ڈپٹی کمشنر اسلام آباد محمد حمزہ شفقات نوجوان افسر ہیںاپنے دفتر کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی متحرک رہتے ہیں میںٹوئٹر پر ان کے ’’مریدوں ‘‘ میں سے ہوں اس ڈیجیٹل بیعت کا خالص مقصد موجودہ حالات میں سرکاری اقدامات سے آگاہی ہے میں نے کورونا کے ان دنوں میں اپنی ڈیوٹی لگا رکھی ہے کہ کسی بھی وقت ایک نظر ان کے ٹوئٹر پر ڈال لوںکہ شائد کوئی بھلی خبر مل جائے یہ الگ بات ہے کہ وہاں سوائے خوف کے کچھ نہیں ملتا ،چند روز پہلے ہی انہوں نے اسلام آباد کے سب سے زیادہ خطرناک کورونائی علاقوں کی فہرست جاری کی ،ان میں اسلام آباد کا سیکٹر آئی ٹین سرفہرست تھا،میرا چونکنا اور پریشان ہونا فطری امر تھا کہ میں اسی سیکٹر پرعین مرکز کے سامنے رہتا ہوں ،کمشنر صاحب کے مطابق اسلام آباد کے سیکٹروں میں سب سے زیادہ بائیس کیسز اسی سیکٹر میں ہیں ،یہ خوفناک اطلاع لے کر میں اپنے گھر کے باہر کھڑاہو کرسامنے روڈ پار تجارتی علاقے کا جائزہ لینے لگاکہ اب تویقینا انتظامیہ کی جانب سے کوئی خاص احتیاطی انتظامات کئے گئے ہوں گے مگر وہاں تو زندگی معمول کے مطابق تھی جو نہیں ہونی چاہئے تھی میں حیران ہوں کہ ایک طرف دارلحکومت کی انتظامیہ کہہ رہی ہے کہ یہ سیکٹر اسلام آباد کا خطرناک علاقہ بن چکا ہے اوردوسری جانب یہاں احتیاط کا یہ عالم ہے ؟ پھر نام نہاد سخت لاک ڈاؤن کی جگہ نرم اسمارٹ لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا گیا اب مجھے بتایئے کہ بندہ سوائے سرپیٹنے کے اور کیا کرے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہاں ڈپٹی کمشنر صاحب کرسی ڈال کر بیٹھ جاتے اور ایس او پی پر عملدرآمد کراتے تو بہت کچھ بہتر ہوجاتاانکے اسی ٹوئٹر پرشہریوں نے بنا احتیاطی تدابیر کے کھلی دکانوں ،تھڑوں کی تصاویر بھیج رکھی تھیں وہ اسی پر نوٹس لے لیتے یہ سب دیکھتے ہوئے اور ہمارے کورونا کے ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت دیکھنے کے بعد اگر مائیکرو سوفٹ والا بل گیٹس کہے کہ پاکستان اور بھارت میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کے اعداد وشمار کم ہیں تو غلط کہنے کے لئے دلیل کہاں سے لائیں مجھے آج بھی افسوس ہے کہ کاش ہم نے کل احتیاط کر لی ہوتی تو آج ہم نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کی طرح کورونا کو شکست دینے کا ا علان نہ بھی کررہے ہوتے تو کم از کم یوں چاروں شانے چت نہ پڑے ہوتے اگرچہ ہم خوش ہیں کہ پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش میں کورونا وہ تباہی نہ پھیر سکا جسکاہمیں خدشہ تھا لیکن دنیا ہمارے اعدادو شمار ماننے پر تیار نہیں ہے کورونا سے لڑنے کے لئے اپنی دولت پانی کی طرح بہانے والے دنیا کے مالدارترین افراد میںسے ایک بل گیٹس نے تو کل ہی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت اور پاکستان جیسے ملکوں میں کم کیسزکا آنا غیر یقینی ہے بل گیٹس نے سات سمندر پار بیٹھ کر اپنے خدشات ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کچی آبادیوں میں وسیع پیمانے پر یہ وبا پھیل سکتی ہے،ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ایسے ملکوں میں سخت لاک ڈاؤن بھوک اور ہنگاموںکا باعث بن سکتا ہے اور ایسا ہو رہا ہے سندھ کے دیہی علاقے جھڈو میں آٹھ ماہ کی حاملہ بھوک کی شدت سے مٹی میں مل چکی ہے جھڈوسے پانچ کلومیٹر دور نبی سر موڑ پر واقع پندرہ بیس گھروں پر مشتمل چھوٹے سے گاؤں میںکسی قسم کی ہنگامہ آرائی تو نہیںہوئی بس پینتالیس برس کی روبینہ فاقوں سے دم توڑ گئی ہم پر کوروناکے بعد بھوک نے حملہ کیا ہے کراچی ملک کا سب سے بڑا صنعتی تجارتی شہر ہے یہاں لاک ڈاؤن نے کارخانے فیکٹریاں اور بازار تو بند کرا دیئے لیکن بھوک لوگوں کو اپنے گھروں تک محدود نہیں رکھ سکی یہی صورتحال ملک بھر میں رہی ہے لاک ڈاؤن موٹر ویز ،شاہراؤں اور سڑکوں تک تو تھا بڑے بازار مارکیٹیں بھی بند تھیں لوگوں کی آمدورفت بھی کم ہوئی لیکن جو ٹارگٹ تھا وہ ہم حاصل نہ کرسکے حکومت بڑی مشاورت کرکے متمول طبقے کے ساتھ ملاتی اورکورونا کو مات دینے کے لئے بھوک کو بھی ٹھکانے لگانے کا انتظام کرتی کرفیو کی طرز کا لاک ڈاؤن کرکے غریبوں کے گھروں پر پندرہ ،بیس دن مہینے کا راشن پہنچایا جاتا توغریب دیہاڑی دار باہرر نکلنے پر مجبور نہ ہوتے لیکن ہم نے سرحدیں کھلی رکھیں ،مسافر بردار طیاروں کی پروازیں جاری رکھیں اور آج نتائج بھگت رہے ہیں ہمیں برما سے سیکھنا چاہئے تھابرما ہم سے چھوٹا اور کم وسائل کا ملک ہے لیکن اس نے سخت احتیاط کی اپنی سرحدیں سیل کردیں آنے والوں کو ائیرپورٹ سے نکلنے سے پہلے قرنطینہ میںبھیجا جاتا رہا ساتھ ہی سخت لاک ڈاؤن بھی کیا گیا جسکے حوصلہ افزاء نتائج نکلے اب تک برما میں اس عیار وائرس سے صرف پانچ اموات ہوئی ہیں ،برما میں اس وقت صرف 146 کیسزرپورٹ ہوئے ہیں ہم اپنے قرب وجوار سے لاتعلق نہیں رہ سکتے اپنے پڑوس بھارت اور افغانستان میں کچھ اچھی صورتحال نہیں ہے ایک سو تیس کروڑ آبادی کا دیس بھارت طب اورکمپیوٹر سافٹ ویئر کے شعبے میں اپنی مہار ت کا اظہار کرتے نہیں تھکتا ،ہمارے پاکستانیوں کا ایک طبقہ علاج معالجے اوربالخصوص جگر کی پیوند کاری کے لئے میڈیکل ٹورازم پر بھارتی سفارتخانے پہنچا ہوتا ہے اس کورونا وائرس نے بھارت کی قلعی بھی کھول دی ہے حال ہی میں تین پاکستانی بھارت سے علاج کروا کر پاکستان پہنچے ہیںاور تینوں واپسی پرمفت کورونا لائے ہیں اب ان کے گھر والے سر پکڑے بیٹھے ہیں کہ کیا کیا جائے بھارت کا میڈیکل سسٹم بھی کمزور ٹانگوں پر کھڑا ہے بھارت میں ۱یک ہزارافراد میں سے صرف 53بھارتیوں کے لئے اسپتال بیڈ کی سہولت موجود ہے اور اس وقت تک بھارت میں تادم تحریر کوروناکے تینتیس ہزار سے زائدکیسز رپورٹ ہوچکے ہیں جبکہ 1079افراد اس مرض کے ہاتھوں اپنی جان چکے ہیں بھارت کا کہنا ہے کہ اس نے اب تک پانچ لاکھ پچیس ہزار افراد کا ٹیسٹ کیا ہے جس میںچار فیصد مثبت آئے اس حیرت انگیر کم شرح پر ہی دنیا ہی نہیں بل گیٹس نے بھی چونک کر غیریقینی کا اظہار کیاہے ہوسکتا ہے بل گیٹس غلط ہوں وہاں ایسی ہی حوصلہ افزاء صورتحال ہو لیکن ایک مسئلہ اور ہے سماجی ماہرین کا کہناکہ بھارت میں کورونا وائرس نے اتنا میل جول نہ کیا جتنا یہاں مسلمانوں سے نفرت کا وائرس پھیلا ہوا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہندو مسلمان سبزی فروشوں سے آلو پیاز بھی نہیں خریدرہے ،انہیں ’’وائرس بم ‘‘ کہہ کر اپنے علاقوں سے بھگا رہے ہیں کورونا وائرس کا تو آجکل میں علاج نکل آئے گا کوئی نہ کوئی ویکسین بن جائے گی اس نفرت کے لئے ویکسین کس لیبارٹری میںتیار ہوگی اور کون اس زہر کا تریاق کرے گا!