مقبوضہ کشمیر کے موجودہ حالات میں عالمی برادری کی تنقید پر بھارت بجائے شرمندہ ہونے کے مزید شیر بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ شاید بھارت نے ہمارے امن کی خواہش کو کمزوری سمجھ لیااسی لئے پہلے تو مذاکرات سے ہی انکارکر دیا اور اب بھارتی حکومت اور بھارتی آرمی چیف ہمیں دھمکیاں بھی دینے لگے ہیں۔ جنرل بپن راوت کا کہنا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ پاکستانی افواج سے بدلہ لیا جائے۔ پاکستان کو جنگ کا درد محسوس کرانا چاہتے ہیں۔ جنرل بپن راوت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنی خفت مٹانے کی کوشش میں مزید ہرزہ سرائی کی کہ پاک فوج کیخلاف سخت کارروائی کی ضرورت ہے۔ساتھ ہی انہوں نے خطے میں اسلحے کی دوڑ جاری رکھنے کا عزم دہراتے ہوئے کہا کہ بھارت ہر قسم کے ہتھیاروں کی خریداری جاری رکھے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت کی پالیسی بالکل واضح اور جامع ہے۔ مذاکرات اور دہشتگردی کو ایک ساتھ لے کرنہیں چل سکتے۔ بھارتی آرمی چیف کی گھبراہٹ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ یہ کہہ کر کہ حکومت نے انہیں کارروائیاں جاری رکھنے کی مکمل آزادی دی ہوئی ہے اور وہ مقبوضہ کشمیر، شمالی اور مشرقی علاقوں میں آزادانہ کارروائیاں کررہے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں ظالمانہ کارروائیوں کا بھی اعتراف کر بیٹھے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جنرل راوت کا کشمیر بارے بیان داخلی مسائل سے دوچار مودی سرکار کو سہارا دینے کی ناکام کوشش ہے لیکن اس سے وادی میں بھارتی دہشت گردی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ دوسری طرف اسے بھارتی فوج پر عائد کرپشن کے الزامات اور عالمی سطح پر کشمیر کی صورتحال سے توجہ ہٹانے کی بھونڈی کوشش بھی کہا جا سکتا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے دھمکیوں کا کرارا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی آرمی چیف کا بیان کشمیر میں ناکامی کا عکاس ہے۔اس کا مقصد دنیا کی توجہ کشمیر سے ہٹانا اور پاکستان کو دہشت گرد ملک ثابت کرنا ہے۔ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں حالات قابو میں رکھنے میں ناکام ہو چکی۔ بھارت کے کسی بھی مس ایڈونچر سے خطہ کے امن کو شدید نقصان ہو گا۔پاکستان کی مسلح افواج ہر قسم کی جارحیت کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔اگر کسی نے ہمارے صبر کا امتحان لیا تو پاک فوج قوم کو مایوس نہیں کرے گی۔ پاکستان جنگ کے لیے تیار ہے۔ بھارت یہ حقیقت مان لے کہ مقبوضہ کشمیرکے عوام کی آواز دبائی نہیں جا سکتی۔صاف ظاہر ہو رہاہے کہ بھارتی آرمی چیف کا بیان کشمیرمیں ناکامی پرجھنجلاہٹ کی نشانی ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی جس پر پاکستان نے خوب احتجاج کیا لیکن بھارت نے اس معاملے پر تحمل اور سمجھداری سے کام لینے کی بجائے آزاد کشمیر پر اپنی گندی نظر ڈالی جس پر بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بھی بیان دیا کہ پاکستان سے مذاکرات مقبوضہ پرنہیں آزاد کشمیر پرہوسکتے ہیں۔ ابھی بھارتی وزیر داخلہ کی بڑھک کی گونج ہی کم نہیں ہوپائی تھی کہ کشیدہ صورتحال میں کمی لانے کی بجائے بھارتی فوج کے سربراہ نے بھی ایسی ہی ایک بڑھک مار دی ہے جس پر بھارتی میڈیا خوب بڑھ چڑھ کر کوریج کر رہا ہے۔بپن راوت نے ایک قدم بڑھاتے ہوئے یہ کہا ہے کہ بھارتی فوج آزاد کشمیر میں فوجی کارروائی کے لیے تیار ہے۔ فوجی کارروائی کا فیصلہ سیاسی حکومت نے کرنا ہے۔ صرف بھارت ہی نہیں ساری دنیا کو معلوم ہے کہ رواں سال فروری میں بھارتی ائرفورس نے مہم جوئی کی کوشش کی تھی تو اسے منہ کی کھانی پڑی تھی بھارتی فضائیہ کے دو طیارے تباہ ہوئے تھے اور ابھی نندن نامی بھارتی پائلٹ کو بھی پاکستان نے گرفتار کر لیا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ کنٹرول لائن کی خلاف ورزی پرپاک فضائیہ کے جانبازوں سے اپنے طیارے تباہ کرانے والے آزاد کشمیر پر قبضے کے دعوے کرنے لگے ہیں۔ اب بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان 1965 اور 1971 والی غلطی دہرانے سے گریز کرے ۔اگر پاکستان نے ایسی کوئی غلطی کی تو دنیا کی کوئی طاقت اسے بچانے میں کامیاب نہیں ہو گی۔ اب اگر کبھی پاکستان سے بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ آزاد کشمیر کی حوالگی کے علاوہ کسی اور موضوع پر نہیں ہو گا۔ ان دھمکیوں کے جواب میں عرض ہے کہ پاکستان مسلمہ جوہری طاقت ہے۔ بھارتی وزیر دفاع، وزیر داخلہ اور آرمی چیف کی دھمکیوں سے مرعوب ہونے والے نہیں۔ہم یہ کہتے ہیں جنگ مسائل کا حل نہیں ہاں اگر ہندوستان کو جنگ کا شوق پورا کرنا ہے تو کر لے پاکستان اس کے لیے تیار ہے۔دراصل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عالمی حمایت نہ ہونے پر بھارت ایسے بیانات دے رہا ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو دنیا کے سب سے بڑے جیل خانے میں تبدیل کر دیا ہے۔وہ مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشتگردی کا مرتکب ہو رہا ہے جس کے باعث مقبوضہ وادی میں انسانی بحران اور المیہ جنم لے چکا ہے۔ایسے بے بنیاد بیانات سے حقیقت تبدیل ہو سکتی ہے نہ عالمی رائے عامہ کو گمراہ کیا جا سکتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ بھارت حقائق کو تسلیم کر کے مثبت اقدامات کرے۔