آج 8جولائی ہے اورآج یوم شہاد ت برہان وانی ہے۔خیال رہے کہ 8جولائی 2016ء جمعہ کوکمانڈربرہان وانی اپنے دوجانبازساتھیوں سمیت بھارتی فوج کے ساتھ ایک خونریزمعرکے میں شہید ہوئے۔ کمانڈربرہان وانی عزم واستقامت کاکوہ گراں اورجرا ت و بے جگری کااستعارہ تھا۔ انہوں نے عملی جدوجہدکی تاریخ میںایک قابل رشک اور ناقابل فراموش باب لکھا۔مجاہدکمانڈربرہان اپنی چھ سالہ مجاہدانہ زندگی میں کشمیریوں کی بہادری کی علامت تھا ،عملی جہادکا یہ موثرداعی دہلی کے قلعوں کولرزا تارہااوراسکی فصیلوں پردراڑیں ڈالتارہا۔ 22سالہ برہان نے کشمیرجہادکواس وقت ایک ولولہ انگیز رخ دیاتھاکہ جب دنیاکے میڈیاسے اوجھل تحریک آزادی کشمیرکوانہوں نے سوشل میڈیاکے ذریعے سے ترویج دیکرمقبوضہ کشمیرکے پڑھے لکھے نوجوانوں کوجہادکی صفوں میں شامل کرایااور جابراورقابض بھارتی فوج کے خلاف نئی صف بندی کراکے جہادکے محاذ کوگرمادیا۔ برہان کی دعوت جہادکے فوری اثرکودیکھ کربھارت بوکھلااٹھا ۔ اس نوجوان نے عملی جدوجہدکی تاریخ میںایک قابل رشک اور ناقابل فراموش باب لکھا۔ اے شہیدقوم وملت تیرے جذبوں پہ نثار تیری قربانی کا چرچا غیر کی محفل میں ہے برہان وانی نے کشمیرکی رواں جدوجہدمیں جوعبقری رول ادا کیا اسے کسی بھی صورت میں فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔وہ جہادکشمیر کا ایسامایہ ناز سپوت اور نئے جذبوں اورعزم نوکا امین اور کشمیر کے نو جوانوں کے لئے رول ماڈل اور بہادرمجاہد تھاکہ جسکی للکار،ہمت وحوصلہ اورجذبہ جہادکے سامنے بھارتی فوج ،اسکے آلہ کاراوربھارت کامتعصب زعفرانی میڈیا نہایت خوفزدہ تھا۔ برہان چھوٹی عمر میں اپنی ذہانت اور بہادری سے نہ صرف اپنے لیے مقام پیدا کر گیا، بلکہ ملت کشمیر کی جدوجہد کو ایک تابناک اوردرخشندہ جہت اور درست اورواضح سمت عطا کی ۔بلاشبہ وہ کشمیرکی آنے والی نسلوں کے ہیرو رہیں گے اور کشمیرکابچہ بچہ انہیں اپنا مسیحا تصور کرے گا۔ 1990ء سے آج تک کشمیری مسلمانوںکے کندھوں پراپنے لخت جگروں کے مسلسل تابوت ہیں،لگاتارخون آشامیاں ہیں ، معرکے اورجھڑپیں ہیں ، آتش وآہن کی بارش ہے، نعرہ مستانہ ہے،آسمان شق کرنے والی چیخ وپکاراورآہ وزاریاں ہیں ،جس طرف نظریں اٹھائیںقبرستان ہی قبرستان ہیں،قتل عام کرنے والے بھارتی درندہ صفت فوجیوں کے لئے سٹار، پھول تمغے اور ترقیاں ہیں۔پرآشوب حالات ،گولیوں کے تڑاخ پٹاخ اوربندوقوں کی گن گرج میں جنم لینے والی کشمیرکی موجودہ نسل بے خوف ،بے باک ،بے جگر،دلیراوربہادرہے ۔ یہ نسل گولیوں کی تڑتڑاہٹ، ماردھاڑ،قتل وغارت ، فوجی بوٹوں کی خوفناک آہٹ اور آگ اورخون کے دریاکوعبورکرتے ہوئے جواں ہوئی۔ 1990ء میں جنم لینے والاکشمیری بچہ آج ماشاء اللہ زندگی کی 26ویں بہارمیں داخل ہوچکاہے ،اس نے آنکھ کھولتے ہی ظلم دیکھا،بربریت دیکھی ،پکڑدھکڑ دیکھی ،بے گوروکفن میتیں دیکھی ،بے نام قبریں دیکھی ،خون میں لت پت لاشیں دیکھی،آتش وخون دیکھا،گردنوں سے سروں کواترتے دیکھا، عزت والوں کی سر عام پٹائی ہوتی دیکھی ،چادراورچار دیواری کوپامال ہوتے دیکھا،خواتین کی عصمتیں لٹتی دیکھی ،یتیموں کی ایک فصل اگتی دیکھی ،ریاستی دہشت گردی دیکھی،جبروقہردیکھا،،اپنے کیریئر،پرایف آئی آرکی تلوارلٹکتی دیکھی ،اس نے اپنے آپ کو بدنام زمانہ افسپاجیسے کالے اورسیاہ ترین قوانین میں جکڑاہوادیکھاجو آن کی آن میں اورکسی بھی لمحے اسے ابدی نیندسلانے کے لئے اس کے تعاقب میں ہیں۔ 2010ء کی ایک شام کوترال کابرہان وانی،مجاہدین سے جاملا اور جہادکشمیرکے محاذ پرمورچہ زن ہوا۔گوریلاکمانڈرکی حیثیت سے وہ چھ برس تک مسلسل بھارتی فوج کے اعصاب پرسواررہااورانکی نیندیں اڑاتارہا۔ساتھ ساتھ زعفرانی مائینڈسیٹ کے حامل بھارتی زہرناک میڈیا کی جہادکشمیر کے خلاف تمام شازشیں ناکام بنادیںاوراس کے مذموم پروپیگنڈے کاعملی طورپرموثرتوڑ کیا۔اعلیٰ تعلیم یافتہ کالج کے پرنسپل جناب مظفروانی کابیٹا 22سالہ برہان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے بھارت کے لئے(MOST WANTED) ’’انتہائی مطلوب‘‘ بن گیا اور اس کے سر کی قیمت دس لاکھ مقرر ہوئی۔نہایت وجیہہ اورخوبصورت کشمیری لڑکابرہان کمانڈو وردی پہنے جدید ہتھیار اٹھائے سوشل میڈیا پرچھاگیا۔سوشل میڈیاکے ذریعے برہان جوانان کشمیرکوبھارتی فوج کی بربریت ،ظلم اوراسکے جبرکے خلاف اٹھ کھڑاہونے کی دعوت دیتے رہے ،برہان کوسوشل میڈیاپردیکھ کر وادی کشمیرکاپڑھالکھا نوجوان طبقہ سوشل میڈیا کا اسیر بن گیا۔ ان کی تصویروں اور پیغام سے وادی کے نوجوانوں کا جذبہ بڑھتا چلا گیا ۔ کشمیرکے تعلیم یافتہ نوجوان تیزی سے جہادکشمیر کا حصہ بننے لگے ۔ڈگریاں تھامے نوجوانوں کا بندوق اٹھانا بھارتیوں کے لئے نیا درد سر بن کر رہ گیااو ریوں کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے بھارتی فوج کے خلاف نئی صف بندی کرتے ہوئے تحریک جہاد کشمیرکی جڑوں کومضبوط بنانے کے لئے اپنالہوپیش کیا۔ کشمیرکی تاریخ اس امرپرشاہد و گواہ ہے کہ 1990ء سے آج تک مجاہدین اور بھارتی فوج کے مابین بڑے بڑے معرکہ ہوئے، سردھڑکی بازی لگاکرمجاہدین تن تنہا کئی کئی روزتک ہزاروں وردی پوشوں کے خلاف معرکہ آرائی کرتے رہے۔ بالآخر مرتبہ شہادت پرفائزہوکراپناحق اداکرکے افق کے اس پارچلے گئے ۔لیکن برہان کی شہادت سے کشمیرمیں انقلاب کاجو ایک پہلوسامنے آیا اس نے ملت اسلامیہ کشمیرکوجس طرح بنیان مرصوص بنادیااس طرہ کمال پرمختصرالفاظ میں بس یہی کہاجاسکتاہے کہ ’’ایں سعادت بزور بازو نیست‘‘ برہان کی شہادت نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ اسلامیان کشمیر اپنی جائز جدوجہد کے تئیں کس قدر غیر معمولی وابستگی رکھتے ہیں۔ بلاشبہ برہان کشمیری نوجوانوں کے لئے ایک نمونہ عمل تھاکہ جس نے اپنی مختصرجہادی زندگی میں تحریک آزادی کشمیر کے لئے گراں قدر خدمات انجام دیں وہ کشمیرکی آنے والی نسلوں کے لئے مہمیز کا کام دے گی۔برہان اوراسکے ساتھیوں نے جس جوانمردی کیساتھ اپنی اٹھتی جوانیاں راہ حق میں قربان کیں،وہ قربانیاں رواں جدوجہد کاانمول ترین اثاثہ ہے ۔