جموں شہرسے سری نگرشہرکے مابین322کلومیٹر غیر فطری روڈ کاخوفناک سفرآٹھ گھنٹوںمیں طے ہوتا ہے ۔ موسم سرمامیں برفباری میں یہ سفرجانگسل ثابت ہوتاہے اورسفرکی کلفتیں بارہ سے پندرہ گھنٹوںتک کی طوالت پکڑتی ہیں ۔موسم سرما میںاس روڈ پر سفر کرتے وقت کتنے شدائدومصائب جھیلناپڑتے ہیں تازہ ترین صورتحال پرکم وبیش گزشتہ تین ہفتوں سے اسکی دل شکن رپورٹیں سامنے آچکی ہیں ۔کشمیرکامقامی میڈیااس امرپرگواہ ہے کہ گزشتہ دنوں یہ سفرپچیس گھنٹوں پرمحیط رہااورہزاروںمسافر رل گئے، وہ زبردست ذہنی و جسمانی پریشانیوںمیں مبتلارہے اور کسمپرسی کے شکارہوئے جبکہ تاخیر سے مسافروں کے معمولات درہم برہم ہو کر رہ گئے۔گزشتہ ماہ جنوری کے اواخرمیںہوئی برفباری کے بعدسات دن تک لگاتار جموں سے سری نگرروڈبند رہااورجموں ریجن کے رام بن اوراس سے ملحقہ مقامات انوکھی فال،پنتھال اور کیلا موڑ علاقوں میںجگہ جگہ لینڈسلائیڈنگ سے ٹریفک کی نقل و حمل مکمل طورپرمسدودہوکررہ گئی۔ مجموعی طورپر دسمبر2018ء سے تادم تحریر موسم کی خرابی کے باعث سرینگرجموں روڈمتعدد اوقات بند رہی جس کے نتیجے میں وادی کشمیر میں اشیائے ضروریہ کی شدید کمی واقع ہوئی ہے۔ حالیہ ایام میں پیر پنچال کے آر پار جموں سری نگرروڈ پر تین سے چار فٹ تک برف اب بھی موجود ہے جس کے باعث عام مسافروں کو مجبور ہو کر بیسیوں کلو میٹر دشوار گزار سفر پیدل طے کرناپڑا۔ گزشتہ دنوں قاضی گنڈ سائیڈ سے بھاری برفانی تودہ ٹنل کے دہانے پر گرگیا جبکہ رام سو، رام بن، شیطانی نالہ اور پانژال کے قریب بھاری پسیاں اور تودے گرنے سے گاڑیوں کیلئے منزل مقصود کی جانب بڑھنا نا ممکن بن گیا ۔ ادھمپور، رام بن اور بانہال کے قریب جو سینکڑوںلوگ درماندہ ہوئے ن کو جان کے لالے پڑ گئے ۔دراصل کشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ اس کا بھارت کے جبری قبضے میں چلے جانا تھا اس کے بعد ہی المیوں کی پوری داستان اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ گزشتہ 60دنوں کے دوران 21مرتبہ شاہراہ بند رہی ہے۔ ایک انداز ے کے مطابق جموں سرینگرغیرفطری روڈبند رہنے سے ایک دن کے اندر کشمیر خطے کو 95کروڑ روپے کے تجارتی نقصان کا سامنا کرناپڑ رہا ہے۔ اس طرح اگر یہ کہا جائے کہ جان بوجھ کرکشمیریوں کو اقتصادی طور پر دیوالیہ کرنے کایہ منصوبہ بندپروگرام ہے تو غلط نہ ہو گا۔ موسم سرما کے دوران سری نگرجموں روڈ بند ہو جانے کی وجہ سے وادی کشمیر میں ضروری اشیاء کی سپلائی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ وادی سے باہر بھیجے جانے والے فروٹ سے وابستہ تاجروں کو بھی بے پناہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ اس خونین روڈپرگزشتہ ستربرسوں سے موسم سرمامیں ہمیشہ اس قسم کی صورتحال پیش آتی رہی ہے۔ دراصل موجودہ جموں سرینگرروڈ کلی طور پر ایک غیرفطری روڈہے ۔اگراسے جموں و کشمیر پر بھارتی جبری قبضے کی طرح ایک جبری روڈ بھی کہاجائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ واضح رہے کہ جتنے گھنٹوں کاخونین سفرجموں شہر سے سرینگرشہرتک اس غیرفطری روڈ سے طے ہوتاہے اس ایک گھنٹہ کم وقت میں کشمیرکے فطری اوربے خطر روڈ جسکی مسافت420کلومیٹرہے سے نہایت آسانی کے ساتھ سری نگرسے جموں اورجموں سے سری نگر پہنچا جا سکتا ہے۔ جموں سے سیالکوٹ 40 کلومیٹر ہے اور گاڑی میں بیٹھ کر سڑک کے ذریعے سفر آدھا گھنٹہ ہے، سیالکوٹ سے راولپنڈی 219کلو میٹر کا سفر ہے اور گاڑی کے ذریعہ یہ سفرتین گھنٹوں میں طے ہوجاتاہے راولپنڈی سے مظفرآباد 93 کلومیٹر کا پہاڑی سفرہے اورتین گھنٹے اس سفرکے طے کرنے میں درکارہوتے ہیں اور مظفرآبادسے سرینگر 123 کلومیٹر کا سفر ہے جوڈیڑھ گھنٹے میںطے ہوتاہے۔ پرافسوس کہ جموں سے سری نگرپہنچنے والایہ قدرتی اور فطری روڈکشمیر پربھارت کے جابرانہ قبضے کے باعث عام سفرکیلئے گزشتہ ستربرس سے بند پڑا ہوا ہے۔ جموں وکشمیر پربھارت کے غاصبانہ تسلط کے بعد وادی کشمیر کو جموں خطہ سے ملانے کے لئے ایک غیر فطری اورخونین روڈ نکالاگیاہے۔اس غیرفطری روڈ نے اب تک ہزاروں مسافر نگل لئے اور ہر گز رنے والے دن کے ساتھ اسکی حالت ابتر اور تکلیف دہ بنتی جارہی ہے کیونکہ کوئی ایسا دن دیکھنے کو نہیں ملتا جب اس شاہراہ پر گھنٹوں کوئی نہ کوئی حادثہ پیش آیا ہو یا سلائیڈنگ نہ ہوتی ہو۔ ایسی صورتحال ایک دن کا مسئلہ نہیں بلکہ ابتر موسمی حالات میں یہ ایک ایسا معمول بن چکا ہے جو 21ویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں، جب انسان سیاروں پر بستیاں آبا دکرنے کے منصوبے بنا رہا ہے، خطہ کشمیر زمانہ دقیانوس کی مثال دیتا ہے۔ اصولی طور پر ریاست جموں و کشمیر ایک نا قابل تقسیم وحدت ہے اور اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے اس لیے کشمیر کے دونوںمنقسم حصوں میں آمد و رفت ایک جائز اورلازمی بات ہے۔ اتنا ہی نہیں کشمیر کو جبراََغیر فطری طور پر دو منقسم حصوں میں بانٹنا ہی تاریخ کا ایک بھیانک ظلم تھا جو کشمیر پر بھارتی قبضے کے نتیجے میں رونما ہو ا۔ جموںوکشمیرپربھارت کے غاصبانہ تسلط سے 1947ء سے آج تک وادی کشمیر کی مکمل معیشت کا دارو مدار سرینگر جموں روڈ پرہے۔ پون صدی سے اس روڈکی تعمیروتوسیع کے لئے آج تک اربوں روپے خرچہ دکھانے کے باوجودیہ سڑک آسان سفرکے لئے قابل نہیںبن سکی۔کرپشن اگرچہ اہم فیکٹرہے مگراسکے باوجودچونکہ یہ غیرفطری روڈ ہے کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتی۔ جیساکہ عرض کیاجاچکاہے کہ جموںسری نگرکی اس رابطہ سٹرک کا انحصار ساز گار موسم پرہے موسم میں تھوڑی سی گڑبڑ ہوجائے گی تو وادی کا بیرون دنیا سے زمینی رابطہ منقطع ہوجاتا ہے۔ گزشتہ دنوں جواہر ٹنل کے ایک ٹیوب کے قریب بھاری برفانی تودے گرے جس کے نتیجے میں دونوں ٹیوب بند ہوگئے۔ ا س ٹنل میں کافی شگاف پڑچکے ہیں اور بھارتی قبضے کے باعث یہ ٹنل اب بوڑھی ہو گئی ہے ۔ اس سڑک کی حالت گزشتہ ستر برسوں سے لگاتار خستہ ہے۔ یہ توتھاامتداد موسم لیکن یہ روڈ استبداد برہمن کے پنجے سے بھی آزاد نہیں۔ کشمیری مسلمانوںکو بلیک میل کرنے کی سازش رچاتے ہوئے اور کشمیریوں کو فاقہ کشی کی طرف دھکیلنے کا شرمناک اقدام اٹھاتے ہوئے جموںکے ہندو انتہا پسند جماعتوں کی طرف سے کشمیری مسلمانوں کے خلاف’’ دانا پانی بند آندولن‘‘ کے تحت جمعہ4جولائی 2008ء کوہندو انتہا پسند جماعتوں کے کارکنان نے سری نگر جموں شاہراہ پر کئی روزتک دھرنا دیا اور انہوں نے سڑک پر رکاوٹیں بھی کھڑی کر دیںجس سے وادی کشمیرمیںنظامِ زندگی نہ صرف معطل ہو کر رہ گیا بلکہ قحط جیسی صورتحال پیدا ہوئی۔واضح رہے کہ اس روڈ پرانکی داداگیری کی شرمناک کہانی بھی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہے ۔سونہ مرگ کے علاقے بال تل میں ہندوئوں کے شرائن بورڈ کو اراضی کشمیر کی منتقلی کے خلاف اسلامیان کشمیر کے شدید ردعمل پر جموں خطے کی ہندو انتہا پسند جماعتوں نے کشمیر کو باہری دنیا سے ملانے والا واحد زمینی راستہ بند کر دیا ہے۔یہ سفراس لئے پرخطرہے کہ جموں سے بانہال تک یہ ساراعلاقہ سنگھی کنٹرول میں ہے۔ آج کے حالات میں جبکہ سنگھی بے لگام ہیں اور صورتحال ہمارے سامنے ہے تویہ بات محتاج وضاحت نہیں کہ بھگواقوتیں کہیںزیادہ طاقتورہوچکی ہیں جن کاہدف صرف مسلمان ہے ۔ 1947سے جموں سے کشمیرکوجانے والے فطری روڈ مظفرآبادسری نگر روڈبندپڑارہنے سے جموں بانہال روڈ وہ واحد راستہ ہے جہاں سے کشمیر کی وادی کو بھارتی ریاستوں سے ٹرکوں کے ذریعے سامان کشمیر کی وادی میں پہنچایا جاتا ہے۔جب جموںکی ہندو انتہا پسند جماعتوںنے اس روڈ کوبندکردیاتو زمینی راستہ بند ہونے سے بھارتی پنجاب ، دلی اور دوسری ہندوستانی ریاستوں سے وادی میں آنے والی اشیا اور خوراک کی سپلائی رک گئی ۔توجموں میں اس کارروائی کے بعدکشمیرمیں میں مظفرآباد روڈ کو متبادل سپلائی لائن کے طور بحال کرنے کا مطالبہ کردیا۔ جموں سرینگرروڈ بند ہونے کے ساتھ ہی جموں اور اس کے مضافات میں ہوٹل والوں کی جانب سے من مانا کرایہ وصول کرنے کی وجہ سے عام مسافروں کوبس سٹاپوں اور فٹ پاتھوں پر بستر بچھا کے بیٹھنا پڑ جاتا ہے ۔ اس غیرفطری روڈ کے بند ہونے کی صورت میں مسافروں کے پاس صرف فضائی سفر کا راستہ بچتا ہے لیکن یہ ایک روایت بن گئی ہے کہ اس سڑک کے بند ہوتے ہی ہوائی سفر کا کرایہ آسمان کو چھونے لگتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے عام دنوں کے مقابلے کرایہ میں کئی کئی گنا اضافہ کیا جاتا ہے۔ فضائی کرائے کے نام پر اس لوٹ کھسوٹ کا اس لئے کوئی پرسان نہیں کیونکہ تمام ایئرلائینزکے مالکان بھارتی ارب پتی باشندے ہیں اور منفعت پسند خود غرض ائیرلائینز کشمیری عوام کی کھال کھینچنے سے پس پیش نہیں کرتے۔ یہ کشمیری عوام کے مالی استحصال کایہ نرالا طریقہ نکالاجاچکاہے ۔