وزیر اعظم عمران خان سے برطانوی پارلیمنٹ کے آل پارٹیز پارلیمانی کشمیر گروپ کے ممبران نے برطانوی رکن پارلیمنٹ ڈیبی ابراہمز کی قیادت میں ملاقات کی‘ جس میں مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر اعظم پاکستان نے برطانوی وفد کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے آگاہ کیا۔ دوسری جانب قابض فوج نے مزید تین کشمیری نوجوانوں کو شہید کر دیا ہے ،جبکہ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ نے بھی بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ روا امتیازی سلوک پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ 5اگست 2019ء کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے وادی میں کرفیو نافذ کیا،جو 200یوم سے بغیر کسی توقف کے نافذ ہے۔ ان دو سو ایام میں بھارت نے کشمیریوں کی نسل کشی کرنے کے ساتھ ساتھ ہر وہ حربہ آزمایا جس سے کسی انسان کو زیر کیا جا سکتا ہے لیکن کشمیری عوام نے تمام تر دبائو برداشت کر کے حوصلے اور استقامت سے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کسی طرح بھی بھارت کے ساتھ رہنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔اس عرصے کے دوران پاکستان نے عالمی سطح پر کامیاب سفارتکاری سے بھارتی حکومت کے اوچھے ہتھکنڈوں سے اقوام عالم کو آگاہ کیا ہے، جس کی بدولت آج ایک بار پھر کشمیر عالمی سطح کا مسئلہ بن گیا ہے ۔اس میں بھی کوئی رائے نہیں کہ یہ مسئلہ برطانیہ کا ہی چھوڑا ہوا ہے۔1947ء میں اگر برطانیہ برصغیر کی تقسیم کے وقت یہ غلطی نہ کرتا تو اس خطے میں بھی امن و سکون ہوتا لیکن 71برس قبل کی برطانوی غلطی کے باعث کشمیری عوام آج بھی ظلم و ستم برداشت کر رہے ہیں۔ برطانیہ کے آل پارٹیز پارلیمانی کشمیر گروپ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ماضی کی غلطی کا ازالہ کریں، کیونکہ کشمیر دو جوہری طاقتوں میں ایک فلیش پوائنٹ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اس لئے اگر عالمی برادری نے خاموشی اختیار کئے رکھی تو پھر عالمی امن پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس وقت عالمی برادری کی خاموشی اور تساہل کے باعث کئی سوالات جنم لے رہے ہیں، کچھ ممالک سوا ارب افراد کی منڈی کی بدولت اپنے مفادات کی خاطر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ خدانخواستہ اگر دونوں ایٹمی طاقتوں کے مابین جنگ چھڑ جاتی ہے تو کیا پھر تجارتی مفادات پر زد نہیں پڑے گی ؟اس لئے عالمی برادری ہوش کے ناخن لے اور اس مسئلے کے پر امن حل کے لئے کلیدی کردار ادا کرے۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے بھی بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ روا امتیازی سلوک پر تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن یہ تلخ حقیقت بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ اقوام متحدہ نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لئے منظور کی گئی اپنی قرار دادوں پر عملدرآمد کے لئے کوئی موثر کردار ادا نہیں کیا۔ اگر اقوام متحدہ نے اپنی قرار دادوں کو عملی جامہ پہنایا ہوتا، تو اس خطے میں دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے کھڑی نہ ہوتیں۔اقوام متحدہ کے چارٹر میں اس کی رکن اقوام کو جنگی جنون سے محفوظ کرنے کا عہد کیا گیا ، لیکن بدقسمتی سے یہ ادارہ بھی اپنے فرائض کماحقہ ادا نہیں کر پا رہا،جس کی بنیادی وجہ اس ادارے میں پانچ ممالک کی ویٹو پاور ہے،اسی ویٹو پاور کے باعث ظلم اور ناانصافی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ اگر اس ادارے نے بھی پانچ طاقتوں کے ہاتھوں یرغمال بنے رہنا ہے تو پھر وہ اپنے منشور پر عملدرآمد کیسے کرا پائے گا؟اسی وجہ سے اقوام متحدہ کے اجلاس بھی نشستند‘گفتند اور برخاستند کے سوا کچھ نہیں ہوتے۔ اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل اگر بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ روا امتیازی سلوک پر صرف تشویش پر اکتفا کرے گا تو پھرکسی اور ملک سے اقلیتیں کیا توقعات رکھ سکتی ہیں۔ مودی سرکار نے پہلے پلوامہ حملے کا ڈرامہ رچا کر پاکستان پر ملبہ ڈالنے کی بھی سازش کی۔جب اس میں ناکامی سے دوچار ہوئی تو اب کشمیریوں کو اغوا اور قتل کر کے پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگانے کے منصوبے تشکیل دیے جا رہے ہیں۔ گو پاکستان پہلے ہی ایسی سازشوں سے باخبر ہے، اسی بنا پر وزیر اعظم عمران خان نے آزاد کشمیر کے عوام اور وہاں کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو مقبوضہ وادی میں داخلے سے سختی سے روک دیا ہے۔ شہریت بل کے بعد بھارت میں جس طرح ہنگامے پھوٹے ہیں، مودی اپنے عوام کی توجہ ان سے ہٹانے کے لئے سرحد پر کوئی بھی ڈرامہ کر سکتا ہے۔ وزیر خارجہ‘ وزیر دفاع اور پاک افواج کے ترجمان اس کی جانب بار بار عالمی برادری کی توجہ مبذول چکے ہیں۔ عالمی برادری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بھارت کو اوچھے ہتھکنڈوں سے باز رکھے تاکہ خطے میں امن کا ماحول برقرار رہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے 5اگست 2019ء کے بعد جس طرح اقوام متحدہ اور عالمی برادری کے سامنے کشمیر کا مسئلہ اٹھایا وہ قابل تحسین ہے لیکن اس تسلسل کو برقرار رکھا جائے۔پارلیمانی وفود دنیا بھر میں بھیجے جائیں، جو عالمی برادری کی کشمیر کے معاملے پر حمایت حاصل کریں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے دنیا کو آگاہ کیا جائے۔ برطانوی گروپ کو کشمیر کے زمینی حقائق کا جائزہ لینے کے لئے مقبوضہ وادی جانے کا کہا جائے کیونکہ مودی سرکار صرف اپنے پسند کے افراد کو ہی مقبوضہ وادی کا دورہ کراتی ہے، جس بنا پر اصل حقائق عالمی برادری کے سامنے نہیں آ رہے لہٰذا برطانوی پارلیمانی گروپ محصورکشمیری عوام اور نظر بند وزراء اعلیٰ سے ملے تاکہ زمینی حقائق اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں بارے اسے آگاہی مل سکے۔