جی میں آتا ہے کہ دیکھوں اس زمیں کو کاٹ کر مجھ ہوائے خاک پر یہ کیسے نکلے بال و پر اے مری گلگشت تتلی لوٹ کر تو آ کبھی اس جہان رنگ و بو کی لا کوئی تازہ خبر اپنے موضوع کی طرف آنے سے پہلے یہ شعر بھی ضروری ہے ہیںمثال برف ہم بھی کوہقانوں میں پڑے۔اک شرارہ ہی اٹھا تو اے ہوائے تیز تر۔ اصل میں ہمارے ہاں وہ شرر شرارہ یا چنگاری راکھ میں دبی ہوئی ہے۔ہم راکھ میں انگلیاں نہیں پھیریں گے کہ ہمیں تو ایک نہایت دلچسپ صورت حال کی طرف آپ کو لے کر جانا ہے ایک بھارتی چینل کا پروگرام نظر نواز ہوا تو میں نے آج تک اتنا مزاحیہ پروگرام اس پیشتر نہیں دیکھا تھا ایک اینکر کی ایسی آہ و زاری اور خواری کہ بس بندہ دیکھتا ہی رہ جائے۔ پہلے میں واقعہ کی مناسبت سے قتیل شفائی کی بات ضرور لکھوں گا کہ جب وہ بھارت کے دورے سے آئے تو مجھے بتانے لگے شاہ صاحب ! وہاں ہم شعرا جہاں بھی جاتے تو میرا استقبال ہوتا۔ میری وہاں ایسے عزت ہو رہی تھی جیسے کہ دوسرے شاعروں کی بے عزتی ہو رہی تھی۔ یہ بات مجھے بھارتی میڈیا کی چیخ و پکار سے ظاہر ہوئی کہ طالبان کی دنیا بھر میں جو عزت ہو رہی ہے وہ دراصل بھارت کی بے عزتی ہو رہی ہے۔ ویسے یہ رسوائی بھارت نے خود کمائی ہے۔دوسری بات یہ بھارت رسوائی پاکستان کی نیک نامی کے مترادف ہے: جتنی بھی رسوائی تھی میں نے آپ کمائی تھی میں نے وہ ویڈیو شیئر بھی کی اور پھر وہ شیئر ہوتی گئی۔اس ویڈیو میں ایک اینکر امریکہ پر لال پیلا ہو رہا ہے اس کے دکھ کا آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ شاید وہ اس گھائو سے تلملاتا ہوا میں چل بسے۔کہتا اس کا یہ تھا کہ دیکھو اس جوبائیڈن نے کیا کیا ہے وہ غصے میں جوبائیڈن کو چچا جوبائیڈن کہہ رہا تھا کہنے لگا دیکھو تو کیسے پندرہ ہزار بکتر بند گاڑیاں چچا بائیڈن نے طالبان کے لئے چھوڑی ہیں۔اس کے بعد اس نے جہازوں اور دوسری اشیا کی تعداد گنوائی۔وہ چلاتے ہوئے بتا رہا تھا کہ اتنا اسلحہ تو پاکستان اور آزاد روسی ریاستوں کے پاس بھی نہیں اس کی باتوں سے خدشہ ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ اسلحہ بھارت کے خلاف استعمال ہو گا۔ طالبان بھارت کے اینکرز کے سر پر بری طرح سے سوار ہیں۔ان کا ایک اور اینکر دہائیاں دے رہا تھا کہ مودی ایک اور غلطی کرنے جا رہا ہے۔وہ اس عمل کو انتہا درجے کی حماقت بتا رہا تھا کہ بھارت تاجکستان کے رستے پنج شیر میں طالبان کے خلاف ایئر فورس بھیج رہا ہے۔اینکر چیخ رہا تھا کہ بھلا طالبان سے پنگا لینے کی کیا ضرورت ہے کہ آپ طالبان کو موقع فراہم کریں گے کہ وہ کشمیر میں اپنے جنگجو بھیج دے۔ایک عجیب تماشہ لگا ہوا ہے۔سب اپنی اپنی ہانک رہے ہیں۔ایک تو کہہ رہا تھا کہ طالبان کے قبضہ سے لے کر اب تک پاکستان کی فوج خاص طور پر آئی ایس آئی ان کی مدد کر رہی ہے‘امریکہ کے چھوڑے ہوئے جہاز اور ایئر کرافٹ پاکستانی پائلٹ ہی اڑا رہے ہیں۔طالبان تو ٹھیک سے سائیکل نہیں چلا سکتے۔ ان کا میڈیا یہ بھی دکھا رہا ہے کہ جنرل حمید گل نے پیشین گوئی کی تھی جو پوری ہو رہی ہے ویسے حمیدگل صاحب کے اس بیان پر تو خیرانی ہوتی ہے کہ انہوں نے فرمایا تھا کہ پاکستان کی آئی ایس آئی نے پہلے امریکہ کی مدد سے روس کو شکست دی اور اب آپ یاد رکھیں کہ پاکستان امریکہ کی مدد سے امریکہ کو افغانستان میں شکست دے گا۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ امریکہ کو بھی مکمل شک ہے کہ پاکستان نے انہیں یہاں الجھا کر ذلیل کیا۔مجھے حمید گل بہت یاد آئے کہ ان کی وفات پر ان کے لیے دو شعر کہے تھے: یہ کیا ہوا کہ اک مرے مرنے کی دیر تھی یکم دم ہی جی اٹھے مرے دشمن مرے ہوئے بات چل نکلی ہے تو پہلے منور رانا کا ایک خوبصورت نمائندہ شعر پڑھ لیں۔کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکان آئی۔میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی۔اینکر نے منور رانا سے طالبان کے حوالے سے کہا کہ یہ طالبان کیا کر رہے ہیں۔منور رانا نے کہا کہ جو کرتے ہیں کرنے دو تمہیں ان کی اتنی فکر کیوں۔تم ان سے حساب مانگ رہے ہو تم کوئی بھگوان ہو اللہ میاں یا کچھ اور۔اینکر نے کہا کہ یہ طالبان اپنے ہی مسلمانوں کو کیوں مار رہے ہیں۔منور رانا نے کہا کہ کیا وہ آ کر ہندوئوں کو ماریں۔آپ اپنے بھارت کی فکر کریں جہاں ہندو بہانے بہانے سے ہندوئوں کو مارتے ہیں۔ہم تو خوش ہو گئے کہ ایک شاعر نے اپنا حق ادا کیا کہ مکار ہندو اینکر حواس باختہ کر دیا۔چلیے آپ کو منور رانا کے دو خوبصورت اشعار پڑھا دیتے ہیں: منزل قریب آئی تو اک پائوں کٹ گیا چوڑی ہوئی سڑک تو مرا گائوں کٹ گیا ہم سے محبت کرنیوالے روتے ہی رہ جائیں گے ہم جو اک دن سوئے تو پھر سوتے ہی رہ جائیں گے ایک اور شعر ذھن میں آ گیا‘ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ ہو نہیں سکتا۔میں گھر سے جب نکلتا ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہے۔آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ منور دنیا کے واحد شاعر ہونگے جن کا ماں کے حوالے سے پورا شعری مجموعہ ہے۔ظاہر یہ تخصیص انہیں ممتاز کرتی ہے وہ کراچی آئے تو انہوں نے مہاجروں کے حوالے سے بھی اشعار سنائے۔میں ایک بات تو بھول گیا کہ مودی نے باقاعدہ منور رانا کو ٹارگٹ کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔ میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ یہ جو اردو والے ہیں وہ مسلمانوں کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں۔یہ یہاں بھی ہماری طاقت ہیں انکے ساتھ تعصب میں انہیں مظلوم سے ظالم کہا جاتا ہے۔ابھی میری عقیل عباس جعفری سے اسی ٹاپک پر بات ہو رہی تھی اور وہ گلہ کر رہے تھے کہ امسال کراچی کے کسی اردو سپیکنگ کو ایوارڈ نہیں ملا منور رانا کے ایک شعر کے ساتھ اجازت: میں پھوٹ کے رونے لگا جب موت کے ڈر سے نیکی نے کہا نامہ اعمال میں ہم ہیں