برسوں بعد آزاد کشمیر‘ شمالی علاقہ جات اور بلوچستان کے علاقوں میں شدید برف باری اور سردی نے مقامی آبادی کے لئے ہنگامی صورت حال پیدا کر دی ہے۔ برف کے تودے گرنے‘ مکانات منہدم ہونے اور سردی کی زد میں آنے والے افراد میں سے ایک سو کے لگ بھگ جاں بحق ہو چکے ہیں۔ سب سے زیادہ افراد آزاد کشمیر کی وادی نیلم میں جاں بحق ہوئے‘ ان کی تعداد 64بتائی جا رہی ہے۔ بلوچستان میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 20ہے۔ وادی نیلم کے بعض دیہات بدترین برفباری سے متاثر ہوئے ہیں اور ان کا زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ کئی مقامات پر مقامی افراد کے ساتھ ساتھ سیاحت کے لئے ان علاقوں کا رخ کرنے والے بھی محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ ضلع نیلم کی ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مسلسل برفباری کی وجہ سے امدادی کاموں میں کم از کم ایک ہفتہ لگ سکتا ہے۔ تین ہیلی کاپٹروں کی مدد سے طبی عملہ اور امدادی سامان متاثرہ علاقوں تک پہنچایا جا رہا ہے۔ امدادی کاموں کے لئے مقامی افراد کے پاس کسی طرح کی مشینری نہیں اس لئے وہ اپنی مدد آپ کے تحت ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں۔ آزاد کشمیر میں برفانی تودوں کی زد میں آنے والے زیادہ تر سکولوں کے بچے تھے‘ ملک کے دیگر سرد علاقوں کی طرح اگرچہ آزاد کشمیر میں بھی سرمائی چھٹیاں ہوتی ہیں مگر چند سکول کھلے ہونے کی وجہ سے طلباء جاں بحق ہو گئے۔ حالیہ سردی اور برفباری نے بلوچستان کے لوگوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ کوئٹہ اور اس کے نواحی علاقے میں سینکڑوں گاڑیاں اور سامان کی نقل و حمل کے لئے مستعمل ٹرک سڑکوں پر پھنسے ہیں۔ سڑکوں پر پھنسے مسافروں کے لئے خطرات بڑھ چکے ہیں۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں طویل عرصے بعد ایک بڑے علاقے میں برفباری ہوئی ہے۔ قلات‘ مستونگ‘ کوئٹہ‘ قلعہ سیف اللہ‘ زیارت‘ ہرنائی‘ پشین اور قلعہ عبداللہ موسم کی سفاکی کا شکار ہوئے ہیں۔ ان اضلاع میں شدید برفباری کی وجہ سے نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے اور حکومت نے ایمرجنسی کا اعلان کر دیا ہے‘ قلعہ سیف اللہ میں کان مہترزئی کے علاقے میں کوئٹہ پنجاب اور کوئٹہ پشاور ہائی ویز پر مسافروں کی بڑی تعداد پھنسنے کی اطلاعات ہیں۔500کے لگ بھگ ان مسافروں کو مختلف محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ قدرتی آفات از قسم زلزلہ سے محفوظ رہنے کی قبل از وقت تدابیر ناممکن ہیں‘ خصوصاً زلزلے سے بچنے کی ٹیکنالوجی تاحال ایجاد نہیں کی جا سکی۔ جن ممالک میں زلزلے آتے رہتے ہیں انہوں نے اپنے تعمیراتی انداز کو اس طریقے سے ترتیب دیاہے کہ زلزلے کی وجہ سے عمارات کو کم از کم نقصان پہنچتا ہے۔ اس سلسلے میں جاپان نے قابل بھروسہ اقدامات کئے ہیں۔2005ء میں آزاد کشمیر اور کے پی کے میں زلزلے نے بڑے پیمانے پر تباہی مچا دی۔ ایک لاکھ کے قریب لوگ مارے گئے۔ بہت کم عمارتیں تھیں جو اپنی بنیادوں پر کھڑی رہ سکیں۔ مرکزی حکومت نے صورت حال سے نمٹنے کی کوششوں میں ہم آہنگی کے لئے ایرا(ارتھ کوئیک ری کنسٹرکشن اینڈری ہیبلی ٹیشن اتھارٹی) قائم کی۔ اس ادارے کو ذمہ داری تفویض کی گئی کہ وہ علاقے کے زمینی تحفظ‘ صحت‘ تعلیم‘ شاہراہوں‘ پانی کی سپلائی‘ ویسٹ مینجمنٹ اور زلزلہ متاثرین کی دیگر بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لئے کردار ادا کرے۔ ادارے کو مختلف ادواروں‘ ممالک اور تنظیموں کی طرف سے 5.4ارب ڈالر کی امداد ملی بعدازاں جمہوری حکومت نے اس ادارے کا کردار بڑھانے کی نیت سے اسے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا نام دیدیا۔ 2005ء سے 2020تک آتے پندرہ برس ہو گئے لیکن اب تک ایرا اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی طرف سے ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کی وہ استعداد سامنے نہیں آئی جسے اطمینان بخش قرار دیا جائے۔ زلزلوں ‘ برفانی تودوں، برفباری اور سیلاب کے دوران برق رفتاری سے امدادی سرگرمیاں انجام دینے کی صلاحیت نہ ہونے کے باعث بہت سے متاثرین مدد پہنچنے سے قبل زندگی کی بازی ہار دیتے ہیں۔ اربوں ڈالرز کے فنڈز اور لگ بھگ تمام ترقی یافتہ ممالک کی بھر پور مدد کے باوجود اگر ہم ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو اپنی ضرورت کے مطابق فعال نہیں کر سکے تو ہماری حکومتوں کو اپنا محاسبہ ضرور کرنا چاہیے۔ انگریز حکمرانوں نے ضلعی انتظامیہ کو کمشنر و ڈپٹی کمشنر کے ماتحت رکھتے ہوئے اصول و ضابطہ کار طے کئے تھے وہ اب تک موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد کی نوبت نہیں آتی۔ موسمی بدلائو‘ مون سون‘ سیلاب‘ فصلوں پر ناگہانی وائرس کا حملہ‘ محرم الحرام اور عیدمیلاد النبی کے موقع پر سکیورٹی انتظامات اور ایسے دوسرے کاموں کے لئے ڈپٹی کمشنر متعلقہ محکموں اور قانون نافذ کرنے والے محکموں کے افسران کا مشترکہ اجلاس بلا کر لائحہ عمل ترتیب دیتے تھے۔ ان میں سے کچھ معاملات پر آج بھی عمل ہو رہا ہے مگر ہر بار ہنگامی حالت میں پاک فوج پر تمام ذمہ داری کا بوجھ ڈال دینا شہری انتظامیہ کی ناکامی کے مترادف ہے۔ آزاد کشمیر‘ شمالی علاقہ جات اور بلوچستان کے متاثرہ اضلاع میں ضلعی انتظامیہ متحرک ہوتی اور موسمی ایمرجنسی سے عہدہ برا ہونے کی صلاحیت رکھتی تو بہت سی زندگیوں کو بروقت بچایا جا سکتا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان کا برفباری اور تودوں سے متاثرہ علاقوں کا دورہ متاثرین کے لئے یقینا فائدہ مند ہو گا اور انتظامیہ زیادہ سرگرمی سے ان تک امداد پہنچائے گی لیکن بہتر ہو کہ ہر ضلع کی انتظامیہ کو ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کی تربیت اور مشینری فراہم کر کے اسے اس قابل بنانے پر توجہ دی جائے کہ آفات سے پہنچنے والا نقصان بروقت روک لیا جائے۔