امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے دنیا بھر سے اعداد و شمار اکٹھا کر کے ہر سال ہر ملک کے حوالے سے اور عالمی معاملات کے بارے میں ایک ضخیم رپورٹ مرتب کرتی ہے جیسے ’’دنیا کے حقائق کی کتاب‘‘ (CIA World Fact Book) کہا جاتا ہے۔ اس میں دنیا کے بارے میں‘ اس کے سیاسی‘ سماجی‘ معاشرتی اور معاشی حالات کے متعلق اعداد و شمار ہوتے ہیں۔ آپ ان معلومات کو اب انٹرنیٹ پر جا کر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اس سال یعنی یکم جنوری 2018ء کو اس سی آئی اے فیکٹ بک میں دنیا کے چھوٹے بڑے 232 ممالک میں آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح "Population Grouth Rate" کا ایک گراف ہے۔ اس گراف کے نیچے اس بڑھتی ہوئی شرح کی تعریف بھی کی ہے‘ جو یہ ہے کہ اس ملک میں اس سال اموات اتنی ہوئیں اور پیدائش کا نمبر یہ تھا۔ ان دونوں کے فرق سے جو فیصد شرح بچی اس کو اس ملک کی آبادی کے اضافے یا کمی کی شرح بتایا گیا۔ اس گراف کے مطابق دنیا میں 190 ممالک ایسے ہیں جن کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ 42 ممالک میں کمی ہورہی ہے لیکن خطرناک بات یہ ہے کہ آبادی میں اضافے والے ممالک میں 145 ممالک ایسے ہیں جن کی آبادی 2.01 فیصد سے کم شرح پر بڑھ رہی ہے‘ یعنی وہاں مسلسل بوڑھوں کی تعداد میں اضافہ اور جوانوں کی تعداد میں کمی ہورہی ہے لیکن پہلے 44 ممالک جن کی آبادی مخصوص تعداد سے زیادہ بڑھ رہی ہے‘ ان میں اکثریت افریقی اور مسلمان ملکوں کی ہے۔ صرف ایک یورپی ملک برٹش ورجن آئی لینڈ ایسا ہے جس کی آبادی 2.25 فیصد کے حساب سے بڑھ رہی ہے اور اس کی وجہ شاید ہے کہ وہاں آف شور کمپنیاں بنانے کی آزادی ہے‘ اس لیے دنیا بھر کے لٹیرے وہاں جا کر آباد ہورہے ہیں۔ پاکستان کا اس فہرست میں 80 نمبر ہے اور اس رپورٹ کے مطابق ہماری آبادی 1.43 فیصد کے حساب سے بڑھ رہی ہے جو دنیا کے تمام ماہرین آبادی کے اندازوں کے مطابق کسی بھی معاشرے کو مستحکم رکھنے کی مطلوب معیار سے کم ہے لیکن تقریباً تیس سال بعد اس ’’برتھ کنٹرول‘‘ کے سوئے ہوئے مردے میں جان ڈالنے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے۔ آبادی کے ماہرین اسے "Replacement Portility" کہتے ہیں۔ یعنی آبادی کے برتن سے اموات کی صورت جتنے لوگ نکل رہے ان کی جگہ نئے آنے والوں کی شرح اگر 2.1 فیصد سے زیادہ نہ ہوگی تو اس ملک‘ علاقے اور معاشرے میں کارآمد لوگوں کی کمی ہو جائے گی اور بوڑھوں کے زیادہ ہونے کی وجہ سے کمانے والے ہاتھ کم اور کھانے والے منہ زیادہ ہو جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم دو والدین کی جگہ دو بچے ضروری ہیں اور تیسرا اس لیے ضروری ہے کہ اگر مرد ہی پیدا ہورہے ہیں تو آئندہ نسل کے لیے ایک بچی کا دنیا میں آنا لازمی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جدید سائنس نے جو ترقی کی ہے اس کی وجہ سے عمروں میں اضافہ ہونے لگا ہے اور یوں کسی بھی ملک میں ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے بیروزگار اور معاشرے پر مستقل بوجھ افراد میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ پاکستان کی آبادی اس مطلوب تعداد سے بہت کم رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ ایک زمانہ تھا‘ جب 1958ء میں دنیا بھر کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی برتھ کنٹرول کا پروگرام امریکہ کی امداد سے شروع کیا گیا تھا۔ یہاں تک اس میں کام کرنے والوں کی تنخواہیں تک بیرونی امداد سے دی جاتی تھیں۔ ایک بہت بڑی این جی او پاپولیشن پلاننگ آف پاکستان وجود میں آئی تھی جسے بے تحاشہ غیر ملکی فنڈز میسر تھے۔ تقریباً 25 سال تک یہ پروگرام بہت زور شور سے چلا۔ لیکن 25 سال بعد اس کو مدد دینے والے ممالک کو یہ احساس ہوا کہ ہم جس تیسری دنیا خصوصاً مسلمان ممالک کی آبادی کم کرنا چاہتے تھے‘ وہ تو اس معاملے میں بہت سست ہیں لیکن یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک آبادی کی کمی کے بحران کا شکار ہو چکے ہیں اور خطرہ ہے کہ ایک دن ان کی نسل ہی معدوم نہ ہو جائے۔ اس سے مغربی دنیا کو ایک شدید خطرہ محسوس ہونے لگا کہ ویران یورپ کے شہروں کو ایشیا اور افریقہ کے لوگ آ کر آباد کریں گے‘ وہ نوجوان بھی ہوں گے اور کارآمد بھی جبکہ یورپ والے بوڑھے بھی ہوں گے اور ناکارہ بھی۔ 1990ء میں کلاڈی جین Claude Jean کی کتاب "The Africanization of Europe" (یورپ کا افریقہ میں بدلنا) سامنے آئی تو اس میں موجود اعداد و شمار نے طوفان کھڑا کردیا۔ سی آئی اے ایک بار پھر جاگی اور اس کی 1995ء کی رپورٹ "Political Perspection on key issue" اس طرف اشارہ کیا کہ اگر ایشیا اور افریقہ کی آبادیاں ایسے ہی بڑھتی رہیں تو ایک دنیا کی سیاسی طاقتوں کا نقشہ بدل جائے گا۔ ان کا خوف یہ ہے کہ یہ آبادیاں انتہا پسند ہو جائیں گی او ران پر چڑھ دوڑیں گی۔ اگست 90ء کی رپورٹ کہتی ہے کہ 2010ء میں 29 ممالک میں نوجوانوں کی کمی ہوگی اور یہ سب ترقی یافتہ ممالک ہوں گے اور اپنا نظام چلانے کے لیے انہیں یہ نوجوان ایشیا اور افریقہ سے منگوانے پڑیں گے۔ اس خطرے کا فوری تدارک ضروری تھا۔ مشہور کسنجر پالیسی تھی کہ "We have to strategically reduce muslim population if possible, and Militarily if necossary." ’’ہمیں مسلمانوں کی آبادی میں ایک حکمت عملی کے ساتھ کمی لانا ہوگی اور اگر ایسا ممکن نہ ہوا تو پھر ہمیں فوج کا استعمال کرنا ہوگا۔‘‘ اس خطرے کی بو سونگھتے ہی وہ تمام مسلمان ممالک جہاں آبادی میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ تھی وہاں کسی نہ کسی بہانے جنگ چھیڑ دی گئی۔ عراق‘ افغانستان‘ شام‘ مصر‘ لیبیا‘ سوڈان‘ یمن وہ ممالک ہیں جہاں آبادی 2.50 فیصد سے زیادہ شرح سے بڑھ رہی تھی۔ وہاں ایسی آگ و خون کی ہولی کھیلی گئی کہ شہر کے شہر ویران کردیئے گئے۔ افریقہ میں خانہ جنگیوں کو فروغ دیا گیا اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے وہاں زرعی وسائل پر قبضہ کر کے قحط تحفے میں دیا گیا۔ اب یہ لوگ مطمئن تھے کہ یہ سب لوگ اپنے اپنے دکھوں میں الجھ گئے ہیں‘ موت ان کے دروازوں پر رقص کر رہی ہے لیکن گزشتہ دس سال سے پاکستان ان منصوبہ سازوں کی نظروں میں کھٹکتا تھا۔ روز اس بات پر بحث ہوتی کہ یہاں ساٹھ فیصد سے زیادہ نوجوان ہیں۔ یہ شدت پسند ہو گئے تو دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔ فرقہ واریت‘ لسانیت اور دہشت گرد کا بیج بویا گیا۔ اڑتالیس غیر ملکی سفارت خانوں نے این جی اوز کو مدد فراہم کی لیکن یہ کیا بائیس کروڑ ہی سے صرف 75ہزار کی جانیں گئیں۔ سر جوڑ کر بیٹھ گئے‘ کیا کریں۔ ایٹمی ملک ہے اس پر جنگ بھی مسلط نہیں کی جا سکتی‘ یہ تو عالمی خطرہ بن جائے گا۔ پاکستان کے بارے میں دنیا واپس 1958ء میں لوٹ گئی‘ جب سی آئی اے نے آبادی کے کنٹرول کا پروگرام جان ہاپکنز انسٹیٹیوٹ سے شروع کروایا تھا۔ پاکستان کو کسی جنگ‘ دہشت گردی‘ فرقہ واریت کی ضرورت نہیں اگر اس کے ارباب اختیار اس کو آبادی کے خوف سے ڈرائیں گے‘ یہ خوف نہیں ذمہ داری سے آزادی‘ تعیش اور اخلاقی زوال بھی ہے۔ اگر اس کے ارباب اختیار اس قوم پر یہ میزائل داغتے رہے تو پھر اس ملک کو تباہ کرنے کے لیے کسی اور بم کی ضرورت نہیں پڑے گی۔