سپریم کورٹ کے ہال نمبر ایک میں اگر آپ کو جانے کا موقع ملے تو اس کی دیواروں پر گزرے زمانوں کے چیف جسٹس صاحبان کی تصویریں آپ کو آویزاں ملیں گی۔ اس ہال میں موجود روزانہ آنے والے سائلوں سے اگر آپ ان ماضی کے گرجتے برستے جج صاحبان کے بارے میں سوال کریں تو شاید ہی کوئی ایک دو کے بارے میں تھوڑا بہت جانتا ہو۔ آپ اسی سپریم کورٹ کے قد آدم دروازے کے سامنے رواں دواں سڑک پر لوگوں سے ان چیف جسٹس صاحبان کے بارے میں سوال کرنے لگیں جن کی تصویریں آپ نے وہاں دیکھی تھیں، تو عین ممکن ہے کہ صرف چند لوگ ہی ایک دو چیف جسٹس صاحبان کا تذکرہ کرپائیں۔ البتہ وکلا، صحافی، ادیب اور دانشور اپنے اپنے تعصب کی وجہ سے ان چیف جسٹس صاحبان کی لمبی فہرست میں سے چند ایک کے کارنامے اور چند ایک کی غلطیاں آپ کو بتا سکتے ہیں۔ جسٹس منیر اپنے بدنام زمانہ فیصلوں او رتعصب سے بھری اور قائداعظم کے نام پر جھوٹ گھڑنے والی رپورٹ کی وجہ سے لوگوں کو یاد ہے، کارنیلس اپنے مختلف نام اور کسی حد تک رپورٹوں کی وجہ سے جانا گیا، حمودالرحمن کو سانحہ بنگلہ دیش اور سول ملٹری کشمکش مرنے نہیں دیتی، انوارالحق کو پیپلزپارٹی والے بھٹو کے فیصلے کی وجہ سے یاد کرتے ہیں اور افتخار محمد چودھری تو ابھی کل کا قصہ ہے کہ لوگ اس کی گاڑی کو بوسے دیا کرتے تھے لیکن وقت کی گرد آہستہ آہستہ عقیدت کے وہ تمام نشان مٹاتی چلی جا رہی ہے۔ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان کسی بھی فہرست کو اٹھالیں، آپ کو یہی انجام نظر آئے گا۔ کتنے ہیں جنہیں اس ملک کے صدور، وزرائے اعظم، وزرائے اعلیٰ، چیف سیکرٹریز، حتیٰ کہ ڈپٹی کمشنروں کے اپنے اضلاع تک میں بھی لوگوں کو نام یاد ہوں۔ سب وقت کی تختی پڑھتے ہیں اوراگلی تختی نصب ہوتے ہی پہلے والی کو بھول جاتے ہیں لیکن اللہ نے انسان کو ایسے ہی ’’ظلوماً جہولا‘‘یعنی ظالم اور جاہل نہیں کہا، اس لیے کہ ساری زندگی اس دنیا میں لافانی ہونے، امر کہلانے، رہتی دنیا تک اپنا نام نقش کروانے کی خواہش میں دیوانہ ہو جاتا ہے۔ ایسے ایسے مقاصد زندگی منتخب کرلیتا ہے جن کی تکمیل کے لیے اسے لاتعداد جنم درکار ہوتے ہیں، سوچتا ہے کہ وہ ایک مشعل روشن کرے گا اور لوگ اس مشعلوں کے سلسلوں کو زندہ رکھیں گے لیکن اقتدار کی مسند پر متمکن شخص کو آج تک اندازہ نہیں ہو سکا کہ یہ جو ہجوم ہے جو وارفتگی سے اس کے چاروں جانب طواف کرتا نظر آ رہا ہے اسے اس وقت چھٹتے ہوئے دیر نہیں لگے گی جب آپ اپنی الوداعی تقریب میں موجود ہوں گے اور آنے والے شخص کی تقرری کا پروانہ پڑھا جارہا ہوگا۔ عالی مرتبت چیف جسٹس جناب ثاقب نثار صاحب ، کہ عدالت عظمیٰ پاکستان سے جن کی رخصتی کا بگل بجنے میں تھوڑا سا عرصہ باقی ہے، ڈیم فنڈ کی پرشکوہ تقریبات میں اپنی زندگی کا دوسرا مقصد پاکستان میں آبادی کو کنٹرول کرنے کی مہم چلانے کا بیان کرتے ہیں۔ یہ وہ پرچم ہے جو 1798 میں مالتھس نے اٹھایا تھا اور وہ بھی ثاقب نثار صاحب کی طرح ’’پیغمبرانہ‘‘ لہجے میں بولا تھا کہ اگر ایسے ہی دنیا کی آبادی بڑھتی رہی تو ایک دن ایسا آئے گا کہ دنیا میں خوراک کے ذخیرے ختم ہو جائیں گے اور انسان دوسرے انسانوں کو کھانے لگے گا۔ مالتھس کی اس ’’بشارت‘‘ کو 79 سال بعد 1877ء میں ڈاکٹر ڈریڈل نے اپنی تحریک کا پرچم بنایا۔ اس کے ساتھ حقوق نسواں کی علمبردار اینی بیسنٹ (Annie Besant)مل گئی، جس نے قوانین آبادی"Law of Population" نامی کتاب تحریر کی جس کے پہلے سال ہی ایک لاکھ پچھتر ہزار نسخے فروخت ہو گئے۔ دو سالوں میں پورے یورپ اور امریکہ میں باقاعدہ انجمنیں قائم ہوئیں جنہوں نے لوگوں کو آبادی کم کرنے کے فوائد بتانا شروع کئے جوکہ اس تحریک سے پچاس سال قبل مانع حمل کنڈوم اور ڈایا فرام ایجاد ہو چکے تھے لیکن انہیں اب لوگوں میں عام کرنے کے لیے یورپ میں جابجا آبادی کو کنٹرول کرنے کے کلینک (Birth control clinic) کھولے گئے۔ اس سب کا بنیادی مقصد اس وقت آنے والے صنعتی انقلاب میں مزدوروں کی کھپت بڑھانا تھی۔ عورتیں جب حمل، زچگی اور بچے کی پرورش سے آزاد ہوئیں تو وہ کارخانوں کی زینت بننے لگیں۔ یوں مکروہ سرمایہ دار کی معیشت کو افراد کا ایندھن ملنے لگا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ خواتین جوابھی تک گھر کو اپنی زندگی کا محور اور آئندہ آنے والی نسل کی تربیت کو اپنا مقصد زندگی تصور کرتی تھیں، ایک کاروباری مخلوط معاشرے کا حصہ بن گئیں۔ جہاں سے جنسی استحصال، معاشی تفاوت، خاندانی توڑ پھوڑ اور اخلاقی زوال نے جنم لیا۔ امریکہ چونکہ نسبتاً قدیم روایت کا امین تھا اور یورپ کے مقابلے میں آج بھی ہے، اسی لیے وہاں 1873ء میں Comstoch Act پاس ہوا جس کے ذریعے تمام مانع حمل اور برتھ کنٹرول اشیاء کے اشتہارات پر پابندی لگا دی گئی اور ڈاک کے محکمے کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ ایسی تمام اشیاء ضبط کرلے۔ ٹھیک 65 سال بعد سپریم کورٹ نے مارگریٹ سنگر کی درخواست پر کنڈوم اور ڈایا فرام کے اشتہارات اور فروخت پر پابندی ختم کردی۔ یہ خاتون امریکہ میں برتھ کنٹرول کے تصور کو عام کرنے والی سب سے نمایاں شخصیت تھی اور آج تک دنیا بھر میں برتھ کنٹرول کے منظم طریق کار کی بانی خیال کی جاتی ہے۔ 1950ء میں جب وہ تقریباً 85 سال کی تھی تو اس نے ایک تحقیق شائع کی جس کے تحت اس ضرورت کو اجاگر کیا گیا کہ مانع حمل کنڈوم اور ڈایافرام کی جگہ سائنس کو منہ سے کھانے یا انجکشن والی دوا ایجاد کرنا چاہیے تاکہ انسان اس معاملے میں تمام خطرات سے آزاد ہو جائے۔ اس مقصد کے لیے اس نے ایک لاکھ پچھتر ہزار ڈالر اکٹھا کئے اور اس پراجیکٹ کا آغاز کیا اور یوں 1960ء میں "Enovid" نام کی مانع حمل گولی مارکیٹ میں آ گئی۔ 23 جون کو امریکہ نے اس کی فروخت کی منظوری دی اور 1961ء میں برطانیہ اور کینیڈا میں بھی اس کی فروخت کی اجازت دے دی گئی۔ یہ میڈیکل ہسٹری کی واحد دوا تھی جس کے بے شمار مضر اثرات تھے لیکن اسے ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر استعمال کرنے، خریدنے اور بیچنے کی اجازت دے دی گئی۔ 23 جون 1961ء سے لے کر آج تک اس مانع حمل گولی جسے "The Pill" کہا جاتا ہے نے صرف 57سال کے عرصے میں پوری دنیا کے خاندانی، اخلاقی، معاشرتی، مذہبی، تہذیبی نظام کے ساتھ جو کھلواڑ کیا ہے اور جس طرح کی جنسی اخلاقیات اس دنیا پر مسلط کی ہیں اس کی کہانی تو بہت ہی خوفناک ہے لیکن اس نے اس دنیا کی آبادی پر جو تباہ کن اثرات مرتب کئے ہیں وہ کسی ایٹم بم، جنگ عظیم یا چنگیز و سکندر کے قتل عام نے بھی نہیں کئے تھے۔ میرے سامنے اس وقت چھوٹے موٹے ممالک ملا کر 232 ممالک کی فہرست ہے جس میں سب سے اوپر جنوبی سوڈان ہے جس کی آبادی بڑھنے کی شرح 3.832 ہے اور آخری کک آئی لینڈ کی آبادی گھٹنے کی شرح منفی -2.79 فیصد ہے۔ ان 232 ممالک میں صرف 46 ملک ایسے رہ گئے ہیں جن کی آبادی 2 فیصد کے حساب سے بڑھ رہی ہے جو کسی معاشرے کے استحکام کے لیے ضروری جبکہ باقی 180 ممالک خطرناک انسانی زوال پر گامزن ہیں۔ (جاری)