دو دن قبل روزنامہ 92 نیوز میں میرا کالم ’’ سرائیکی کلچرل ڈے سرکاری سطح پر منایا جائے ‘‘ شائع ہوا تو اس کا بہت اچھا رسپانس آیا اور بندہ ناچیز کو حوصلہ ہوا کہ نہ صرف یہ کہ کالم پڑھا جاتا ہے بلکہ اس پر رد عمل بھی سامنے آتا ہے ۔ مجھے خوشی ہوئی کہ سیکرٹری اطلاعات و ثقافت محترم راجہ جہانگیر انور نے فون کیا اور میرے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پنجاب سرائیکی کلچرل ڈے بھی منائے گی ، اس سلسلے میں متعلقہ شعبہ جات اور وسیب کے آرٹس کونسلوں کو ہدایت کی جا رہی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ کے کالم سے ہمیں سرائیکی خطے کے مسائل کا ادراک ہوتا ہے ، حکومت کی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ وسیب کے مسائل حل کئے جائیں ۔ اسی طرح وزیراعلیٰ سردار محمد عثمان خان کی ترجمان محترمہ سمیرا ملک کا بھی فون آیا کہ وزیراعلیٰ اپنے علاقے سے محبت کرتے ہیں اور وہ یقینا وسیب کے مسائل حل کریں گے ۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر الحمراء لاہور محترم اطہر علی خان ، ڈائریکٹر محترم ذوالفقار ذلفی اور بہاولپور آرٹس کونسل کے پروگرام آفیسر ذکاء اللہ ملک نے بھی فون کر کے کالم کو پسند کیا اور روزنامہ 92 نیوز کے ساتھ ساتھ بندہ ناچیز کو مبارکباد دی ۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ مجھے خوشی ہے کہ سرکاری سطح پر وسیب کے موقف کو تسلیم کیا گیا اور فون کر کے حوصلہ افزائی کا اظہار ہوا تو مجھے شعر یاد آیا ’’ برسوں کی اسیری سے رہا ہونے لگے ہیں ہم آج تیرے لب سے ادا ہونے لگے ہیں ‘‘ اس حوصلہ افزائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں حکام بالا خصوصاً وزیر اعظم عمران خان اور چیئرمین فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی توجہ ایک اہم مسئلے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں ، وہ اہم مسئلہ ہے ’’ سی ایس ایس کا امتحان ‘‘۔ چند دن قبل میں نے وزیراعظم عمران خان کی خدمت میں ایک چٹھی بھیجی تھی کہ صوبے کے مسئلے پر وعدے ہو رہے ہیں ، وسیب کے پڑھے لکھے نوجوانوں کا مطالبہ ہے کہ جب تک صوبہ نہیں بن جاتا ، سی ایس ایس کا کوٹہ الگ کیا جائے کہ اس کی پہلے سے مثال موجود ہے۔ سندھ چھوٹا صوبہ ہے اس کے دو زون ہیں اور پنجاب اتنا بڑا صوبہ ہے یہاں ایک زون تھا وہ بھی ختم کر دیا گیا یہ ظلم اور ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے ؟یہ اقدام امتیازی ہونے کے ساتھ ساتھ غیر انسانی بھی ہے کہ وسیب کے نوجوانوں کا فیوچر ختم ہو رہا ہے اور وہ نفسیاتی مریض بن رہے ہیں ۔ سی ایس ایس کا کوٹہ سرائیکی وسیب کو آبادی کے مطابق ملنا چاہئے ۔ سی ایس ایس کے صوبائی کوٹہ کا مقصد پسماندہ علاقوں اور صوبوں کو ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لانا تھا ، پنجاب میں اس کا الٹ اثر ہوا کہ پسماندہ سرائیکی علاقے کی آبادی کو شمار کر کے پنجاب کوٹہ حاصل کرتا ہے مگر سرائیکی علاقے کو تکنیکی انداز میںآؤٹ کر کے تمام اہم عہدے خود لے لیتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ بیورو کریسی میں سرائیکی وسیب کا حصہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اس سے تو بہتر ہے کہ آئین کے مطابق پورا ملک اوپن میرٹ کر دیا جائے۔سی ایس ایس کے سلسلے میں نئی پیشرفت 10 فیصد خواتین کا کوٹہ ہے ، اس میں بھی سرائیکی وسیب کی خواتین محروم رہیں گی ، سرائیکی وسیب کی خواتین کو تب فائدہ ہو سکتا ہے جب سرائیکی وسیب کا کوٹہ ہو۔ سی ایس ایس کے امتحانی سسٹم کا مطالعہ کریں تویہ زیادتیوں کا لا متناہی سلسلہ اور تہہ در تہہ ظلم کی داستان ہے ‘پہلی زیادتی یہ ہے کہ حکمرانوں نے سرائیکی وسیب کو تعلیمی سہولتوں سے محروم رکھا ہے ۔تعلیمی سہولتیں برابر مہیا نہ ہوں تو مقابلہ در اصل کار اور جہاز سوار کا ہو جاتا ہے ۔روجھان،راجن پور ،بھکر ،بہاولنگر ،یا وہاڑی وغیرہ کے طالبعلم کا مقابلہ ایچی سن کالج کے طالبعلم سے کرانے کے نتیجہ میں اسی فیصد امیدوار تو مقابلے کی دوڑ سے پہلے ہی باہر ہوجاتے ہیں، دکھاوے کے طور پر چند ایک کو آنے دیا جاتا ہے۔ سی ایس ایس کے امتحان میں 100نمبروں کا ایک آپشنل پیپر پاکستانی زبانوں جن میں سندھی ،پنجابی ،پشتون اور بلوچی وغیرہ میں شامل ہیں، مگر سرائیکی اس میں شامل نہیں حالانکہ سرائیکی زبان یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھائی جا رہی ہے ،جس امیدوار نے گورنمنٹ کے اپنے اداروں سے اپنی گریجویشن اور ماسٹر سرائیکی میں کی ہے وہ سندھی بلوچی یا پشتو میں پیپر دیکر کس طرح نمبر لے سکتا ہے ؟سی ایس ایس کے امتحان میں عظیم سرائیکی زبان کو محروم رکھنا غلط ہے اور اس میں ایم فل اور پی ایچ ڈی ہو رہی ہے۔ آزادی کیلئے جدوجہد کرنے اور قربانیاں دینے والے آزادی کے بعد بھی پیچھے رہ گئے ، منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے کے مصداق حکمران طبقہ آج بھی قربانیاں دینے والے غریبوں کی اولادوں کو آگے نہیں آنے دے رہا ۔سی ایس ایس کے امتحان میں بھی محکوم خطے کے محروم طالبعلموں سے ’’ہاتھ ‘‘ ہوتا ہے، سینکڑوں طلبہ کو فیل کر دیا جاتا ہے ،غیر قانونی حربوں کے علاوہ پبلک سروس کمیشن کے پاس پوزیشنیں تبدیل کرنے کا سب سے بڑا قانونی ہتھیار 300نمبروں کا انٹرویو ہے جو کہ چیئر مین اور ممبران کے طے کردہ ’’باہمی فارمولے‘‘ کے تحت صوابدیدی اختیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔یہ انٹرویو محروم اور لا وارث امیدواروں کیلئے ایک ایسی بے ہودہ اور ننگی تلوار ہے جس میں ہزاروں امیدواروں کا مستقبل قتل ہوتا چلا آ رہا ہے ۔ حق تلفی کا شکار ہونیوالوں میں یہاں کے مہاجر ، پنجابی سب شامل ہیں۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے قواعد تیار ہوئے تو کہا گیا کہ سی ایس ایس افسران کو دوسرے صوبوں میں اس لئے تعینات ہونے کی اجازت ہو گی کہ یہ صوبوں کے درمیان یکجہتی اور بھائی چارے کو فروغ دیں گے مگر پنجاب کے ڈی ایم جی اور پولیس افسران سندھ اور بلوچستان کے ساتھ ساتھ سرائیکی خطے میں ان کی رعونت ‘تکبر اور غیر انسانی رویوں نے قومی یکجہتی اور بھائی چارے کی فضا کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔سرائیکی وسیب میں لاکھوں ایکڑ اراضی جو ناجائز حربوں سے لوٹی گئی اس کے ذمہ داربھی یہی افسران ہیں بلوچستان میں آج بھی پاکستان کا نام لینا جرم بن گیا ہے تو اس کے ذمہ دار بھی یہی افسر ہیں۔ رولز میں یہ بات طے کی جائے کہ ان افسران کو اپنے صوبے تک محدودرکھا جائے۔مشرقی پاکستان کے بعد سندھ بلوچستان اور پختونخواہ میں پنجاب اور پنجابی افسر کو اچھا نہیں سمجھا جاتا یہ افسران پنجاب کیلئے ’’گالی‘‘ بن چکے ہیں حالانکہ پنجاب کا مزدور ، پنجاب کا کسان اور پنجاب کا عام آدمی بے قصور ہے۔ ’’بے قصور‘‘ کوگالیوں سے بچانے کا حل پنجاب کو تین حصوں یعنی پنجاب ،سرائیکی وسیب اور پوٹھوہار میں تقسیم کرنا ہے لیکن’’بے قصوروں ‘‘ کا بھی حق بنتا ہے کہ وہ آواز بلند کریں اور مظلوموں کا ساتھ دیں ۔