بھارت کے بی جے پی، بجرنگ دل اورآرایس ایس سے وابستہ ہندوئوں کے دماغ میں واقعی گوبر ہی بھرا ہوتا ہے۔یہ قہر پہ قہرعذاب پہ عذاب،بھارت میں ہندوئوں نے کروناسے بچنے کے لئے گائے کاگوبر اور پیشاب پینا شروع کردیاہے سابق اقوام کی طرح اب ہندوستان کے اسلام اورمسلم دشمن ہندئووں کے لئے بھی یہ وائرس ایک اورعذاب لے کرآیااوروہ یہ ہے گائے کا گوبر اور گائوموترگھول کر پینے لگے اورگوبر اور گائو موترمیں لت پت ہیں۔ بھارتی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈی پرآنے والی خبروں میں دکھایا گیا ہے کہ ہندومرداورعورتیں گائے کے پیشاب اوراسکے گوبر کانہایت بے تابی کے ساتھ انتظارکررہے ہیں اورجب بول و براز خارج کرتی ہیں توبڑے بڑے بالٹی اورگلاس لیکراس غلاظت کوپی لیتے ہیں اورکہہ رہے ہیں کہ جانور کے یہ اخراجات انہیں کرونا وائرس سے بچالیںگے۔یہ دراصل بھارت پراس وائرس عذاب کے ساتھ ساتھ ایک اور عذاب الٰہی ہے ۔یہ پہلا موقع نہیں جب ہندو کسی مہلک مرض کے علاج کیلئے گائے کا پیشاب پینے لگے ہیں۔ اس سے قبل ہندو کینسر سے بچا ئوکے لئے بھی گائے کا پیشاب پیتے رہے ہیں۔ حالانکہ بھارت کے کئی ماہرین نے بار بار اس بات پر زور دیا ہے کہ گائے کا پیشاب کینسر جیسی بیماریوں کا علاج نہیں کرتا اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ کرونا وائرس سے حفاظت کر سکتا ہے۔16مارچ 2020ء سوموار کو آل انڈیا پارٹی یا فیڈریشن آف انڈیا نے ملک کے دارالحکومت نئی دہلی میں واقع اپنے ہیڈ کوارٹر میں کنسرٹ کی میزبانی کی اور اس میں 200افراد نے شرکت کی۔ شرکاکی تواضع گائو موترکے ساتھ کی گئی۔تقریب میں شریک ایک ہندو نے کہاکہ ہم 21برسوں سے گائو موتر پی رہے ہیںاور گائے کے گوبر سے نہاتے ہیں۔اس تقریب میں پارٹی لیڈر کرونا کی ایک تصویر والے پوسٹ کے قریب ہاتھ میں گائو موترسے بھری ایک پیالی لے کر کھڑے ہیں ۔شمال مشرقی بھارت کی ریاست آسام میں ایک ہندولیڈر نے رواں ماہ پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران ریاستی قانون سازوں کو بتایا کہ گائے کا گوبر اور پیشاب کرونا وائرس کے علاج کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی سے تعلق رکھنے والی بھارتی سیاست دان ثمن ہری پایہ نے گائے کے پیشاب اور گوبر کے استعمال کو کورونا وائرس کا علاج قرار دے دیا۔دہلی میں گائے کا پیشاب پینے کی کامیاب پارٹی کے انعقاد کے بعد ہندو مہاسبھا کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جلد ہی ملک کے دیگر شہروں میں بھی گائے موتر پارٹیاں منعقد کی جائیں گی۔تاہم بھارتی سائنسدان اور طبی ماہرین اس بات سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کا کہنا تھا کہ تجربات سے یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ گائے کا پیشاب پینے یا گوبر کھانے سے کسی بھی بیماری کا علاج نہیں بلکہ اس ناپاکی سے بیماریاں بڑھ جاتی ہیں۔بھارت میں اس وقت کورونا وائرس سے بچنے کے لیے جہاں ہندو انتہاپسند لوگوں کو گائے کا پیشاب پینے اور گوبر کھانے کی تجویز دے رہے ہیں، وہیں انڈیا میں کورونا وائرس کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے جن میں گو، کورونا گو جیسے نعرے لگائے گئے۔بہرحال یہ لعنت توانڈیاپرنازل ہوچکی ہے اوروہ اسی لعنت میں لت پت رہے گا۔ بھارت میں گائے کا پیشاب دودھ سے زیادہ فروخت ہونے کا انکشاف بھی ہواہے۔ ایک نجی ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق بھارتی سائنسدان مودی حکومت سے پریشان ہیں، جس نے انہیں سائنس سے دور اور ذاتی خواہشات کے قریب کر دیا ہے جو جگ ہنسائی کا باعث بن رہا ہے، برطانوی جریدے اکانومسٹ کے مطابق بھارت گندگی پر پیسے بہا رہاہے جبکہ فنڈنگ اور ترجیحات کی بات کی جائے تو گائے چاند مشن سے بھی اوپر ہے، دی اکانومسٹ کے آرٹیکل میں چاند پر بھیجے گئے دوسرے ناکام مشن چندریان ٹو کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیاہے کہ بعض بھارتیوں کا ماننا ہے کہ چندریان ٹو کے لیے بجٹ کم رکھا گیا ہے، ان کے مطابق اس اہم کام کے لیے کم بجٹ رکھا گیا جبکہ دیگر معاملات میں زیادہ فنڈنگ کی جا رہی ہے، سائنسدانوں کا شکوہ ہے کہ 2014 ء سے جب سے مودی حکومت اقتدار میں آئی ہے سرکاری سطح پر قدیم طریقہ علاج کو فروغ دیا جا رہا ہے اور اسی پر فنڈنگ کی جا رہی ہے، آرٹیکل کے مطابق بھارتی سائنسدانوں پر حکومت کی جانب سے گا ئوموتر اور پنچا گا پر کام کے لیے دبا ئوڈالا جا رہا ہے، جو گائے کے گوبر، پیشاب، دودھ، دہی اور گھی سے بنایا جاتا ہے، بھارتی ریسرچر نے اپنی مجبوری بتاتے ہوئے کہا ہے کہ مودی حکومت کے قائم کردہ نیشنل کائو کمیشن نے اس کام کے لیے 60فیصد سے زائد فنڈز رکھے ہیں جو کہ 500 کروڑ روپے بنتے ہیں، انہیں اپنے اصل کام کے لیے لیب اور دیگر سہولتوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے یہ کام بھی کرنا پڑ رہا ہے ورنہ انہیں فنڈز نہیں ملیں گے، آرٹیکل میں حکمران جماعت کی خاتون رکن پارلیمنٹ پراگیا ٹھاکر کا بھی ذکر کیا گیا ہے جن کا ماننا ہے کہ گائو موتر پینے سے ان کا بریسٹ کینسر ختم ہو گیا جو تین آپریشن کے باوجود ختم نہیں ہوا تھا، بی جے پی کی رہنما پراگیا ٹھاکر نے کہا کہ گائے پر اگر الٹی سائیڈ سے ہاتھ پھیرا جائے تو اس سے ہمارا بلڈپریشر ٹھیک ہوتا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ سائنٹفک ہے، ان کے علاج کرنے والے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ یہ ان کا عقیدہ ہو سکتا ہے طبی بنیاد پر اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ بھارتی شہر اندھور میں کا یورین تھراپی اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے بھی انتہائی مضحکہ خیز دعویٰ کیا ہے کہ گائو موتر سے کینسر کا علاج ہو سکتا ہے جبکہ جونا گڑھ زرعی یونیورسٹی کے ریسرچر تو اس سے بھی آگے نکل گئے ہیں، انہوں نے گائے کے پیشاب میں کینسر کا علاج ہی نہیں بلکہ سونا بھی دریافت کیا ہے، رپورٹ کے مطابق بھارت میں آن لائن ریٹیلر بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں اور بڑے آرام سے گائے کے گوبر سے بنے صابن اور گا موتر سے بنی ادویات کی پروموشن اس دعوے کے ساتھ کر رہے ہیں کہ ان سے کینسر کا علاج ممکن ہے۔ (جاری)