سلطان محمود غزنوی کے نصاب میں فقہ کی تدریس کے لئے صرف ’’ہدایہ‘‘ شامل نصاب رہا جب کہ سکندر لودھی کے نصاب میں ان کے ساتھ ’’شرح وقایہ ‘‘کا بھی اضافہ ہوا۔سلطان محمود غزنوی کے دور کے نصاب میں ’’اصول فقہ ‘‘کی تدریس کے لیے دو کتابیں تھیں جبکہ سکندر لودھی کے نصاب میں ان کے ساتھ’’تلویح‘‘ کا اضافہ کر کے کتب مقررہ کی تعداد تین کی گئی۔ چار مضامین(تفسیر‘ حدیث‘تصوف اور ادب) کے کتب مقررہ میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا‘ چنانچہ دونوں نصابوں میں ان مضامین کے لئے کتب مقررہ یکساں رہیں۔ سکندر لودھی کے نصاب میں منطق کے مضمون میں ایک کتاب’’شرح مطالع‘‘ کا اضافہ اور ’’کلام‘‘ کے مضمون میں دو مزید کتابوں کا اضافہ کیا گیا۔ عہد سلاطین کے تعلیمی نظامی کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ ’’صدر الصدور‘‘ کی یہ اہم ذمہ داری تھی کہ وہ نامور علماء اور اساتذہ کی تلاش کرتے اور پھر بادشاہ کے حضور ان کی سفارش کرتے‘ تاکہ یہ حضرات بنیادی ضروریات میں خود کفیل ہو کر پوری دلجمعی سے تعلیمی خدمات سرانجام دیں۔ سکندر لودھی کے نصاب میں سلطان محمود غزنوی کے دور کے نصاب میں کوئی کمی نہیں کی گئی بلکہ اسے باقی رکھتے ہوئے چند کتب کا اضافہ کیا گیا‘ اس طرح سکندر لودھی کا نصاب سلطان محمود غزنوی کے دور کے نصاب ہی کا تسلسل ہے‘ تاہم سکندر لودھی کا دور معقولات و فلسفہ کے عروج کا دور تھا اور معقولات میں کمال ہی کو معیار فضیلت سمجھا جاتا تھا‘ اس لئے معقولی کتب کا اضافہ کیا گیا۔ ملا بدایونی اور مولانا غلام علی آزاد بلگرامی دونوں کی تحقیق یہ ہے کہ سکندر لودھی کے دور میں شیخ عبداللہ اور شیخ عزیز اللہ نے ہندوستان میں معقولات متعارف کرائیں ورنہ ان سے پہلے لوگ منطق میں ’’قطبی‘‘اور علم کلام میں’’شرح صحائف‘‘ کے علاوہ کسی دوسری کتاب کا نام بھی مشکل سے جانتے تھے۔ درس نظامی کی تشکیل میں سکندر لودھی کے دور کے نصاب میں سے ‘فقہ میں شرح وقایہ‘اصول فقہ میں تلویح ‘ کلام میں شرح عقائد نسفی اور شرح مواقف‘ نحو میں شرح جامی‘ بلاغت میں مطول و مختصر المعانی موجودہ درس نظامی میں شامل ہیں‘اس طرح درس نظامی میں سکندر لودھی کے دور کے نصاب کا بھی مناسب حصہ نظر آتا ہے۔ دور اکبری(1556-1605ئ) میں مدارس کا نصاب:مغلیہ عہد(1766-1526ئ) تقریباً اڑھائی سوسال پر محیط ہے‘ مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین محمد بابر کا بیٹا اور جانشین ہمایوں علم و ادب کا دلدادہ تھا۔ عہد اکبری میں برصغیر کے نظام تعلیم میں کئی نصابی تبدیلیاں رونما ہوئیں‘ جس کی وجہ سے اکبری دور کے نصاب تعلیم کو ہندوستانی تعلیم کی تاریخ کا تیسرا دور قرار دیا گیا ہے جو عالمگیر کے عہد کے اختتام تک جاری رہا۔ اکبر مذہبی آزادی کا زبردست حامی تھا۔ اس وجہ سے اس کا دربار فلسفہ و حکمت کے علماء سے بھرا رہتا تھا۔ اکبر کو پتہ چلا کہ معقولات کا مشہور عالم میر فتح اللہ شیرازی بیجا پور آیا ہوا ہے تو اکبر نے والئی بیجا پور(عادل خان دکنی)کے نام ایک فرمان جاری کیا اور میر فتح اللہ شیرازی کو اپنے دربار میں بلوایا‘ اسے اپنے دربار میں منصب وزارت سے نوازا۔ فتح اللہ شیرازی ایران و خراسان وغیرہ کے علمائے متاخرین کی تصانیف ہندوستان لائے اور انہیں حلقہ درس میں شامل کیا۔ اس نے کئی مضامین و کتب کا نصاب میں اضافہ کیا۔ حکومتی سرپرستی اور علماء وقت کی عملی تائید سے میر فتح اللہ شیرازی کے تیار کردہ نصاب کو ہندوستان کے دینی نظام تعلیم میں قبولیت عام حاصل ہوئی۔ مغل دربار میں ایرانی علماء کی آمد اکبر کے دور سے نہیں بلکہ اس سے پہلے شروع ہو چکی تھی‘ چنانچہ اس کے والد ہمایوں نے جب 1540ء میں شیر شاہ سوری سے شکست کھائی اور وہ ہندوستان کی طرف سے بالکل مایوس ہو گیا تو اس نے ایران کا رخ کیا۔ ایران کا بادشاہ طہماسپ صفوی اس کے ساتھ بڑے حسن سلوک سے پیش آیا اور جب ایک عرصہ قیام کے بعد ہمایوں نے واپسی کا ارادہ ظاہر کیا تو اسے فوج دی جس کی مدد سے اس نے 1545ء میں قندھار اور 1550ء میں کابل فتح کیا۔1555ء میں ہندوستان آیا اور دہلی و آگرے پر قابض ہو گیا۔ جب ہمایوں سفر ایران کے بعد ہندوستان واپس آیا تو اس کے ساتھ بے شمار ایرانی سپاہی‘ امراء اور علماء کا ایک گروہ تھا۔ اس وقت سے ایران اور ہندوستان کے تعلقات دوستانہ ہو گئے۔ اس سے پہلے بھی غزنوی خاندان کے وقت سے ہندوستانی مسلمانوں کی ادبی اور درباری زبان فارسی تھی اور ایران سے ماہرین علم و فن ہندوستان آتے رہتے تھے‘ لیکن ہمایوں کے بعد یہ سلسلہ بہت وسیع ہو گیا۔ ان ماہرین علم و فن کی آمد علوم و فنون کی اشاعت اور اسلامی تہذیب و تمدن کی تشکیل میں بہت مفید ثابت ہوئی اس طرح مغلیہ حکومت کے استحکام اور قرار میں بھی ایرانی ذہانت اور تدبر کو بڑا دخل تھا۔ ایرانی علماء و مفکرین کی ہندوستان آمد کا تجزیہ کرتے ہوئے اسلامی ہندو پاک کی مذہبی اور علمی تاریخ کے مشہور مؤرخ شیخ محمد اکرام کہتے ہیں کہ: عام طور پر شیعوں نے ملی مفاد کو مدنظر رکھا اور اپنی ذہانت‘ بلند نظری اور قابلیت سے ہماری تمدنی اور ادبی تاریخ میں کئی رنگین باب کااضافہ کیے۔ اہل سنت حضرات نے بھی بالعموم اُن سے دوستی اور رواداری کا سلوک کیا اور غالب کو اردو کا بہترین شاعر‘ آزاد کو اردو کا بہترین نثر نگار اور رائٹ آنریبل سید امیر علی کو اسلام کا بلاد مغرب میں بہترین ترجمان سمجھتے‘ اس وقت کسی کو ایک لمحہ کے لئے خیال نہیں آتا کہ وہ شیعہ تھے یا سنی۔ ایرانی ثقافت اور ایرانی علمی سرمایہ کے متعلق علامہ اقبالؒ بھی بڑے پایہ کے خیالات رکھتے تھے وہ کہتے ہیں:ایران‘معرکہ نہاوند نے عربوں کو نہ صرف ایک دل فریب سرزمین کا مالک بنا دیا بلکہ ایک قدیم قوم پر مسلط کیا جو سامی اور آریائی مصالحے سے ایک نئے تمدن کا محل تعمیر کرنے کی قابلیت رکھتی تھی۔ ہمارا اسلامی تمدن سامی تفکر اور آریائی تخیل کے اختلاط کا ماحصل ہے جب ہم اس کے خصائل و شمائل پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کی نزاکت اور دل ربائی اسے اپنی آریہ ماں کے بطن سے اور اس کا وقار و متانت اسے اپنے سامی باپ کے صلب سے ترکے میں ملا ہے‘ فتح ایران کی بدولت مسلمانوں کو وہی گراں مایہ متاع ہاتھ آئی جو تسخیر یونان کے باعث اہل روما کے حصے میں آئی تھی اگر ایران نہ ہوتا تو ہمارے تمدن کی تصویر بالکل یک رخی رہتی۔ دور اکبری میں میر فتح اللہ شیرازی کا تیار کردہ دینی نصاب درج ذیل تھا۔1۔تفسیر‘ 2۔ حدیث‘ 3۔ فقہ‘4۔ اصول فقہ‘ 5۔تصوف‘ 6۔ نحو ‘ 7۔ بلاغت‘ 8فلسفہ‘ 9۔ کلام‘ 10۔منطق‘11۔ ہئیت‘ 12۔ حساب‘ 13۔طب۔ عہد اکبری میں حدیث کے نصاب میں اضافہ کردہ کتاب’’مشکوٰۃ المصابیح‘‘ اصول فقہ میں دور اکبری کی اضافہ کردہ کتاب’’توضیح‘‘ اور فلسفہ و حکمت کی کتاب’’شرح ہدایۃ الحکمتہ‘‘ کو درس نظامی میں شامل کیا گیا‘ اس طرح درس نظامی کی تشکیل میں دور اکبری کے نصاب سے بھی استفادہ کیا گیا۔’’تدوین نصاب‘‘ کا چوتھا دور:مذکورہ تین نصابات کے جائزے سے یہ امر پوری طرح عیاں ہے کہ ان میں ’’تصوف‘‘ کی تدریس بنیادی اور اہم مضمون کے طور پر جاری رہی‘ مدارس دینیہ کے نصاب کی تدوین کا چوتھا دور اٹھارہویں صدی عیسوی میں ملا نظام الدین سہالوی کے ہاتھوں عمل میں آیا۔