ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے شہریت کے متنازع قانون کی منظوری کے بعد پورے بھارت میں پرتشدد احتجاج کو ہندو توا کی حکومتی پالیسی کے خلاف عوامی مزاحمت قرار دیا ہے۔ میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر سے آسام اور اس سے آگے کے علاقوں کی صورت حال بھارت کے خاتمہ کی شروعات ہے۔ شہریت قانون کے متعلق چینی اخبار نے بھی اپنے ایک مضمون میں کہا ہے کہ نریندر مودی کا مسلمانوں پر حملہ دراصل خود اپنے خلاف جنگ چھیڑنے کے مترادف ہے۔ عہد حاضر کو دوسری جنگ عظیم اور پھر سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد نافذ ہونے والے امریکی نیو ورلڈ آرڈر کی غلطیاں سدھارنے سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ عشروں تک ایک دوسرے کا ہاتھ مضبوطی سے تھام کر کمزور ممالک پر جنگ مسلط کرنے والے نیٹو ممالک میں اب اختلافات ابھر رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ‘ افریقہ اور خود برطانیہ بریگزٹ کی صورت میں نئے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا پونے دو ارب آبادی کا خطہ ہے۔1947ء میں برطانوی حکومت نے جب ہندوستان کو آزادی دینے کا فیصلہ کیا تو اسے یہ بات ناگوار گزری کہ مسلمانوں نے الگ وطن کا مطالبہ کر کے ایک بڑی ریاست کو کمزور کیا۔ کانگرس انگریز کی اس سوچ کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرتی رہی۔ انگریز اور کانگرس کا خیال تھا کہ برطانیہ کے چلے جانے کے بعد متعدد ریاستوں میں بٹا برصغیر روس اور چین جیسی بڑی ہمسایہ ریاستوں کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ اس سوچ نے انگریز کو موقع دیا کہ وہ پنجاب کی تقسیم میں ناانصافی کر کے گورداسپور کو بھارت کا حصہ بنائے تاکہ اس کی فوج کو کشمیر تک رسائی مل سکے۔ کانگرس اور دوسری ہندو جماعتوں نے ایک ڈھونگ خود کو سیکولر کہلانے کا رچایا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلمان چونکہ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر الگ وطن کا مطالبہ کر رہے تھے اس لئے کانگرس نے سکھوں‘ مسیحیوں ‘ پارسیوں اور دلتوں کو یقین دلا دیا کہ ان کے حقوق مسلم پاکستان کی بجائے سیکولر بھارت میں محفوظ رہیں گے۔ اس ڈھونگ نے بھارت کو رقبے اور آبادی کے لحاظ سے خطے کا سب سے بڑا ملک بنا دیا۔1948ء میں مجاہدین نے پاکستان کی مدد سے بھارت کے تسلط سے جب کشمیر کا خاصا علاقہ آزاد کرا لیا تو بھارت میں یہ سوچ جڑ پکڑنے لگی کہ پاکستان کو اس درجہ کمزور کر دیا جائے کہ وہ بھارت کے مفادات کو چیلنج نہ کر سکے۔ مشرقی پاکستان کو اسی سازشی حکمت عملی کے ذریعے بنگلہ دیش بنا دیا گیا۔ سقوط ڈھاکہ نے پاکستان کو جو نقصان پہنچانا تھا وہ نقصان ہوا مگر اس کے باوجود دو قومی نظریہ برقراررہا۔ بنگلہ دیش بھارت کا حصہ نہ بنا بلکہ ایک الگ مسلم اکثریتی ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔تحریک آزادی کے دوران سردار پٹیل جیسے ہندو انتہا پسندوں کا رویہ آنے والے حالات کی خبر دے رہا تھا۔ جوں جوں کانگرس کمزور ہوئی اور بھارت کی ہندو اکثریت اپنی اصل شکل میں ظاہر ہونے لگی۔ ریاست کی جمہوری اور نظریاتی شناخت مسخ ہونے لگی۔ نوے کی دہائی میں بابری مسجد کی شہادت وہ واقعہ ہے جس نے اس بات پر مہر ثبت کر دی کہ قائد اعظم نے جس دو قومی نظریے کی وکالت کی وہ درست اور زندہ ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام‘ سمجھوتہ ایکسپریس کو انتہا پسند ہندوئوں کا جلانا‘ مسلمانوں کو گائے کا گوشت رکھنے یا گائے ذبح کرنے کا ذمہ دار قرار دے کر سرراہ قتل کرنا‘ ہجوم کی طرف سے مسلمانوں پر تشدد انتہا پسندوں کا معمول بن چکا ہے۔ گزشتہ ہفتے بھارت نے دوسرے ممالک سے نقل مکانی کر کے بھارت میں آباد ہونے والے افراد کو شہریت دینے کا قانون منظور کیا۔ اس قانون میں پاکستان‘ افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے ہندوئوں کو شہریت کا حق دینے کی حمایت کی گئی ہے جبکہ مسلمانوں کو شہریت نہ دینے کی بات کی گئی۔ اس طرح بھارت نے خود کو اسرائیل جیسی ریاست بنانے کی راہ ہموار کر لی ہے جو دنیا بھر کے یہودیوں کو شہریت دیتا ہے مگر مقامی عرب آبادی کو دھکیل کر ہمسایہ مسلم ممالک میں بھیجنا چاہتا ہے۔ بھارت میں 18کروڑ کے لگ بھگ مسلمان ہیں‘ دوسری اقلیتوں کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے جو اس قانون سے متاثر ہوں گی۔ اتنی بڑی آبادی کی منشا کو نظر انداز کر کے نریندر مودی کی حکومت دنیا کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ بھارت مذہبی بنیاد پر امتیازی سلوک کی حوصلہ افزائی کرنے والی ریاست میں ڈھل چکا ہے۔ بھارت ایک منڈی کے طور پر بڑے ممالک کی توجہ کا مرکز ہے۔ امریکہ کے ساتھ اس کے فروغ پاتے تعلقات نے اسے شہہ دی کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کو یکطرفہ طور پر ختم کر کے اپنا قبضہ مستحکم کرے۔ اہل کشمیر بھارتی ظلم اور قبضے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ دوسری طرف آسام کا علاقہ ہے جہاں کے لاکھوں مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دے کر شہریت سے محروم کر دیا گیا۔ بی جے پی حکومت کی عاقبت نااندیشانہ پالیسیوں کے خلاف ایک آگ ہے جو پورے بھارت میں پھیل رہی ہے۔ اس ماحول نے بھارت میں آباد اقلیتوں کو احساس دلایا ہے کہ سیکولرازم کے نام پر ان سے دھوکہ ہوا۔ بڑے ہونے کا تکبر اور معاشی طاقت کے غرور نے بھارت کے وجود میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ دنیا خطے کے مستقبل کے حوالے سے پاکستان کے موقف کو تسلیم کرنے لگی ہے۔اسی لئے امریکہ نے بھارت سے انسانی حقوق کے معاملات اور شہریت کے متنازع قانون کے متعلق وضاحت طلب کر لی ہے۔ بھارت کا وسیع و عریض وجود تنازعات میں گھر چکا ہے۔ تنازع کشمیر کا حل کشمیریوں کی مرضی کے مطابق نہ ہوا اور بھارت میں آباد اقلیتوں کے تحفظات دور نہ کئے گئے تو بھارت جلد بہت سے ٹکڑوں میں تقسیم دکھائی دے گا۔