ہر سال وافر گندم پیدا کرنے والے صوبہ پنجاب میں گندم سرکاری نرخوں کے لگ بھگ دوگنا فروخت ہونے لگی ہے۔ کئی شہروں سے آٹا نہ ملنے کی رپورٹس مل رہی ہیں۔ حکومت نے 20کلو کے تھیلے کی قیمت میں 3روپے کمی کا اعلان کیا تھا اس اعلان کے بعد یہ تھیلا مارکیٹ سے غائب ہو چکاہے۔ نجی چکیوں پر فی کلو آٹے کی قیمت میں 20روپے اضافہ بتایا جا رہا ہے۔ چکی مالکان کا کہنا ہے کہ گندم 2080روپے فی من ہو چکی ہے اس لئے دیگر اخراجات شامل کر کے ان کے لئے سستا آٹا فروخت کرنا ممکن نہیں۔ فلور ملز مالکان کہتے ہیں کہ کسی جگہ آٹے کی کوئی قلت نہیں اور حکومت کو قلت پیدا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنا چاہیے۔ اس صورت حال میں وزیر اعظم نے آٹا بحران ختم کرنے کے لئے 3لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی منظوری دی ہے۔ درآمدی گندم کے نرخ کم رکھنے کے لئے حکومت نے اس پر واجب ڈیوٹی میں 60فیصد چھوٹ کا فیصلہ کیا ہے۔ سیکرٹری خوراک کا کہنا ہے کہ آئندہ چند روز میں صورت حال معمول پر آ جائے گی۔ پاکستان کا شمار گندم پیدا کرنے والے آٹھ بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ ماہرین زراعت کے مطابق پاکستان میں تقریباً سالانہ 25ملین ٹن گندم پیدا ہوتی ہے جس میں سے 19ملین ٹن پنجاب میں پیدا ہوتی ہے جو ملک کی مجموعی پیداوار کا 75فیصد ہے۔ نومبر 2019ء میں وفاقی وزیر برائے غذائی تحفظ و تحقیق صاحبزادہ محبوب سلطان نے آٹے کے بحران کے خدشات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی سالانہ گندم کی ضرورت 25ملین ٹن ہے جبکہ ہمارے پاس 27ملین ٹن گندم موجود ہے۔ انہوں نے کے پی کے اور بلوچستان کو فوری طور پر گندم فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا اس وقت بھی سماجی حلقوں کی طرف سے یہ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اگر حکومت گندم اور آٹے کی افغانستان سمگلنگ کا سدباب نہیں کرتی تو آئندہ چند مہینوں میں ملک میں آٹے کا بحران شدت اختیار کر سکتا ہے۔ اس وقت تحقیقاتی رپورٹس میں بھی یہی امر سامنے آیا تھا کہ آٹے کے بحران کی وجہ گندم کی قلت نہیں بلکہ فلور ملز مالکان کی طرف سے ملنے والے کوٹے کو مارکیٹ میں فروخت کرنا ہے۔ حکومتی رپورٹ میں 19کے لگ بھگ گھوسٹ فلور ملز کا بھی انکشاف ہوا تھا جو گندم کا کوٹہ لے کر مارکیٹ میں فروخت کر رہی تھیں۔ ان تحقیقات کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت نہ صرف افغان بارڈر پر سمگلنگ کی روک تھام کے لئے اقدامات کرتی اور گھوسٹ فلور ملز کو گندم مہیا کرنے والے سرکاری اہلکاروں کا محاسبہ کر کے متوقع بحران سے بچنے کی کوشش کی جاتی مگر بدقسمتی سے حکومتی اقدامات صرف طفل تسلیوں تک ہی محدود رہے۔ باعث تشویش امر تو یہ بھی ہے کہ معاملہ صرف گندم کی سمگلنگ اور آٹے کے بحران تک محدود نہیں بلکہ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد چینی کی قیمت میں 25روپے تک اضافہ ہو چکا ہے۔ چینی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ حکومت کی طرف سے چینی برآمد کرنے کی اجازت دینا بتایا جاتا ہے۔ بعض حلقوں کی طرف سے سیاسی اشرافیہ کی پشت پناہی میں پنپنے والے مافیاز کے ملوث ہونے کاخدشہ بھی ظاہر کیا گیا تھا جو بیورو کریسی کی ملی بھگت سے بحرانی کیفیت پیدا کر کے حکومت سے اپنی مرضی کے فیصلے کرواتا رہا ہے۔ ماضی میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ یہ مافیاز پہلے ملکی پیداوار کو برآمد کرنے کی پالیسی بنواتے ہیں جب ملک میں قلت پیدا ہوتی ہے تو وہی چیز درآمد کر کے ایک بار پھر منافع کھرا کر لیتے ہیں۔ جہاں تک سمگلنگ کے سدباب کا معاملہ ہے تو یہ بلا شبہ حکومت کی ذمہ داری ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے گندم اور آٹے کی افغانستان کو سمگلنگ کوئی نئی بات نہیں اور ماضی میں افغانستان کی ضروریات پوری کرنے کے باوجود بھی ملک میں گندم کی قلت کا سامنا نہیں تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں آٹے کے بحران کاسبب گندم کی قلت کے بجائے انتظامی کمزوری محسوس ہوتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد بیشتر اختیارات صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کی نگرانی صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح فلور ملز مالکان کو فراہم کی جانے والی گندم اور آٹے کی بلا تعطل فراہمی بھی صوبوں کی ذمہ داری ہے۔ صوبائی حکومتیں بہتر انتظامات کر کے بحرانی کیفیت پر کافی حد تک قابو پا سکتی ہیں۔ جہاں تک گندم کی پیداوار کا تعلق ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گزشتہ چند برس سے حکومت گندم کے کاشتکاروں کو مسلسل نظر انداز کر رہی ہے جس کی وجہ سے کسان متبادل فصلوں کی طرف جانے پر مجبور ہیں۔ بہتر ہو گا حکومت کسان سے مناسب داموں گندم کی خریداری کو یقینی بنانے کے ساتھ فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کے لئے کسانوں کو جدید ٹیکنالوجی، کھادیں اور بیج ارزاں نرخوں پر فراہم کرے تاکہ پاکستان کا کسان بھی گندم کی 30من فی ایکڑ کی بجائے 70من پیداوار حاصل کر سکے ایسا کرنے سے ہی کسان خوشحال اور ملک غذائی خود کفالت کی منزل پا سکتا ہے۔صوبائی اور ضلعی سطح پر تاحال پرائس کنٹرول میکنزم کا فعال نہ ہونا ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کوشہ دے رہا ہے۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو کم از کم پنجاب کی حد تک پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو با اختیار اور فعال بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔