سب سے زیادہ گندم پیدا کرنے والے پنجاب کی آٹا ملیں بیس کلو تھیلے کی قیمت میں 100 روپے اضافہ کا خدشہ ظاہر کر رہی ہیں۔فلور ملز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ حکومت نے بر وقت گندم درآمد نہ کی تو گندم کی قلت ہو سکتی ہے جس سے آٹے کی قیمت میں اضافہ ہو جائے گا۔گندم کے ذخائر اور سپلائی کے ذمہ دار حکام اس صورتحال کو خیبر پختونخواہ کو گندم سمگل کئے جانے سے جوڑ رہے ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ سمگلنگ روکی نہ گئی تو مسائل پیش آ سکتے ہیں۔ رواں برس صرف پنجاب میں گندم کی پیداوار کا نیا ریکارڈ، 2 کروڑ 9 لاکھ میٹرک ٹن رہا،حکومت کا کہنا ہے کہ پہلی بار کسانوں کو تاریخی سبسڈی فراہم کی جارہی ہے، فصل کا مکمل معاوضہ دیا گیا اور حکومت کے موثر اقدامات کی بدولت صوبہ میں گندم کی بمپر کراپ حاصل کی گئی ۔ سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ سال کی نسبت 20.9 ملین ٹن سے زائد گندم کی پیداوار کا ہدف حاصل کیا گیا، صوبے کے 16.1 ملین ایکٹر سے زائد ریکارڈ رقبے پر گندم کاشت کی گئی جس کے ذریعے 31.5 من فی ایکٹر گندم اور 20.9 ملین ٹن کی پیداوار حاصل کی گئی ۔صوبائی وزیر زراعت نے دو ماہ قبل ایک پریس کانفرنس میں یقین دلایا تھا کہ بمپر کراپ کے بعد کسی صورت آٹے اور اشیاء خورونوش کا بحران پیدا نہیں ہونے دینگے۔ وافر گندم پیداوار کا مطلب ہے کہ پنجاب اپنی ضرورت سے زاید گندم ضرورت پڑنے پر دوسرے صوبوں کو فراہم کر سکتا ہے ،حیرت اس وقت ہوئی جب گزشتہ ہفتے ملک میں گندم کی 27.2 ملین ٹن کی بمپر پیداوار کے باوجود کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے اسٹریٹیجک ذخائر کے لیے 30 لاکھ ٹن گندم کی درآمد کا عمل شروع کرنے کی اجازت دے دی۔تاہم کمیٹی نے گندم کی درآمد 40 لاکھ ٹن تک بڑھانے سے روک دیا۔ وزیر خزانہ شوکت ترین کی زیر صدارت کابینہ ڈویژن کے اجلاس میں اس بابت ضمنی گرانٹ منظور کر لی گئی۔ای سی سی نے خیبر پختونخوا کو مقامی فصل اور درآمد شدہ گندم سے 50، 50 کے تناسب سے 10 لاکھ ٹن گندم فراہم کی اجازت بھی دی۔ وزارت قومی تحفظ خوراک نے ای سی سی سے 40 لاکھ ٹن گندم کی درآمد کی اجازت دینے کی درخواست کی تھی، تاکہ مقامی مارکیٹ میں ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ سے بچنے کے لیے سٹریٹیجک ذخائر قائم کیے جاسکیں۔ اجلاس کو بتایا گیاتھا کہ وزارت تجارت ٹریڈنگ کارپوریشن پاکستان (ٹی سی پی) کے ذریعے کم قیمت کی بنیاد پر جولائی اور اگست میں بین الاقوامی مارکیٹ سے گندم کی درآمد کرنا چاہتی ہے۔ گندم سمیت تمام فصلوں کی پیداوار کا تخمینہ اور اعداد و شمار مرتب کرنے کے لئے وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ نے اس ایک ایپکس باڈی بنائی ہے جسے وفاقی کمیٹی برائے زراعت کہا جاتا ہے۔اس کمیٹی کی سربراہی وفاقی وزیر برائے فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کرتے ہیں، چاروں صوبوں کے وزیر زراعت سمیت تمام متعلقہ محکموں اور سٹیک ہولڈرز کے نمائندے بھی شامل ہوتے ہیں۔ کسی بھی فصل خصوصاً گندم اور کپاس کی متوقع پیدوار کا تخمینہ لگانے کے لیے تین اہم جزیات ہوتی ہیں جن میں قابل کاشت رقبہ کتنا ہے، متوقع پیداوار کیا ہو گی اور فی ایکڑ سے اوسط پیداوار کیا ہو سکتی ہے۔ ان تمام جزیات کو جاننے میں سب سے اہم کردار صوبائی وزارت زراعت کے ذیلی محکمے کروپ رپورٹنگ سروس اور محکمہ ایکسٹینشن کا ہوتا ہے۔متعلقہ محکموں کے اہلکار و افسران ہر ضلع، تحصیل، یونین کونسل اور ویلیج کونسل کی سطح پر کام کرتے ہیں اور براہِ راست کسانوں، کاشتکاروں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہوئے بیج، قابل کاشت رقبہ کے اعداد و شمار اکھٹے کرتے ہیں۔ گزشتہ برس حکومت کے جاری اعداد وشمار نا درست پائے گئے ،رواں برس یہ اعداد و شمار ایک بار پھر غلط ثابت ہوئے تو گندم اور آٹے کی سپلائی سے متعلق منصوبہ بندی متاثر ہو سکتی ہے۔ پچھلے چند برسوں میں یہ صورتحال تواتر کے ساتھ دیکھنے کو ملی کہ حکومت گندم اور آٹے کی جو قیمت مقرر کرتی ہے مارکیٹ میں اس سے زیادہ وصول کی جاتی ہے۔سال گزشتہ قیمتوں میں اضافے کی وجہ تاخیر سے گندم درآمد کا فیصلہ بتایا گیا،رواں برس بمپر کراپ ہوئی،حکومت سٹریٹجک ذخائر کو خاطر خواہ سطح پر برقرار رکھنے کی منصوبہ بندی کر چکی ہے، یقینی طور پر فلور ملز کو سپلائی کا پلان ترتیب دیدیا گیا ہو گا۔پاکستان میں لوگوں کی ضرورت کا سروے کرنے والے ادارے کام کر رہے ہیں ۔جب اتنا کچھ ہو رہا ہے تو پھر آٹے کے نرخ بڑھانے کی اطلاعات کیوں آ رہی ہیں؟ آٹے کی قیمت کا مسئلہ بظاہر گندم کی کمی نہیں بلکہ سرکاری مشینری کی نا اہلی اور حکومت کی بد انتظامی ہے۔یہ بد انتظامی بار بار عوام کے لئے تکلیف کا باعث بن رہی ہے ۔ ممکن ہے کچھ عناصر حکومت کو بدنام کرنے کے لئے نظام میں موجود نقائص سے فائدہ اٹھا رہے ہوں لیکن یہ آٹے کی قیمت بڑھانے کا جواز نہیں۔قیمت صرف اسی وقت بڑھ سکتی ہے جب پیداوار کم ہو اور عوام کی طلب زیادہ ۔دیکھا گیا ہے کہ فلور ملز سمیت حکومت ہر بار ان عناصر کے سامنے آخری وقت میں جھک جاتی ہے جو مافیا کی صورت مہنگائی میں اضافے کی وجہ ہیں ۔گندم کی مقامی وافر پیداوار ،درآمدی ذخیرے اور موثر انتظامات کے دعوئوں کے باوجود اگر حکومت نرخوں پر قابو پانے میں ناکام رہی تو اس کی ساکھ بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔