لوگ صبح ہی سے ہمیں بتا رہے تھے کہ ہندو نوجوانوں کے جتھے کسی بھی وقت آپ کے گھر پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ میرے والد نے انتہائی پریشانی کے عالم میں میری والدہ اور ہم بہن بھائیوں کو آگرہ کے سب سے اچھے ’’مغل ہوٹل‘‘ میں منتقل کر دیا۔ چند گھنٹے وہاں گذارنے کے بعد، میری والدہ نے فیصلہ کیا کہ آخر کب تک ہم یہاں چھپے بیٹھے رہیں گے اور ادھر تمہارے والد بھی تو اکیلے ہیں، اس لئے ہمیں واپس جانا چاہیے۔ ہم دوپہر کے بعد واپس آگئے۔ پورے شہر میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کے حق میں جلوس نکل رہے تھے۔ یہ نومبر 1990ء کی ایک صبح تھی، جب پورا آگرہ شہر ایل کے اڈوانی کی ’’رتھ یاترا‘‘ کے جنون میں مبتلا ہو چکا تھا۔ ہم لوگ موجودہ گھر سے پہلے ایک مسلم اکثریتی علاقے میں رہتے تھے۔ لیکن سات سال پہلے ،میرے والد نے یہ فیصلہ کیا کہ ایسی آبادی میں رہ کر ہم بھارتی عوام کے بڑے دھارے سے کٹ کر رہ جائیں گے، اس لئے انہوں نے اس ہندو اکثریتی علاقے میں رہائش اختیار کرلی۔ ہم ہوٹل سے واپس گھر لوٹے تو میرے والد نے مجھے اپنی ٹیلیفون ڈائری دی جس میں آگرہ کی انتظامیہ کے تمام بڑے اہلکاروں، کمشنر، ڈپٹی کمشنر،ڈی آئی جی اور ایس پی وغیرہ کے نمبر تھے۔ یہ وہ تمام لوگ تھے جن سے ہماری خاندانی دوستی تھی۔ یہ پارٹیوں میں ہمارے گھر آتے تھے اور ہم ان کے گھر جایا کرتے تھے۔ مغرب کے وقت مشتعل ہجوم ہمارے گھر کے سامنے جمع ہو گیا جس کی قیادت ہمارا ایک پڑوسی کر رہا تھا۔ میں نے والد کو بتایا تو انہوں نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا کہ اگر ’’سنجے بھائی‘‘ ہے تو وہ ان لوگوں کو سنبھال لے گا، اس لئے کہ سنجے کا چھوٹا بھائی میرے بھائی کا بہت اچھا دوست تھاوہ دونوں ایک ساتھ کھیلتے تھے۔ لیکن ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس پورے ہجوم کو ہمارے گھر پر حملہ کے لئے مشتعل کرنے والا شخص سنجے ہی تھا۔ انہوں نے ہمارے گھر پر پتھروں کی بارش شروع کر دی۔ ہماری تمام کھڑکیاں ٹوٹ گئیں، سامنے کا شیشے کا دروازہ چکنا چور ہو گیا اور ہماری گاڑی کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔میں نے اس دوران آگرہ کے تقریباً ہر بڑے پولیس آفیسر یا انتظامی سربراہ کو فون کیا لیکن کسی نے میرا فون نہیں اٹھایا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں میں انکل کہا کرتی تھی کیونکہ اس وقت میری عمر صرف 19سال تھی۔ یہ صرف بیس منٹ تھے لیکن یہ بیس منٹ کئی صدیوں پر محیط ہو چکے تھے۔یہ واقعہ ہے جو اس کتاب کو تحریر کرنے کا متحرک بنا۔ ایک ایسی کتاب جسے پڑھتے ہوئے ہر چند لمحوں بعد آپ کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور آپ کو تحریر پر نظریں جمانے کے لئے آنکھیں صاف کرنا پڑتی ہیں۔ اس کتاب کو مارکیٹ میں آئے ابھی چند دن ہوئے ہیں لیکن اس میں موجود حقائق نے پوری دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ ’’کرن تھاپر‘‘ نے جب اس کتاب کی مصنفہ ’’غزالہ وہاب‘‘ کا انٹرویو کیا تو اس نے کہا کہ میں کبھی آسانی سے کسی شخصیت یا کتاب سے متاثر نہیں ہوتا، لیکن اس کتاب نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں اس کی مصنفہ کا انٹرویو کروں۔ کتاب کا نام ہے ’’Born A Muslim: Some Truths about Islam in India‘‘ (مسلمان گھرانے میں پیدائش: بھارت میں اسلام کے بارے میں حقائق)۔ کرن تھاپر نے تعارف کراتے ہوئے کہا کہ اس کتاب کے عنوان میں جو سوال ہے اس کا جواب صرف ایک سچائی نہیں بلکہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے۔ کرن تھاپر کے نزدیک یہ کتاب ایک سوانح نگاری ہے (Autobiography) ہے، ایک حکایت (Anecdotal) ہے ، ایک تجزیاتی (Analytical)تحقیق اور ریسرچ ہے اور اپنے اندر وسیع تاریخی مواد رکھتی ہے۔ غزالہ وہاب اور اس کا خاندان بھارت کے ایسے مسلمان گھرانوں میں سے ایک ہے جسے آج کے دور میں جدیدسیکولر ، لبرل اخلاقیات کا علمبردار کہا جا سکتا ہے۔ خود غزالہ وہاب جو ایک مشہور صحافی اور قلم کار ہے، اس نے ’’می ٹو‘‘تحریک سے متاثر ہو کر 2019ء میں مشہور ایڈیٹر اور سیاست دان ایم جے اکبر پر کئی سالوں بعد جنسی ہراسانی کا الزام لگایاتھا۔ کتاب بھارت میں بسنے والے چوبیس کروڑ مسلمانوں کی خونچکاں داستان ہے، جس میں نگر نگر آباد، اقلیت کے طور پر زندگی گذارنے والے مسلمانوں کی کہانیوں کے ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک بہت بڑی تصویر بنا ئی ہے۔ایک ایسے بھارت کی تصویر جس میں مسلمانوں کی بستیاں ایک رستے ہوئے زخم، کوڑے کا ڈھیر اور گندگی کے پہاڑوں کی طرح نظر آتی ہیں۔ یہ وہ مسلمان ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ اس بات پر مجبور کر دیئے گئے ہیں کہ وہ صرف ایسے علاقوں میں جا کر آباد ہوں جہاں صرف اور صرف مسلمان رہتے ہوں تاکہ کسی بلوے، آفت یا حملے کی صورت میں وہ ایک دوسرے کا سہارا بن سکیں۔ یہ علاقے اور یہ آبادیاں پورے بھارت میں گندگی، غلاظت اور غربت کی منہ بولتی تصویریں ہیں۔ غزالہ وہاب نے احمد آباد کے جوہا پاڑہ جیسی لاتعداد آبادیوں کا ذکر کیا ہے وہ بدترین گھیٹو (Ghetto) ہیں۔ اس کے نزدیک مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ وہ بھارت میں ایک غریب ترین اقلیت میں ڈھل چکے ہیں۔ غریب سے غریب ترین یعنی بھارت میں آباد کروڑوں شودروں اور دلتوںسے بھی کمتر حیثیت میں۔ اس لئے کہ شودروں اور دلتوں کو سماج میں اعلیٰ مقام دلانے اور ان کو قابلِ عزت روزگارفراہم کرنے کے لئے حکومتی سطح پر اور این جی اوز اور سول سوسائٹی کی سطح پر مسلسل کوششیں جاری رہتی ہیں اور وہ اپنی موجود حالت سے سماجی بلندی کی جانب سفر بھی کر رہے ہیں۔ لیکن مسلمان جس پستی میں پہلے تھے اب اس سے کہیں زیادہ پستی اور غربت کے گڑھے میں گرتے جا رہے ہیں، اور ان کو اس پسماندگی سے نکالنے اور آگے بڑھانے کے لئے نہ حکومتی سطح پر کوئی پروگرام موجود ہے اور نہ ہی سول سوسائٹی میں سے کوئی آواز اٹھانے کی ہمت کرتا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت چھوٹے چھوٹے پیشوں سے وابستہ ہے جن میں لوہار، ترکھان، جولاہا وغیرہ ۔یہ مسلمان خاص طور پر وہ بھینسیں پالتے ہیں اور گوشت اورچمڑے کا کاروبار کرتے ہیں۔ اسی لئے جب ان کو خوفزدہ کرنا ہو، مارنا یا قتل کرنا ہو تو وزیراعلیٰ ادیتیا ناتھ یوگی جیسے لوگ اسی کاروبار کے خلاف بات کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ کتاب میں مسلمانوں کے اس المیے کی دلگداز داستان کا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں کی کسی بھی آبادی پر کسی بھی دن بغیر کسی وجہ سے حملہ ہو سکتا ہے۔ کسی بھی مسلمان نوجوان کو پولیس کسی بھی وقت دہشت گردی کے الزام میں اٹھا کر لے جا سکتی ہے۔ وہ بڑے شہروں میں جا کر ہندو ؤں والے نام رکھ کر زندگی گذارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ وہ کبھی بھی ،کسی وقت ملازمت سے نکالے جا سکتے ہیں۔ وہ تعلیم حاصل کر بھی لیں تو انہیں تعلیم کے مطابق کوئی نوکری نہیں ملتی۔ ان کے لئے بھارت میں تعلیم، رہائش اور ملازمت کے لئے کوئی ’’چوائس‘‘ نہیں کہ وہ ان میں سے کسی ایک کو چن سکیں۔ وہ تو رہائش کے اعتبار سے اپنی غلیظ آبادیوں میں ہی رہنے پر مجبور ہیں کہ باہر آئے تو مار دیئے جائیں گے، ملازمت کے لئے وہ انہی پیشوں سے وابستہ رہنے پر مجبور ہیں کیونکہ کسی اورجگہ ان کو کوئی کام نہیں دے گا اور تعلیم حاصل کرنا ان کے بس کی بات ہی نہیں اور اگر وہ کسی طرح حاصل کر بھی لیں تو اس کے مطابق انہیں نہ عزت ملتی ہے اور نہ ہی نوکری۔بھارت کے چوبیس کروڑ مسلمانوں کی یہ آبادی اپنی تمام تر صلاحیتوں کے باوجود اور آگے بڑھنے کے جذبے کے باوصف دن بدن، غربت، ذلت بیماری اور غلاظتوں کے کنویں میں دھنستی جاچلی رہی ہے۔ غزالہ وہاب نے کہا ، کہ میرے سیکولر ، لبرل باپ نے ایک فقرہ بہت سالوں کے بعد بولا، جو انہیں بہت پہلے بول دینا چاہیے تھا۔اس فقرے کی تلخی بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا، ’’آخر کار یہ ان کا ہی تو ملک ہے‘‘ یعنی یہ ملک ہندوؤں کا ہے۔ یہ ہے ایک بھارتی سیکولر، لبرل خاندان کا ادراک ۔ یہ وہ ’’گیان‘‘ ہے جو قائد اعظمؒ کو سو سال پہلے ہوا تھا اور انہوں نے ایک فقرہ بول کر کانگریس چھوڑ دی تھی، ’’ہندو ناقابلِ اصلاح ہے‘‘۔