کل کی بات ہے۔ سندھ پانی کی بوند بوند کو ترس رہا تھا۔ دریائے سندھ اترا ہوا تھا۔ کینالوں میں ریت اڑ رہی تھی۔ کسان پریشان تھے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ اگر خشک سالی کا حال ایسا ہی رہا تو وہ فصل کس طرح بوئیں گے اور اگر فصل نہ بوئی گئی تو ان کے بچے کیا کھائیں گے؟ مگر زرداری کے خاندان کو یہ معلوم نہیں کہ کسان کے بچے برگر نہیں کھاتے۔ وہ روٹی کھاتے ہیں۔ وہ روٹی جو ان کے کھیتوں کے گندم سے بنتی ہے۔ جس میں ان کے خاندان کے پسینے کی خوشبو ہوتی ہے۔ مگر کھیت صرف پسینے سے سیراب نہیں ہوتے۔ کھیتوں کو تو پانی چاہیے۔ ارسا سے آنے والا بہت تھوڑا سا پانی تو وہ وڈیرے لے جاتے ہیں جو سرکاری ٹیم کا حصہ ہیں۔ کیا کوئی مجال کر سکتا ہے کہ سندھ میں داخل ہونے والے پانی سے پہلے اپنے کھیت سیراب کرے؟ سندھ میں جتنا بھی پانی داخل ہوتا ہے اس پر زرداری اور اس کی ٹیم کا حق ہوتا ہے۔آصف زرداری جمہوریت کا نام لیتا ہے۔ وہ بڑے زور سے ’’جیئے بھٹو‘‘ کا نعرہ لگاتا ہے مگر وہ وڈیراشاہی پر اعتبار کرتا ہے۔ سندھ میں ان کی پارٹی ان وڈیروں کی پارٹی ہے جو ووٹ مانگتے نہیںہیں۔ چھینتے ہیں۔ اگر ووٹ چھیننا مشکل نظر آتا ہے تو ووٹ خرید کرتے ہیں۔ خرید کیے گئے ووٹ کی کیا اہمیت؟ کیا فروخت شدہ ووٹ اپنا جمہوری حق مانگ سکتا ہے؟ سندھ میں عجیب جمہوریت ہے۔ سندھ میں وڈیروں کی جمہوریت ہے۔ سندھ میں کسان بہت مشکل میں ہیں۔ وہ جب گنے کا فصل اگا کر کاٹتے ہیں تو آصف زرداری کے شگر ملوں میں گنے کے ساتھ ان کی ہڈیاں کرش ہوتی ہیں۔ مگرجمہوریت کے نام پر سب چلتا ہے۔ ان حالات کو دیکھ کر کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ جمہوریت ایک نظام نہیں بلکہ ایک ایسا نقاب ہے جو ڈاکو ڈاکہ زنی کرنے کے لیے اپنے چہرے پر ڈالتے ہیں۔ وہ سیاسی ڈاکو جو عوامی دولت کو لوٹتے ہیں۔جو کسانوں کے پانی پر قبضہ کرتے ہیں۔ کسان پانی کی قلت کے باعث بہت پریشان تھے۔ وہ چیخ رہے تھے۔ ہمارا کیا ہوگا؟ سندھ کے کسان آج بھی چلا رہے ہیں۔ کیوں کہ آج ان کی فریادیں سن کر آسمان کو اس قدر رحم آگیا ہے کہ وہ سندھ پر بادل مسلسل برس رہے ہیں اور وہ رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ اتنی شدید بارش کے باعث سندھ کے کسانوں کے کچے گھر بہہ رہے ہیں۔ سندھ کے غریبوں اور کسانوں کی قسمت بھی عجیب ہے۔ جب پانی نہیں ہوتا تب حالات ان سے کھانے کا حق چھین لیتے ہیں اور جب برسات ہوتی ہے تو وہ اپنے گھر کی چھت سے محروم ہوجاتے ہیں۔اس وقت سندھ کے کسانوں کی حالت بہت غمناک ہے۔ وہ کسان جنہوں نے جیسے تیسے اپنے فصل بوئے وہ سب زیر آب آگئے ہیں۔ بلوچستان کے پہاڑوں کے سائے والے سندھ کے گاؤں تو بہت ہی تکلیف میں ہیں۔ کیوں کہ پہاڑوں سے آنے والے برساتی ریلے ان کا سب کچھ بہالے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ ہمارا میڈیا وہ سب کچھ کور کرنے سے قاصر ہے۔ کیوں کہ ہمارا میڈیا زیادہ تر شہروں تک محدود ہے۔ وہ دور افتادہ دیہاتوں کے دکھ نہیں دکھا سکتا۔ اس لیے سندھ کی سرکار کو کوئی پرواہ نہیں۔ کیوں کہ ان کے کارنامے چھپے رہتے ہیں۔ اگر کوئی پرنٹ میڈیا کا جرنلسٹ حقائق پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا حشر ایسا ہی ہوتا ہے جیسا حشر پابندی عائد ہونے کے باوجود گذشتہ دنوں شکار ہونے والے ہرنوں کا ہوا۔ زرداری سرکار سوچ بھی نہیں سکتی کہ اس پر ایک عام اور غریب صحافی انگلی اٹھائے؟ اس لیے وہ صحافی آخر کس طرح دھرتی کے دکھ دکھائے؟ وہ دھرتی جو کل تک قلت آب کے باعث تڑپ رہی تھی اور آج برساتی موجوں میں غوطے کھاتی نظر آتی ہے۔ سندھ میں پری مون سون برساتوں سے متاثر ہونے والے کسان اس وقت تو اس احساس جرم میں مبتلا ہیں کہ کہیں انہوں نے قلت آب کے دنوں میں کچھ زیادہ دعائیں تو نہیں مانگی کہ پانی رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ کبھی سندھ قلت آب کے باعث تکلیف میں ہوتا ہے اور کبھی برسات کے باعث سیلابی صورتحال میں چیختا چلاتا سنا جاتا ہے۔ اس بار تو سندھ کے ساتھ بہت برا ہوا ہے۔ سندھ کے غریب کسانوں نے پانی کے لیے دعائیں مانگی تھیں اور اب ان کا حال پروین شاکر کے اس شعر جیسا ہوگیا ہے: ’’پیڑ کو دعا دیکر کٹ گئی بہاروں سے پھول اتنے بڑھ آئے؛ کھڑکیاں نہیں کھلتیں‘‘ سندھ میں اس وقت کچھ ایسا ہی منظر ہے۔ حکمران کیا جانیں؟ ان کو کیا معلوم ؟ وہ تو برسات کے موسم میں سامان ساتھ لیکر یہ غزل سنتے ہیں: ’’برسات کا موسم ہے تنہائی کا عالم ہے میں گھر سے نکل آیا بوتل بھی اٹھا لایا ابھی زندہ ہوں تو پی لینے دو بھری برسات میں جی لینے دو‘‘ مگر ہم ان حکمران طبقات کی بات کیوں کر رہے ہیں؟ ان کے لیے تو ہر موسم مزے کا موسم ہوا کرتا ہے۔ وہ موسموں سے ماورا مخلوق ہیں۔ ان کو کیا معلوم کہ موسم کس طرح متاثر کرتے ہیں؟ ہم ان کسانوں کی بات کر رہے ہیں جو اس وقت برسات میں بھیگ رہے ہیں۔ ان کے کچے گھر گر رہے ہیں۔ آس پاس سے لائی گئی لکڑیاں گیلی ہیں۔ وہ سارا دن بھوک برداشت کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔ رات کو بھر بادل بھر آتے ہیں۔ سندھ کے کسان سوچ رہے ہیں کہ وہ کہاں جائیں؟ وہ اپنے دل کا دکھ کسے بتائیں؟ ان کے دل کی کیفیت بالکل اس سرائکی کافی جیسی ہے : ’’مائے میں کنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال؟‘‘ سندھ کے درد سے کوئی آشنا نہیں۔ سندھ جو دیہاتی کلچر کے باعث کسانوں کا دیس ہے۔ مگر کسانوں کے اس دیس پر اب وڈیروں کا راج ہے۔ وڈیرے تو ہمیشہ سندھ پر مسلط رہے ہیں مگر موجودہ حالات میں ان کی پکڑ زیادہ مضبوط ہوگئی ہے۔ وہ اس وقت پہلے سے طاقتور اور حکومت کے نشے میں ہیں۔ سندھ ان وڈیروں کی حکومت میں کس طرح جی رہا ہے؟ اس کی تکلیف کبھی کبھی وہ لوگ بیان کرتے تھے جن کو بڑا ناز رہا ہے کہ وہ مڈل کلاس کی سیاست کرتے ہیں۔ وہ وڈیرہ شاہی کے فطری مخالف ہیں۔ مگر سندھ میں پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنے والی قوتیں کیا کہیں؟ ہر چیز کا دام ہوا کرتا ہے۔ خاص طور پر بازار سیاست میں ہر چیز بک رہی ہے۔ ان بکاؤ چیزوں میں سب سے سستی چیز سیاسی نعرے ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جب سندھ میں کسانوں کے لیے نعرے لگا کرتے تھے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب وڈیرے کسانوں کی سیاست سے گھبرا ئے نظر آتے تھے۔ مگر وہ دور ماضی کے مزاروں میں دفن ہوگیا۔ اب ہم جس دور میں جینے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اس دور میں سیاست سچائی کے ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں۔ جب کہ سیاسی طاقت کے بغیر اس دور میں کچھ نہیں ہوتا۔ کسانوں کے پاس کوئی سیاسی طاقت نہیں ہے۔ کسانوں کے پاس نہ حکومتی سیاست کی طاقت ہے اور نہ حزب اختلاف کی سیاسی طاقت ہے۔ ان کے پاس صرف پانی ہے۔ وہ پانی جس میں ان کے گھر اور کھیت بہتے نظر آتے ہیں۔