محمد بن احمد البیرونی، عظیم مسلم سائنسدان، ماہر ِ ارضیات، تاریخ، ریاضی، نجوم اور لسانیات کا استاد۔۔۔ جو 9 ستمبر973ء وسط ایشیا کی ریاست خوارزم کے مضافات میں پیدا ہوا۔ گیارہویں صدی عیسوی کے دوسرے عشرے میں محمود غزنوی نے خوارزم کی ریاست پر قبضہ کیا، تو البیرونی بھی 1017ء میں غزنہ سلطنت کے ساتھ وابستہ ہوکر، غزنی چلا آیا، اگلے سال اس نے یہاں ایک رصد گاہ قائم کی اور دوبرس تک مختلف تجربات اور مطالعہ میں گزرنے کے بعد، اس نے ہندوستان کا سفر اختیار کیا، دریں اثنا محمود غزنوی ہندوستان پر اپنی فتوحات کا سکہ جما چکا تھا۔ پندرہ سال کا طویل عرصہ ہندوستان کے طول و عرض میں گزار کر، ان کے مذہبی عقائد، پوجا پاٹ، بودوباش، رہن سہن، طرزِ معاشرت اور طبقاتی تقسیم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اس نے سنسکرت زبان پر عبو ر حاصل کیا اور اس ضمن میں اہم اور بنیادی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد، اپنے مطالعہ اور مشاہد ہ کو ’’تحقیق ماللہند‘‘کے نام سے مدون کیا۔البیرونی ہندی معاشرے کے مختلف طبقا ت اور ان کے درمیان گہر ی تقسیم کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ پہلے زمانے میں بادشاہ اپنی رعایا کو مختلف طبقات میں تقسیم کردیتے اور پھر ہر طبقے کے ذمہ ایک کام کی تکمیل کا فریضہ سونپ دیتے۔ اس طبقاتی تقسیم میں ردوبدل کا کسی کو اختیار نہ تھا۔ اس ضمن میں سب سے اعلیٰ طبقہ ’’برہمن‘‘کا تھا۔ان کے خیال میں ان کی تخلیق براہم کے سر سے ہوئی تھی، دوسرا طبقہ کھشتریوں کا ہے جو براہم کے کندھوں اور ہاتھوں سے پید اہوئے۔ تیسرا طبقہ ویش کا ہے، جوبراہم کے پاؤں سے تخلیق پائے اور ان کا کام تجارت اور کھیتی باڑی ہے، اور سب سے نیچ طبقہ شودروں کا ہے، جو کہ حد درجہ گھٹیا ہوتے ہیں، جن کو شہروں اور عام بستیوں میں رہنے کی اجازت نہیں۔ ان کے لیے اس چیز کی بھی پابندی ہے کہ وہ اپنی مذہبی کتب ویدوں کو پڑھ نہیں سکتے اور نہ ان کو ایسی کسی محفل میں شرکت کی اجازت تھی، جس میں وید پڑھا جائے، مبادا کہ وید کے کلمات شودروں کے کانوں کے پردوں سے ٹکرائیں، اگر یہ ثابت ہوجاتا کہ شودر یا ویش نے وید سنا ہے تو براہمن اس کو حاکم وقت کے پاس پیش کر کے سزا کے طور پر اس کی زبان کٹوا سکتا ہے۔ ان طبقات اور طبقاتی تقسیم کا ذکر کرتے ہوئے، علامہ بیرونی لکھتے ہیں:اسلام نے تمام انسانوں کو خواہ وہ کسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، مساوی درجہ دیا ہے، صرف تقوٰی اور پارسائی کی بنا پر کسی کا درجہ بلند اور بر تر ہوسکتا ہے، البیرونی مزید کہتا ہے کہ اسلام کا یہ ’’نظریہ مساوات ‘‘ ہندوؤں کے لیے ایک ایسا حجاب ہے، جس کے باعث وہ اسلام کو قبول نہیں کرتے اور اس کی تعلیمات سے دور بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔زمانہ قبل مسیح، جب بھارت میں برہمنی تہذیب اپنے عروج اور شباب پر تھی، اس زمانے میں ہندی معاشرت کے لیے یہ دستور مرتب ہوا، جس کو آئینی اور قانونی حیثیت میسر ہوئی، جس کے مصنف ’’منوجی‘‘ہیں اور اس مجموعے کا نام ’’ منو شاستر‘‘رکھا گیا۔ یہ دستور حضرت مسیح کی ولادت سے تین سو سال قبل مرتب ہوا، جس میں آئینی اور قانونی طور پر سوسائٹی کو حسب ذیل چار طبقات میں تقسیم کیا گیا:برہمن،کھشتری،ویش،شودراس ضمن میں انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا کامقالہ نگار برہمن ازم "Brahmanism" کے عنوان کے تحت لکھتا ہے کہ :منو جی کے مرتب کردہ صحیفہ قانون کو ایک آسمانی تقدس حاصل ہوگیا تھا،اس کے قوانین ہر شک و شبہ سے بالا تر اور ہر تنقیدسے ماورا تھے۔ منو شاستر میں تمام طبقات کی درجہ بندی کردی گئی اور تفصیل سے ہر طبقہ کے فرائض بیان کردیئے گئے اور اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے سزائیں بھی مقرر کردی گئیں۔ یعنی جرائم کا ارتکاب اگر برہمن کرے تو ان کی سزاؤں میں غیر معمولی نرمی ملحوظ رکھی گئی ہے، اگر نچلے طبقہ کا کوئی فرد اعلیٰ طبقہ کے حکم کو پامال کرے تا اس کے لیے بڑی وحشیانہ اور غیر انسانی سزائیں مقرر ہیں۔ معاشرہ میں مجرم کا درجہ جتنا گھٹیا ہوتا اتنی ہی اسے سزا سخت دی جاتی۔ منو کے آئین کے مطابق شودروں کو مذہبی تعلیم حاصل کرنے کا بھی حق حاصل نہیں،ایسا اجتماع جس میں نیچ قوم کا کوئی فرد موجود ہو، وہاں برہمن کو بھی اجازت نہیں کہ وہ مقدس کتابوں کی تلاوت کرے۔ ایک ہی قوم کے افراد میں قانون کی یہ ناہمواری عدل و انصاف کے تصور کو ہی ختم کردیتی ہے۔ البیرونی اپنے پندرہ سالہ تجربات اور چشم دید مشاہدات کی روشنی میں لکھتے ہیں۔ شودر کی حیثیت برہمن کے غلام کی ہے۔ اس کو برہمن کے کام میں مصروف رہنا اور اس کی خدمت کرنا چاہیے ہر وہ کام جو برہمن کے لیے مخصوص ہے مثلا ً مالا جپنا، وید پڑھنا، آگ کی قربانی، شودر کے لیے منع ہے، اگر شودر یا ویش کے متعلق یہ ثابت ہوجائے کہ اس نے وید پڑھا ہے تو برہمن اس کی اطلاع حاکم کو دے اور حاکم اس کی زبان کاٹ دے۔ جناب عبد المجید سالک، برہمن کی برتری کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ’’ منو جی نے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ دنیا میں برہمن سے بر تر کوئی نہیں، وہ دھرم کی مورت، نجات کا حق دار اور دھرم کے خزانہ کا محافظ ہے اور دنیا میں جوکچھ ہے، سب براہمن کے لیے ہے۔ شودر پر عدل و انصاف کے نام پر جو ستم ڈھائے جاتے تھے،ان کا تذکرہ کیا ہے، جسے پڑھ کر رونگٹے کھڑتے ہوجاتے ہیں،جس نے یہ قانون و ضع کئے اور جس قوم نے بلا چوں و چرا، اس کو تسلیم کیا اور ہزاروں سال اس پر عمل پیرار ہی، اس کی سنگدلی کے بارے میں پڑھ کر انسان سراسیمہ اور پریشان ہوجاتا ہے،لکھتے ہیں۔’’ شودر برہمن کا پس خوردہ کھائے۔ شودر مہینہ میں صرف ایک دفعہ حجامت بنوائے۔ شودر کسی برہمن کو چور کہے تو اس کے جسم کا کوئی عضو کاٹ دینا چاہیے۔ شودر کسی برہمن کھشتری اور ویش کے ساتھ سخت کلامی کرے ،تو اس کی زبان میں سوراخ کردیا جائے ،اگر شودر کسی برہمن کا نام لے کر کہے کہ تو فلاں برہمن سے نیچ ہے تو اس شودر کے منہ میں بارہ انگلی کی آہنی میخ آگ میں سرخ کر کے ڈالی جائے۔اگر چھوٹی ذات کا آدمی بڑی ذات کے آدمی کے ساتھ ایک آسن پربیٹھے تو اس کا چوٹر کاٹ ڈالنا چاہیے۔ اس طرح کہ وہ مرے نہیں شودر کسی برہمن کے بال یا پاؤں یا داڑھی پکڑے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے، شودر کو کوئی صلاح مشورہ نہ دو دھرم اور بھرت کی تلقین بھی نہ کرو، جو شودر کو دھرم کی تلقین کرتا ہے ،وہ بدترین دوزخ میں جاتا ہے۔‘‘ شودروں کو یہ اجازت نہیں کہ وہ مندروں میں داخل ہو کر پوجا پاٹ کر سکیں نہ انہیں اس بات کی اجازت ہے کہ ان کنوؤں سے پانی بھر سکیں، جن سے اونچی ذات کے ہندو پانی بھرتے ہیں ،وہ عام شہروں میں بھی نہیں رہ سکتے بلکہ شہروں سے الگ تھلگ ان کی مخصوص آبادیاں ہوتی ہیں۔ جس معاشرہ میں اس قسم کی ظالمانہ اور جابرانہ طبقاتی تقسیم موجود ہو، بعض طبقے مراعات یافتہ ہوں اور بعض طبقے ہر رعایت سے محروم اور ہر قسم کی محرومی اور نامرادی میں محصور رہیں اور اس ظالمانہ تقسیم کی بنیاد، ان کا مذہب اور ان کی آسمانی کتاب ہو تو، اس معاشرہ کی زبوں حالی کے بارے میں کچھ بیان کرنے کی ضروری نہیں۔