وزیرِ خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی نے ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز پبلک ریلیشنز میجر جنرل بابر افتخار کے ہمراہ پریس بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کچھ عرصے سے کنٹرول لائن کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے،مزید خاموش رہنا پاکستان کے مفاد میں نہیں ہوگا،انہوں نے کہا کراچی، لاہور،پشاور،کوئٹہ اور دیگر شہروں میں بھارت دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔میجر جنرل بابر افتخار نے پاکستان میں دہشت گردی کا بھارتی منصوبہ بے نقاب کرتے ہوئے بھارتی خفیہ تنظیم ’’را‘‘ کی دہشت گردی کے لیے فنڈنگ کے شواہد پیش کیے ہیں۔انھوں نے کہا کہ پاکستان میں حالیہ دہشت گردی اور دہشت گرد تنظیموں کی تمام کارروائیوں کے پیچھے بھارت ہے،داعش کے 30 دہشت گرد بھارت سے پاکستان کے مختلف شہروں میں بھیجے گئے ہیں، بھارت نے کالعدم ٹی ٹی پی اور بلوچ باغی گروپوں کو جمع کیا ہے ،جس کے مصدقہ شواہد موجود ہیں کہ افغانستان میں بھارتی سفیر اور سفارت کار پاکستان میں دہشت گردی کے سہولت کار ہیں۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں موجود بھارتی کرنل راجیش دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ رابطے میں ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت پاکستان کی سلامتی اور سی پیک منصوبے کے خلاف کھل کر میدان میں آ چکا ہے۔ ایک طرف وہ بلوچستان کے علیحدگی پسند دہشت گردوں کو منظم کر کے انہیں دوبارہ بلوچستان میں دہشت گردی پھیلانے پر تیار کر رہا ہے تو دوسری طرف کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کو افغانستان میں منظم کر کے کراچی‘خیبر پی کے اور پنجاب میں خون خرابہ کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ بھارتی بدنام زمانہ ایجنسی’’را‘‘ نے اس حوالے سے ایک علیحدہ ڈیسک بھی قائم کر رکھا ہے،جس کا مقصد دہشت گردوں کی فنڈنگ میں ہر قسم کی رکاوٹ دور کر کے انہیں بروقت امداد پہنچانا ہے۔ایم کیو ایم لندن کے ’’را ‘‘کے ساتھ رابطوں سے تو ہر کوئی آگاہ ہے لیکن تازہ ترین صورتحال میں 32کروڑ ڈالر میر طارق اور سرفراز مرچنٹ کو صرف دہشت گردوں کو منظم کرنے کے لئے بھیجے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ 50لاکھ ڈالر بلوچستان کے علیحدگی پسند گروپوں کو دیے گئے یں۔ افغانستان سے علیحدگی پسند لیڈروں کی آڈیو گفتگو کے سامنے آنے کے بعد تو کسی قسم کا ابہام نہیں ہونا چاہیے۔ بھارت کے 66دہشت گرد کیمپ افغانستان اور بھارتی شہروں میں موجود ہیں۔ بھارت نے قندھار میں دہشت گرد کیمپ کو فعال کرنے کے لئے 3کروڑ ڈالر بھی دیے ہیں۔ اس سے قبل کلبھوشن یادیو بھی اقرار کر چکا ہے کہ بھارت پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لئے بھاری فنڈنگ کر رہا ہے۔ناقابل تردید شواہد سامنے آنے کے بعد پاکستان کو نہ صرف افغانستان سے بات چیت کر کے اسے دہشت گردوں کو تحفظ دینے پر دو ٹوک بات کرنی چاہیے بلکہ او آئی سی سے لے کر اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر اس مسئلے کو شدت سے اٹھانا چاہیے۔ در حقیقت بھارت نے دنیا بھر کی کشمیر میں جاری مظالم سے نظریں ہٹانے کے لئے پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کے منصوبے بنا رکھے ہیں۔ جبکہ کچھ عرصہ قبل بھارت کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ’’ بھارت سکیورٹی کے لئے خطرہ بننے والوں سے اپنی سرزمین پر بھی لڑے گا اور یہ جنگ ان ملکوں کی سرزمین تک لے جائے گا جہاں سے یہ خطرات سر اٹھا رہے ہیں‘‘۔اس بیان کے چند دن بعد ہی پشاور کے مدرسہ پر حملہ ہوا تھا۔آخر عالمی برادری بھارتی دہشت گردی پر خاموش تماشائی کا کردار کیوں ادا کر رہی ہے۔ عالمی برادری ایک طرف نیٹو اتحاد بنا کر داعش اور دہشت گردی کے خلاف لڑ رہی ہے تو دوسری طرف کھل کر دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے پر بھارت کے بارے آنکھیں بندکر رکھی ہیں، یہ دوہری پالیسی کب تک چلے گی۔ عالمی برادری اگر حقیقت میں دنیا سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پرعزم ہے تو اسے بھارتی دہشت گردی کا فی الفور نوٹس لینا چاہیے۔ اگر عالمی برادری نے بھارت کی طرف سے آنکھیں بند کئے رکھیں تو پھر افغانستان سے لے کر عراق اور شام تک دہشت گردوں کی سرکوبی کی کوششیں رائیگاں جائیں گی کیونکہ بھارتی فنڈنگ سے دہشت گردوں کو ازسر نو منظم ہونے کا موقع مل جائے گا۔ پاکستان کو ایل او سی پر بھارتی جارحیت پر خاموشی کی بجائے اسے اس کی زبان میں جواب دینا ہو گا،اگر پاکستان نے ماضی کی طرح نرمی سے کام لیا تو پھر بھارت کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل جائے گا۔ اس لئے اپوزیشن جماعتیں بھی بھارت کے بارے میں نرم رویہ رکھنے کی بجائے قومی سلامتی کا موقف اپنائیں کیونکہ اس وقت اپوزیشن جماعتوں کا بیانیہ بھارت کے حق میں جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت اس سے فائدہ اٹھا کر ہمارے قومی سلامتی کے اداروں پر حملہ آور ہے۔ سات اور 8نومبر کی درمیانی شب بھارتی افواج کومقبوضہ وادی میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں بھارت کے 5فوجی ہلاک بھی ہوئے اس کے بدلے میں بھارت نے ایل او سی پر اندھا دھند فائرنگ کر کے حالات کو خراب کیا،جس کے نتیجے میں ہمارے ایک فوجی سمیت چار شہری شہید اور 17افراد زخمی ہوئے ہیں۔بھارت اب نرمی سے سمجھنے والا نہیں اس لئے افواج پاکستان کو اب دشمن کو سخت سے سخت جواب دینا چاہیے اور ملک بھر میں دشمن کے کارندوں اور سہولت کاروں کی نشاندہی کر کے نہ صرف انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے بلکہ ان کے منحوس چہرے بھی عوام کے سامنے لائے جائیں تاکہ عوام دوست اور دشمن کی تمیز کر سکیں۔ اس سلسلے میں سیاسی اور عسکری قیادت کو مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دینا چاہیے تاکہ ہم یکسوئی کے ساتھ اپنے مشن اور کاز میں کامیابی حاصل کر سکیں۔