بادشاہی مسجد لاہور کی سیڑھیوں کے پاس میں نے ایک سابقہ نوآبادیاتی طاقت ’’برطانیہ‘‘ کے تخت کے وارث شاہزادہ چارلس اور اس کی دوسری بیوی کمیلا پارکر کا استقبال کیا۔ یہ نومبر 2006ء کا پہلا ہفتہ تھا۔ ہاتھ ملاتے ہوئے نہ جانے کہاں سے میرے بدن میں وہ ساری نفرت اور دکھ ایکدم سمٹ کرایسے آگیا کہ میرا پورا جسم اینٹھنے لگا۔ میری آنکھوں کے سامنے نہ صرف برصغیر پاک و ہند کی تین صدیاں گھوم گئیں، بلکہ دماغ میں خلافتِ عثمانیہ کے حصے بخرے کرنے کے لیئے برطانوی سازشوںکی طویل داستان بھی انگاروں کی طرح دہکنے لگی۔ میں اپنی اس کیفیت پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگا کہ کہیں آدابِ میزبانی میں مجھ سے کوئی جذباتی فقرہ نہ نکل جائے ،جو طبع شاہی پر گراں گذرے اور دو طرفہ تعلقات کو خراب کرنے کا بہانہ بناتے ہوئے مرعوب جرنیل مشرف مجھے اس بے ضررسی پوسٹ، ڈائریکٹرجنرل محکمۂ آثارِ قدیمہ سے نکال کر، تادیبی کاروائی نہ شروع کر دے۔ میری خوش قسمتی کہ اتنے میں علامہ اقبالؒ کے مزار پر بادشاہی مسجد کے خطیب مولانا عبدالخبیر آزاد سے نادانستہ طور پر سہواً ایک ایسی حرکت سرزد ہوگئی، جس پر وہاں موجود ہر ایک کیلئے اپنی ہنسی ضبط کرنا مشکل ہوگیا۔ مولانا آزاد عموماً مزار اقبالؒ پر عربی اور اردو میں ملی جلی دعا کرواتے تھے، لیکن اس دن پتہ نہیں ان کے جی میں کیا آئی کہ انہوں نے اپنی ’’مبلغ انگریزی‘‘ کو جمع کیا اور دعا کرواتے ہوئے کہا :’’May Allah give long life to Prince Charls and his Mother‘‘ (اللہ شہزادہ چارلس اور ان کی ’’والدہ‘‘ کو لمبی زندگی عطاء کرے)۔ ہر کسی کو علم تھا کہ مولانا کا روئے سخن کمیلا پارکر کی طرف ہی تھا ،جو شہزادہ چارلس کی محبوبہ تھیں اور جن کے لیئے انہوں نے خوبصورت ڈیانا سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ یوں تو کمیلا، چارلس سے صرف ایک سال ہی بڑی تھی، لیکن لوگ اس کا موازنہ اس سولہ سال چھوٹی شوخ و شنگ ڈیانا سے کرتے تو عموماً یہی فقرہ بولتے ’’یہ تو اس کی ماں لگتی ہے‘‘۔ اس فقرے کی گونج غیر ارادی طور پر اس دعا میں بھی آگئی، مگر مولانا کی انگریزی نے میرے لیئے اگلے دو گھنٹے کی اس اذیت کو ہنسی میں بدل دیا ،جو مجھے اس برطانوی شہزادے کو بادشاہی مسجد اور لاہور کے قلعے کی سیر کرواتے ہوئے برداشت کرنا تھی۔ بادشاہی مسجد کی بائیس سیڑھیاں چڑھتے ہوئے، اسکے پُر ہیبت دروازے تک عموماً ہر ’’معزز مہمان‘‘حیرت میں گم ہوجاتا ہے، کیونکہ اس حصے کا ہیبت و جلال ہی ایسا ہے۔ چارلس اور کمیلا پر بھی یہ عرصہ ایسے ہی گذرا، لیکن مسجد کا دولاکھ چھہتر ہزار مربع فٹ وسیع و عریض صحن عبور کرنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔ اس دوران عموماً مہمان کو اس مسجد کی حسن و خوبی اور فنِ تعمیر سے آگاہ کیا جاتا ہے تاکہ راستہ مصروفیت میں کٹ جائے۔ عمارت کی حسن و خوبی کا بیان ہو اور کسی جاننے والے کے سامنے تاریخ کے زخم تازہ نہ ہوں ، ایسا ہو نہیں سکتا۔ بادشاہی مسجد کی ازسرِ نو تزئین و زیبائش کے ذمہ دار مرحوم ولی اللہ خان صاحب نے ایسی یادوں کو زندہ کرنے کیلئے ایک آسانی یہ پیدا کر دی ہے کہ انہوں نے ان کھنڈرات کی وہ تمام تصاویر مسجد کے دروازے پر آویزاں کردیں ہیں، جو اسوقت کھنچی گئیں جب 1941ء میں مسجد مسلمانوں کے حوالے کی گئی تھی۔ ان تصاویر کے ساتھ ہی موازنہ کیلئے بیس سالہ محنت کے بعد 1961ء میں خوبصورتی اور دلکشی کے ساتھ بحال ہونے والی مسجد کی تصاویر بھی لگا دی ہیں، تاکہ لوگوں کو ان کی شبانہ روز محنت اور لگن کا احساس ہوسکے۔میں نے شہزادے کو ان تصاویر کے پاس روکا۔ اس کا سوال تھا کہ اس خوبصورت عمارت کا یہ حال کس نے کیا۔ میں نے بتایا، مہاراجہ رنجیت سنگھ اور اس کے جانشینوں نے، جنہوں نے اسے ایک سرکاری اصطبل میں تبدیل کروا دیا تھا اور جب اس کے جانشین کھڑک سنگھ اور نونہال سنگھ آپس میںلڑے تو ایک کا توپ خانہ مسجدمیں تھا اور دوسرے کا شاہی قلعے میں ، ان دونوں کی توپوں کے گولوں نے مسجد کے میناروں اور دیگر حصوں کو کھنڈر میں بدل دیاتھا ۔ یہ تمام تاریخ بیان کرتے ہوئے میں نے پرنس چارلس کے سامنے ایک سوال رکھ دیا۔ میں نے کہا کہ یہ مسجد انگریزوں کے پاس 1849ء میں اسوقت آگئی تھی، جب انہوں نے سکھوں کو شکست دے کر پنجاب فتح کیا تھا۔ لیکن کیا وجہ تھی کہ ’’انگریز سرکار‘‘ کو اس عظیم مسجد کا انتظام و انصرام اور اسے عبادت کیلئے مسلمانوں کو واپس کرنے میں 92سال لگ گئے؟ بلکہ یہ مسجد اس وقت حوالے کی گئی ،جب پنجاب کے مسلمان وزیراعظم سرسکندر حیات نے پنجاب کے تمام مسلمان زمینداروں پر ایک روپیہ ٹیکس نافذ کیا، تاکہ اس کی آمدن سے بادشاہی مسجد کی ازسرِ نو تزئین و آرائش کی جاسکے۔ شہزادے نے اس معاملے میں اپنی بے خبری کا اظہار چہرے کے تاثرات سے دیا۔ میرے لیئے یہ بالکل متوقع بات تھی۔ میں نے ایک دم پوچھا، آپ کو عجیب نہیں لگا کہ وہ برطانیہ جوآج پوری دنیا میں آثارِ قدیمہ کے تحفظ، مخطوطات کے ذخیروں اور نوادرات کی رکھوالی کے لیئے مشہور ہے، اسے اس تاریخی مسجد کے تحفظ کا 92سال تک کبھی خیال تک نہ آیا، اور عام مسلمانوں کو اسکی مرمت اور بحالی کیلئے ٹیکس کی صورت چندہ اکٹھا کرنا پڑا۔ سرسکندر حیات کے اسی اقدام کی وجہ سے مسلمانوں نے اسے بادشاہی مسجد کی سیڑھیوں کے پاس علامہ اقبالؒ کے مزار کے مقابل دفن کیاتھا۔ بادشاہی مسجد کے وسیع و عریض صحن اور مسجد کی عمارت میں عموماً آدھا گھنٹہ صرف ہوجاتا ہے۔ ان دنوں دہشت گردی کے خلاف معرکہ برپا تھا اور دنیا بھر میں خودکش حملہ آوروں پر بحث زوروں پر تھی۔ مغرب کے لکھاری خودکش حملہ آوروں کے آغاز کو مسلمانوں کی تاریخ میں ڈھونڈ رہے تھے۔ مسلمانوں کی ابتدائی تاریخ میں تو انہیں کچھ نہ مل سکا، البتہ ایرانی مقدس شہر ’’قم‘‘ میں پیدا ہونے والے اسماعیلی، حسن بن صباح کی مشہور ’’تحریک ِ حشیشین‘‘سے اس کا ناطہ جوڑا جا رہا تھا۔حسن بن صباح کا گروہ ایرانی شہر ’’قزوین‘‘ کے پاس قلعہ الموت میں بارہویں صدی میں بعثتِ رسول اکرم ﷺ کے پانچ سو سال بعد پید اہوا تھا، مگر مغربی مصنفین اس کی جڑیں آغاز اسلام میں تلاش کرتے پھر رہے تھے۔ ان دنوں اس گروہ پر بہت کچھ لکھا جارہا تھا ۔پرنس چارلس نے بھی 1967ء میں لکھی جانے والی برنرڈ لیوس (Bernard Lewis)کی کتاب ’’The Assassins‘‘نئی نئی پڑھ رکھی تھی۔ گفتگو اس کتاب کے حوالے سے شروع ہو گئی اور پھر آدھا گھنٹہ ہمارا موضوعِ گفتگو صرف اور صرف خودکش حملوں تک ہی محدود رہی۔ گفتگو اسقدر دلچسپ تھی کہ بادشاہی مسجد، حضوری باغ اور عالمگیری دروازہ سب گذر گئے اور ہم شاہی قلعے کے دیوانِ عام میں جاپہنچے۔ اس کی محرابوںکے پاس کھڑے ہوکر میں نے شہزادے سے کہا کہ یہ وہ جگہ ہے جس کے جھروکے سے مغل بادشاہ دیدارِ عام کروایا کرتے تھے اور اس کے ستون اپنی دلکشی اور تعمیر کے اعتبار سے آج پانچ سو سال بعد بھی تاریخ پر ایک خوبصورت دائمی نقش کے طور پر یہاں ثبت ہیں،لیکن اس خوبصورت عمارت پر جب برطانوی افواج نے قبضہ کیا تو اسے محفوظ کرنے کی بجائے، اسے فوجیوں کے ایک ہسپتال میں تبدیل کر دیا ۔ دیوانِ عام کے جھروکے کے پیچھے وہ خواب گاہیں ہیں جہاں بادشاہ رہا کرتے تھے۔ ان خواب گاہوں کی دیواریں سنگ مرمر کی ہیں۔ ان دیواروں میں سے ایک دیوار کے پاس میں نے شہزادے کو روکا اور دکھایا کہ گورے سپاہیوں نے یہاں کسی تیزدھار چیز سے اپنے نام اور پتے سنگِ مرمر میں ایسے کھودے ہیں کہ وہ نقش دائمی ہوچکے ہیں۔ اب یہ بدصورتی دیوانِ عام کی تاریخ کا حصہ ہے۔ شہزادے کے چہرے پر حیرت کے تاثرات دیکھتے ہوئے برطانوی ہائی کمشنر نے ایک دم کہا، ’’میں اپنی قوم کی طرف سے معذرت کرتا ہوں‘‘۔ پتہ نہیں کیوں میرے منہ سے اچانک نکلا، ’’یہ صرف دیوار پر نقش ہیں ،روح پر زخم بہت گہرے ہیں‘‘۔ (جاری)