدشات بھی سر اٹھارہے ہیں کیوںکہ اس منصوبے کو متنازعہ بنانے کے لئے ڈوریں ہلنا شروع ہوگئی ہیں پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی علی وزیر نے تیرہ مئی کو دیامیر بھاشا ڈیم کے اعلان پر اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ اس وقت جب دنیا میں افراط زر عروج پرہے اسٹاک مارکیٹس کریش ہورہی ہیں امریکہ نے کیسے پاکستان کو دیامیر بھاشا ڈیم کا اعلان کرنے پردباؤ ڈالا،اسکی کیا قیمت ادا کی جائے گی ؟ساتھ ہی انہوں نے معنی خیز انداز میں سوال بھی اٹھایا کہ گلگت بلتستان میں کچھ غلط بھی ہوسکتا ہے،یہاں سے پی ٹی ایم نے بھاشا ڈیم کو متنازعہ بنانے کا آغاز کیا اورادھر سندھ سے پیپلز پارٹی کی رہنماسینیٹر سسی پلیجو نے سوشل میڈیا پرمحاذکھول لیا ہے وہ دیا میر بھاشا ڈیم کے خلاف ٹوئٹر پر ٹرینڈ بنا کر لکھ رہی ہیں کہ اس وقت ڈیم پر نہیں کورونا وائرس کے خاتمے کے لئے فنڈخرچ کئے جائیںوہ لکھ رہی ہیں کہ بڑے ڈیم سندھ کے لئے ڈیتھ وارنٹ سے کم نہیں ۔۔۔یعنی کھیل کا آغاز ہوچکا ہے کالا باغ ڈیم کی طرح اسے بھی متفقہ متنازعہ بنانے کی کوشش ہورہی ہے اور یہ وہ بھدی آوازیں ہیں جو رنگ میں بھنگ ڈال رہی ہیں اورمجھے ڈر ہے کہ اس بار بھی یہ بے ہنگم موسیقی جیت گئی تو ہمیں ساٹھ کی دہائی کا مفلوک الحال دبئی بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا!