حکومت اور اپوزیشن کے درمیان براڈ شیٹ معاملہ سینٹ میں زیر بحث لانے پر اتفاق ہوا ہے۔یہ اتفاق اپنی پیشر فت جاری رکھنے میں کامیاب ہوا تو ہنگامہ آرائی و انتشار کی جگہ قانون کی عملداری کا راستہ ہموار ہو سکتا ہے جس سے پاکستانی جمہوریت اور پارلیمنٹ کا اعتبار مستحکم ہو سکتا ہے۔ 2000ء میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے براڈ شیٹ نامی برطانوی کمپنی کی خدمات حاصل کر کے دوسو سیاستدانوں، بیوروکریٹس، تاجروں، فوجی افسروں کے نام دیتے ہوئے کہا کہ ان سمیت بیرون ملک پاکستانیوں کے چوری شدہ پیسے کی کھوج لگائی جائے ۔ معاہدے کے تحت جو چوری شدہ پیسہ براڈ شیٹ ڈھونڈ نکالے گی اس کا 20فیصد اسے ملے گا۔سن 2000میں براڈ شیٹ نے کام شروع کیا، اس دوران مبینہ طور پر آفتاب شیر پائو کے آف شور بینکوں میں اکائونٹس کا پتا چلا جہاں 50لاکھ ڈالر پڑے ہوئے تھے، ایڈمرل منصور الحق کے اکائونٹ میں 75لاکھ ڈالر تلاش کئے گئے۔ ایڈمرل صاحب کے ساتھیوں جمیل انصار،عامر لودھی کے اکائونٹس میں مبینہ طور پر الگ رقوم سامنے آئیں اِدھر براڈ شیٹ چوری شدہ اثاثوں کو ڈھونڈ رہی تھی اْدھر پاکستان میں تیزی سے حالات بدل رہے تھے، جنرل پرویز مشرف نے جن سیاستدانوں کی کرپشن کا سراغ لگانے کے لیے نیب کے چیئرمین جنرل امجد کو مامور کیا تھا ان سیاست دانوں کی سابق صدرکو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ضرورت پڑنا شروع ہوئی تو انہوں نے قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دینا شروع کر دی۔ ان پر حکومت کا دبائو بڑھ رہا تھا کہ فلاں کو نظر انداز کر دیں فلاں کے خلاف تحقیقات میں تیزی نہ دکھائیں، فلاں کے خلاف تحقیقات بند کر دیں، فلاں کا نام نکال دیں، حکومت پاکستان نے ایڈ مرل منصور الحق کو امریکہ سے واپس مانگ لیا،منصورالحق یہاں آئے، ریسٹ ہائوس میں نظر بند ہوئے اور بد عنوانی سے کمائے پیسے کا چند فیصد واپس کر کے نیب سے پلی بارگین کی اور پتلی گلی سے نکل گئے۔ پرویز مشرف کو پیٹریاٹ بناکرجمالی حکومت بنانا تھی، جنرل امجد پر دبائو بڑھا تو تنگ آکر نیب چھوڑ گئے، ان کے بعد نیب نے براڈ شیٹ سے رابطہ کرکے بیسیوں مجرموں جن کے چوری شدہ اثاثوں کا پتا چلانا تھا، ان کے نام نکالنے اور ان کے خلاف تحقیقات بند کرنے کا کہہ دیا، براڈ شیٹ نے کمیشن کا مطالبہ کیا ،ساتھ ہی یہ کہا کہ ہم یوں درمیان میں انکوائریاں بند نہیں کرسکتے، جب براڈ شیٹ نے نیب کی بات نہ مانی تو نیب نے 2003ء میں معاہدہ ختم کردیا، اس کے بعد براڈ شیٹ نیب کے خلاف عالمی ثالثی عدالت میں چلی گئی، عدالت نے براڈ شیٹ کے حق میں فیصلہ دیا، نیب کو 4ارب 38کروڑ روپے جرمانہ ہوا، نیب کے وکیل، لیگل فرم کو فیس ادائیگی اور سود کے بعد یہ رقم 7ارب 18کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ اس طرح نیب جوسیاست دانوں سے لوٹ مار کا پیسہ وصول کرنے چلی تھی سیاسی مداخلت اور جنرل مشرف کے دبائو کی وجہ سے اس کو قومی خزانے سے خطیر جرمانہ ادا کرنا پڑا۔ اسے وطن عزیز کی بد قسمتی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے حکمران اپنے مفاد کے لیے قومی وسائل یہاں تک کہ قومی وقار بھی دائو پر لگانے سے دریغ نہیں کرتے ستم ظریفی تو یہ بھی ہے کہ جب سے لندن عدالت کا فیصلہ سامنے آیا ہے حکومت اور اپوزیشن ذاتی اور سیاسی مفادات کیلئے معاملے کو ایک بار پھر ابہام کا شکار کرنے میں مصروف ہیں۔ جہاں تک نیب کے کیس ہارنے اور سابق حکمرانوں کے بے گناہ ہونے کی بات ہے تو حقیقت لندن میں عدالتی فیصلہ کے بعد آشکار ہو چکی ہے کہ حکومت پاکستان خود لوٹ مار اور چوری کا پیسہ وصول کرنے میں سنجیدہ نہ تھی۔ جنرل(ر) پرویزمشر ف نے تو جو کیا سو کیا میاں نواز شریف کے حوالے سے براڈ شیٹ کے سربراہ کاوے موسوی نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ سابق وزیر اعظم نے انجم ڈار کے ذریعے رشوت کی پیشکش کی تھی، میرے پاس اس کا گواہ موجود ہے۔ براڈ شیٹ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ نوازشریف سے انجم ڈار کی شناخت کنفرم کرنا میری ذمہ داری نہیں تھی، انجم ڈار نے نوازشریف کے ساتھ ذاتی رہائش گاہ کی تصاویر دکھائیں، یہی نہیں ملاقات میں انجم ڈار نے ٹیلیفون پر نوازشریف سے مزید معلومات وہدایات لیں،ان کا کہنا ہے کہ انجم ڈارسے متعلق میری بات الزام ہے تاوقتیکہ عدالت میں ثابت ہو جائے۔کاوے موسوی نے بتایا کہ میری انجم ڈار سے دو ملاقاتیں ہوئی، پہلی ملاقات میں اس نے رشوت کی آفر نہیں کی، دوسری ملاقات میں انجم ڈار نے مجھے رشوت کی آفر کی ۔لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے براڈ شیٹ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عدالت نے ہزاروں کاغذات کا مشاہدہ کیا، عدالت نے نیب اور حکومتی عہدیداران سے سوالات پوچھے، ایسافیصلہ نہیں دیکھا جس میں حکومت کو سازش کا ذمہ دارقرار دیا گیاہو، ہرپاکستانی کو عدالتی فیصلہ پڑھنا چاہیے، ساتھ ہی پاکستان کی نئی حکومت سے کہوں گا کہ فیصلے پرغور کرے۔موسوی کا مزید کہنا تھا کہ برطانوی عدالتوں کی ساکھ ہے اوریہ غیرجانبدارہیں، ہمیں پتہ تھا نیب نے معاہدہ توڑاہے۔ عدالت نے کہا جان بوجھ کر توڑا ہے، ہمیں پتہ تھاغیرقانونی کام ہوا،عدالت نے کہا براڈشیٹ کیخلاف سازش کی گئی، نیب نے ان لوگوں سے فراڈ کیاجنہیں کرپشن ڈھونڈنے کیلئے لائے تھے، میں نئی تحقیقات کیلئے نئی کمپنی بناتاہوں تاکہ چیزیں واضح رہیں۔مختلف مواقع پر سامنے آئے ان بیانات سے یہ طے ہو جاتا ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے بد عنوانی کے خلاف مہم کو ذاتی اغراض پر قربان کر دیا۔